دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابی نتائج دارالخلافہ میں
عوام کی سوچ کے اندرایک واضح تبدیلی کی علامت ہیں ۔ دہلی کے ریاستی انتخاب
میں کیجریوال کا جھاڑو بڑے زور و شور سے چلتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی انتخاب
عوام ہر جگہ کمل کھلا دیتے یعنی بی جے پی کو تمام نشستوں پر کامیاب کردیتے
۔ اس کے بعد بلدیاتی انتخاب میں پھر سے ان کا کمل پریم امنڈ آتا اور وہ بی
جے پی کے وارے نیارے کردیتے تھے ۔ پچھلے پندرہ سالوں سے دہلی کے میونسپل
کارپوریشن پر بی جے پی کا پرچم لہرا رہا تھا اور کیجریوال اس مضبوط قلعہ
میں سیندھ نہیں مارسکے تھے۔ اس مرتبہ یہ منظر بھی بدل گیا ۔ عام آدمی
پارٹی نے بی جے پی کومیونسپل کارپوریشن میں ہرا کر اس کی چولیں ہلادیں ۔ یہ
رحجان اگرقائم رہا تو قومی انتخاب میں بی جے پی کے لیے اپنی گزشتہ کامیابی
کو دوہرانا مشکل ہوجائے گا ۔ بعید نہیں کہ پارلیمانی انتخاب میں پھر سے اسی
طرح عام آدمی پارٹی کا جھاڑو چل جائے اور دہلی سے بی جے پی کا سوپڑا صاف
ہوجائے ۔
کیجریوال نے اس انتخاب کو جیتنے کی خاطر پہلے تو بی جے پی کے ہندوتوا پر
ہاتھ مارا ۔ یہ سلسلہ اس وقت سے چل رہا ہے جب انہوں نےرام بھکتوں کے مقابلے
خود کو ہنومان بھگت بناکر پیش کیا تھا ۔ اس کے بعد کرنسی نوٹ پر لکشمی اور
گنیش کی تصویروں کا مشورہ دے کر ہندووں کا دل جیت لیا اور آخری حربہ ڈبل
انجن سرکار کا نعرہ تھا۔ یہ تو گویا بی جے پی کے ترشول سے اس کا قتل کرنے
جیسا قدم تھا ۔ دارالخلافہ دہلی کی میونسپلٹی پر اپنا اثر و رسوخ بنائے
رکھنے کی خاطر بی جے پی نے بھی کئی حربے اختیار کیے ۔ عام آدمی پارٹی نے
دہلی کے اندر جو عوامی فلاح و بہبود کے کام کیے یعنی اسکول اور اسپتال
بنائے ہیں ان کا انکار ناممکن ہے۔ دہلی میں سرکاری اسکولوں کے بہتر معیار
کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ والدین نے اپنے بچوں کو نجی
اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکول میں داخل کرایا ہے۔
دہلی کی ترقی کا ماڈل گجرات کی طرح کھوکھلا نہیں ہے۔ چند ماہ قبل سنگاپور
میں اروند کیجریوال کومیئرس کی عالمی کانفرنس میں دہلی ماڈل پیش کرنے کی
دعوت دی گئی ۔ یہ بات مودی سرکار کو اس قدر ناگوار گزری کہ اس نے ایک ریاست
کے وزیر اعلیٰ کو ملک کے باہر جانے سے روکنے کا شرمناک کام کیا۔ سرکاری
اسکول کے علاوہ دہلی کے محلہ کلینک کا دورہ کرکے امریکہ اور یوروپ کے کئی
رہنما ان کی پذیرائی کرچکے ہیں ۔ مفت بجلی براہِ راست عوام کی جیب پر اثر
انداز ہوتی اور مہنگائی کے دور میں بہت بھلی معلوم ہوتی ہے اس لیے بی جے پی
نے عام آدمی پارٹی کے کٹرّ ایماندار پارٹی کی شبیہ پر ہاتھ ڈالا۔ عآپ میں
اروندکیجریوال کے بعد دوسری سب سےزیادہ مقبول عام شخصیت منیش سسودیا کی ہے
اور ان کے بعد ستیندر جین کا نمبر آتا ہے۔ ستیندر جین کو کورونا سے پہلے
کوئی نہیں جانتا تھا لیکن وباء کے دوران وزیر صحت کی حیثیت سے ہر روز ٹیلی
ویژن پر آکر رپورٹ سنانے نے ان کو مشہور کردیا۔ وہ بڑے مزے لے لے کر
تبلیغی جماعت کے لوگوں کی تفصیل بناتے تھے ۔ قدرت کا یہ عجب انصاف ہے کہ
تبلیغی جماعت تمام بے بنیاد الزامات سے بری ہوگئی یہاں تک کہ مرکز کی کنجی
بھی اسے سونپ دی گئی جبکہ ستیندر جین اب بھی جیل کی چکی پیس رہے ہیں اور
کوئی نہیں جانتا کہ کب محصور رہیں گے۔
دہلی انتخاب کے دوران اچانک ستیندر جین کی جیل سے ایک کے بعد ایک ویڈیو لیک
ہونا شروع ہوگئی۔ عام آدمی تو تفریض طبع کی خاطر ان کو ویڈیو دیکھ کر خوش
ہوتارہا مگر جیل میں ستیندر جین کی عیش عشرت دیکھ کر بی جے پی والوں کے
سینے پر سانپ لوٹتا رہا کہ انہیں یہ سہولیات کیوں مل رہی ہیں ؟ اور عآپ کو
افسوس ہوتا ہے کہ ان کا رہنما جیل میں کیوں ہے ؟ کیجریوال کا دعویٰ ہے کہ
ہماچل پردیش میں عام آدمی کو کامیابی سے محروم کرنے کے لیے جین کو جیل
بھیجا گیا مگر اس کا تو امکان ہی نہیں تھا ۔ بات دراصل یہ ہے عام آدمی
پارٹی کو بھی اپنی طرح بدعنوان ثابت کرنے کے لیے بی جے پی نے ستیندر جین کو
جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر بدعنوانی
کی بنیاد پر سیاستداں جیل بھیجے جائیں تو شاید ہی کو ئی رہنما باہر رہے الا
ماشاء اللہ اور ان میں سب سے کثیر تعداد زعفرانیوں کی ہوگی۔
دہلی کی انتخابی مہم کے دوران منظر عام پر آنے والی اچانک ستیندر جین کی
ویڈیوز میں سے کسی میں وہ بہترین کھانا نوش فرماتے ہوئے نظر آتے تھے یا
کہیں ان کی مالش ہورہی ہوتی تھی۔ عآپ والے صفائی پیش کرتے کہ جین ہونے کے
سبب جیل میں پرہیزی کھانا نہیں ملتا نیز جسے مالش کہا جارہا ہے وہ ایک بوڑے
مریض کی فزیو تھیرپی ہے وغیرہ ۔ ایک ویڈیو میں تو عصمت دری کا ایک ملزم جین
کے پیر دباتا بھی نظر آیا ۔ اس پر بیرسٹر اسدالدین اویسی کو یہ کہنے کا
موقع مل گیا کہ خالد سیفی کی جیل میں ٹانگیں توڑ دی گئیں جبکہ جین کے پیر
دبائے جارہے ہیں۔ یہ بات تو درست ہے لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایک رکن
پارلیمان بیرسٹر کی حیثیت سے انہوں نے خالد سیفی کو چھڑانے کے لیے کیا کیا؟
کچھ نہیں تو کم از کم عیادت ہی کردیتے کیونکہ خالد سیفی کا گھر اور اویسی
صاحب کا سرکاری مکان دہلی ہی میں ہے۔
ستیندر پر جین کو جیل میں ڈالنے سے بات نہیں بنی تو ای ڈی نے منیش سسودیہ
کو آبکاری معاملے میں پھنسانے کی کوشش کی ۔ ای ڈی نے چھاپہ مارا اور
گرفتاری کا ماحول تیار ہوگیا ۔ اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر منیش سسو دیہ نے
گجرات اپنی راجپوت نسل ذکر کرکے اپنے ذات بھائیوں کو عآپ کا ہمدرد بنانا
شروع کردیا ۔ اس دوران دہلی میں مہاراشٹر کی مانند آپریش کمل کی سعی کی
گئی ۔ منیش سسودیہ نے الزام لگایا کہ ان کو ایکناتھ شندے کی طرح وزیر اعلیٰ
بنانے اور ای ڈی کی تفتیش بند کروانے کا لالچ دیا گیا ۔ اس کے جواب میں عام
آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی کے اندر پھر سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے یہ
ثابت کیا کہ ان کا قلعہ محفوظ ہے۔ اس طرح جھارکھنڈ کی طرح دہلی میں بھی بی
جے پی کا آپریشن لوٹس ناکام ہوگیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ مرکزی حکومت نے ایف
آئی آر میں تو منیش سسودیہ پر شراب کے ٹھیکے میں بدعنوانی کا الزام لگایا
مگر فردِ جرم سے اسے غائب کرکے خود اپنی تردید کر اور ان کو کلین چٹ دے دی
گئی ۔ مرکزی حکومت کا اس طرح عام آدمی پارٹی کو معتوب کرنا عوام کے اندر
اس کے تئیں ہمدردی پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔
الیکشن کمیشن نے جس وقت ہماچل پردیش میں انتخاب کا اعلان کیا تو سب جانتے
تھے کہ جلد ہی گجرات کا بھی نمبر ہے لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ درمیان
میں ایم سی ڈی بھی کود پڑے گی ۔ عام رائے تو یہ ہے جب کیجریوال گجرات کے
رائے دہندگان پر اثر انداز ہونے لگے اور اس سے بی جے پی کا نقصان ہونے لگا
تو جان بوجھ کر سازش کے تحت درمیان میں دہلی کے بلدیاتی انتخاب کا اعلان
کیا گیا ۔ اس کا مقصد عام آدمی پارٹی کو گجرات سے برگشتہ کرنا تھا ۔ اس
مقصد میں بی جے پی کو کامیابی ملی ۔ ایم سی ڈی کے سبب اروند کیجریوال اور
عام آدمی پارٹی کی ساری توجہ گجرات اور ہماچل سے ہٹ کر دہلی پر مرکوز
ہوگئی۔ یہ ان کی مجبوری تھی لیکن سیاسی اعتبار سے درست فیصلہ تھا کیوں کہ
ایسا کرکے اس نے پندرہ سال بعد بی جے پی دہلی میں زبردست پٹخنی دے دی۔ بی
جے پی کو اپنی اس شکست کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیےگجرات سے ایک دن پہلے
دہلی نتائج کا اعلان ہوا تاکہ اگلے دن اس کے منفی اثرات کو زائل کیا جاسکے
لیکن اگر کل پھر کچھ الٹ پھیر ہوجائے تو یہ لوگ کیا کریں گے؟ اس لیے کہ
انتخاب میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
بی جے پی جب پریشان ہوجاتی ہے تو ہندو مسلمان کھیلنے لگتی ہے۔ اس مقصد کے
حصول کی ۶؍ ماہ قبل ہونے والے شردھا مرڈر کیس کو زندہ کیا گیا اور ہر روز
آفتاب کے بارے میں نت نئی تفصیلات اخبار میں لائی گئیں حالانکہ اس کے بعد
بھی کئی ایسے بہیمانہ قتل ہوئے۔ دہلی کے اندر بھی ایک شخص نے اپنے ساتھ
رہنے والی عورت کے پانچ ٹکڑے کردیئے لیکن چونکہ وہ مسلمان نہیں تھا اس لیے
وہ خبر آئی گئی ہوگئی ۔ اس کے برعکس آفتاب کے معاملے کو گرم رکھا گیا ۔
ایک قاتل اگر اپنے جرم کا اعتراف کرلے تو اس معاملے کو طول دینا بے معنیٰ
ہے لیکن چونکہ دہلی کے علاوہ گجرات انتخاب میں بھی اس کا استعمال کرنا تھا
اس لیے وہ معاملہ ذرائع ابلاغ پر چھایا رہا لیکن دہلی میں تو کم از کم بی
جے پی کی دال نہیں گلی ۔ امسال جہانگیر پوری میں فسادات کروائے گئے اور
بلڈوزر بھی چلا ۔ اس کے باوجود وہاں بی جے پی ہار گئی اور وہ بلڈوزر اوکھلا
میں بھی آکر نامراد لوٹا لیکن مسلمان نہیں ڈرے اور انہوں نے وہاں بھی کمل
کو مرجھا دیا۔ درمیان میں پسماندہ مسلمانوں کا شوشہ اور ڈوبھال کے ذریعہ
اسلام کی تعریف بھی بی جے پی کا بھلا نہیں کرسکی اور وہ چاروں خانے چت
ہوگئی ۔ دہلی الیکشن ای ڈی اور بلڈوزر سیاست کے لیے موت کا پیغام ہے ۔ بی
جے پی کی ابتر حالت پر میر تقی میر کا یہ شعر ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس دلی نے آخر کمل کا کام تمام کیا
|