الیکشن کمیشن یا پنجرے کا طوطا

ٹی این سیشن کے زمانے میں حکومت الیکشن کمیشن کے سامنے تھر تھر کانپتی تھی اب الیکشن کمیشن سرکار کے آگے دم ہلاتا ہے۔ اس کا تازہ ثبوت وزیر داخلہ کے متنازع بیان پر کمیشن کی صفائی ہے۔ اسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا سرکار کا کام گندگی پھیلانا ہے اور کمیشن کی ذمہ داری اس کو صاف ستھرا کرکے پیش کرنا ہوکر رہ گیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران امیت شاہ نے کھیڑا ضلع کے مہودھا قصبے میں کہا تھا کہ کانگریس کے دور میں فسادات عام تھے۔ کانگریس نے مختلف مذاہب اور ذاتوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑنے پر اکسایا اور ایسا کرکے اپنا ووٹ بینک مضبوط کیا ۔ سماج کے بڑے طبقے کے ساتھ ناانصافی کی حالانکہ سچائی یہ ہے کہ بی جے پی جب بھی اقتدار سے محروم ہوتی ہے وہ اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی خاطر لوگوں کو بھڑکا کر فسادات کرواتی ہے ۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے شاہ نے مزید کہا تھا کہ بھروچ میں بھی فسادات ہوئے ،کرفیولگا اور تشدد ہوا تھا۔ 2002 میں بھی انہوں نے فرقہ وارانہ تشدد کی کوشش کی۔ ہم نےانہیں ایسا سبق سکھایاکہ اب 20 سال ہو گئے ہیں ایک بار بھی کرفیو نہیں لگا۔

امیت شاہ کے اس اشتعال انگیز بیان کے بعد ریٹائرڈ بیوروکریٹ ای اے ایس سرما نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر الزام لگایا تھا کہ یہ تقریر ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔اس شکایت کی جانچ کرنے کے لیے گجرات کے چیف الیکٹورل آفیسر سے رپورٹ طلب کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے پایا کہ وزیر داخلہ نے کسی خاص کمیونٹی کو نہیں بلکہ ’’شرپسندوں‘‘ کو سبق سکھانے کی بات کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پنجرے کا طوطا اتنا بھولا ہے کہ وہ بات نہیں سمجھتا جسے سمجھ کر گجرات کے رائے دہندگان نے بی جے پی کو ووٹ دیا؟ اگر یہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے تو کیا بلقیس بانو کے اہل خانہ کو قتل کرنے والے درندوں کی سزا معاف کرنا سبق سکھانا ہے؟ کیا گودھرا میں پتھر بازی کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے ضمانت کی مخالفت کرنا سبق سکھانا ہے ؟ پتھر بازی کا غیر ثابت شدہ جرم زیادہ سنگین ہے یا عصمت دری اور قتل و غارتگری ؟ کیا فساد ی کی بیٹی کو الیکشن کا ٹکٹ دے کر کامیاب کرنا سبق سکھانا ہے؟ ان حرکتوں کا سبق تو یہ ہے کہ دنگا فسادکرو بی جے پی پذیرائی کرے گی ۔

عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اس لیے نئی نسل بھول چکی ہے کہ 2002 میں کیا ہوا تھا ۔ گجرات کے فساد کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اس کے فوراً بعد جب احمد آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ وزیر اعلی نریندر مودی کو وہ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟اس چبھتے ہوئے سوال کے جواب میں اٹل جی نے برابر میں بیٹھے مودی کی جانب دیکھے بغیر کہا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ کے لیے میرا ایک ہی پیغام ہے کہ وہ راج دھرم (حکمراں کے فرائض) پر عمل کریں۔ راج دھرم کی اصطلاح بہت معنی خیز ہے ، میں بھی اسی پر عمل کر رہا ہوں، حکمراں ’پرجا پرجا‘ (عوام کےدرمیان) میں فرق نہیں کرسکتا، نہ جنم کی بنیاد پر، نہ ذات کی بنیاد پر اور نہ مذہب کی بنیاد پر‘۔ سوال یہ ہے کہ اٹل جی کو پہلے تو راج دھرم کی تلقین اور پھر تفریق و امتیاز پر تنقید کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس بات کامطلب بغل میں بیٹھے نریندر مودی سمجھ گئے اور انہوں نے واجپئی کی جانب دیکھ کر دبے لہجے میں کہا کہ ’ہم بھی یہی کر رہے ہیں‘۔ ان کا مطلب غالباً یہ تھا کہ راج (اقتدار) کی خاطر مذہبی جذبات کا استحصال کررہے ہیں۔ اٹل اس وقت نہیں سمجھے اس لیے یہ کہہ کر اپنی بات مکمل کردی کہ ’مجھے یقین ہے کہ نریندر بھائی بھی یہی کر رہے ہیں‘۔ اٹل جی کو آگے چل کر یہ احساس ہوگیا کہ مودی جی اور گجرات کے فسادات ان کی شکست کا شاخسانہ بن جائیں گے ۔ ویسے اٹل جی نے تو بعد میں اس کا اعتراف بھی کیا تھا ۔ اس بابت بی بی سی سے بات چیت میں بی جے پی کے سابق رہنما اور اب شدید ناقد شنکر سنگھ واگھیلا نے کہا تھا کہ ’اپریل 2002 میں بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو میٹنگ گوا میں ہوئی تھی۔ اس موقع پر واجپائی نے مودی کو گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا ذہن بنا لیا تھا، لیکن اڈوانی اس کے لیے تیار نہیں تھے‘‘۔

اپنے ایک تازہ انٹرویو میں شنکر سنگھ واگھیلا نے اڈوانی سے اپنی ملاقات کا دلچسپ قصہ بھی سنایا۔اس سے اشارہ ملتا ہے اڈوانی کو بہت دیر سے جاکر ان کی غلطی کا احساس ہوگیا تھا ۔ ان کے مطابق ’ جب اڈوانی جی کی بیوی کملا جی کا انتقال ہوا تو میں ان سے ملنے گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے گوا میں مودی کو بچایا تھا اور اب پارٹی میں آپ کی کیا حالت ہو گئی ہے؟ اڈوانی نے کچھ نہیں کہا اور رونے لگے۔‘ ظاہر ہے اڈوانی جی اپنی حالتِ زار پر آنسو بہا رہے تھے کیونکہ ان کا غمگساراب اس دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ وطن عزیز میں سیاستدانوں کے الزامات کو لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن 2002 کے فسادات کو روکنے کی ذمہ داری نبھانے والے فوجی جنرل کی بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’دی سرکاری مسلمان‘ میں تفصیل سے لکھا کہ امیت شاہ جس سبق کی بات کررہے ہیں وہ کیسے سکھایا گیا ؟

گجرات فساد کے بعد ریاستی حکومت نےان پر قابو پانے کے لیے فوج طلب کی تو آرمی چیف نے یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کے سپرد کردی کیونکہ ان کی ’سٹرائک کور ڈیویژن‘ اس وقت پڑوسی ریاست راجستھان میں تعینات تھی۔ جنرل شاہ نے سبکدوشی کے بعد اپنی کتاب میں ان حقائق کو ایک دستاویزی شکل دے دی اور ایسے انکشافات کیے جو چیخ چیخ کر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ جنرل شاہ کے مطابق حکم ملتے ہی وہ فوجی دستے فضائیہ کے طیاروں میں سوار ہو کر احمد آباد پہنچ گئے تھے لیکن وہ لوگ ایک دن سے زیادہ ہوائی اڈے پر ہی بیٹھے رہے کیونکہ ریاستی حکومت نے ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا ۔جنرل ضمیر الدین شاہ اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ’جب ہم احمد آباد شہر کے اوپر پرواز کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ پورے شہر میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے۰۰۰ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب ہم پہنچیں گےتو ہمیں گاڑیاں، مجسٹریٹ، پولیس گائیڈ اور سیل فون ملیں گے۰۰۰لیکن وہاں ہمارے ایک برگیڈیئر کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔‘

جنرل شاہ کا کہنا ہے کہ وہ ہوائی اڈے سے سیدھے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ گئے جہاں اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈیز بھی موجود تھے۔انھوں نے دونوں کو بتایا کہ انھیں کن چیزوں کی ضرورت ہو گی اور لوٹ کر ہوائی اڈے آ گئے لیکن پوری رات اور اگلا پورا دن انتظار میں گزر گیا اور آخرکار دو مارچ کی صبح تقریباً دس بجے انھیں گاڑیاں اور گائیڈ فراہم کیے گئے۔ ان کے مطابق ’اس کے بعد ہم نے اڑتالیس گھنٹوں میں صورتحال پر قابو پا لیا‘۔جنرل شاہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ مجرمانہ غفلت ایک ایسے وقت میں کی گئی جب پولیس ان حملہ آوروں کا ساتھ دے رہی تھی یا خاموش کھڑی تھی جنھوں نے جگہ جگہ اقلیتوں کے علاقوں کو گھیر رکھا تھا۔ ‘ان کے خیال میں ہوائی اڈے پر ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ کیا جانا ’انتظامی غلطی‘ تھی اور اگر فوج کو احمد آباد پہنچتے ہی گاڑیاں مل گئی ہوتیں تو فسادات کو جلدی روکا جا سکتا تھا۔ان کی منطق یہ ہے چونکہ تین دن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آسانی سے تین سو سے زیادہ جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ اس تاخیر کے لیے کون ذمہ دار ہے ؟ کیا اس سے شک کی سوئی گھوم کر اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی جانب نہیں آجاتی جنھوں نے راج دھرم نبھانے کا اعلان کیا تھا۔ گجرات فساد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور لکھا بھی گیا لیکن وقت کے ساتھ عوام نے ا سے بھلا دیا تھا ۔ نئی نسل کو اس کا علم بھی نہیں کہ کیا ہوا تھا اور اس طرح بی جے پی کے گناہوں پر وقت کا پردہ پڑ گیا تھا ۔ ایس آئی ٹی کے ذریعہ حاصل کردہ کلین چٹ اور ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک اس کی توثیق نے اس کے دامن پر لگے داغ کو دھندلا کردیا تھا لیکن امیت شاہ نے پھر سے ان زخموں کو تازہ کردیا ہے۔وزیر داخلہ ایک احمقانہ حرکت سے جنرل ضمیرالدین شاہ کی کتاب اور شنکر سنگھ واگھیلا کے جرأتمندانہ بیانات پھر سے موضوع گفتگو بن گئے اور بی جے پی کا کریہہ چہرا عوام کے سامنے آگیا ۔

اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر الیکشن کمیشن اس اشتعال انگیز اور غیر حکیمانہ بیان پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی کے ایک بیان میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا مجھے امید ہے مودی اور شاہ میرے ساتھ ہرین پنڈیا (جیسا معاملہ کرنے کی) منصوبہ بندی تو نہیں کررہے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو مجھے اپنے دوستوں کو ہوشیار کردینا چاہیے ۔ خبردار میں وہی اچھی طرح (لوٹا) دیتا ہوں جو مجھے ملتا ہے۔اس جوڑی نے آر ایس ایس کے بڑے رہنماوں سے بھی فریب دہی کی ہے۔اس بیان میں پوشیدہ منصوبہ بندی ہی وہ سبق ہے کہ جس سے ڈر کر الیکشن کمیشن سرکار کی کسی غلط کاری کے خلاف چونچ کھولنے کی جرأت نہیں کرتا۔ کسی اور نے نہ سہی تو کم ازکم الیکشن کمیشن نے تو سبق سیکھ ہی لیا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449612 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.