ظلم و جبر کے خلاف ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ کوئی اس کے غم
میں جان دے کر خودکشی کرلیتا ہے۔ کچھ لوگ نظر انداز کرکے خاموشی اختیار
کرلیتے ہیں۔ بیشتر رونے دھونے اور ماتم کرنے لگتے ہیں لیکن بلا خوف و خطر
اس کا مقابلہ کرکے سرخرو ہونے والے قابلِ ستائش ہیں ۔ اسلاموفوبیا یعنی
مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی شمال وجنوب کی بی جے پی والی اور دیگر پارٹیوں
کی حکومت والی ریاستوں میں بھی ہوتی ہے کیونکہ یہ سیاسی سے زیادہ سماجی
مسئلہ ہے۔ اس افسوسناک صورتحال کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ نئی نسل ہر جگہ
اس کا منہ توڑ جواب دے کر مخالفین کے دانت کھٹے کررہی ہے ۔ پچھلے دنوں
کرناٹک میں ایک واقعہ پیش آیا تو طالب علم نے پروفیسر کو معافی مانگنے پر
مجبور کردیا۔ راجستھان کے اندرلاکھ ڈرانے دھمکانے کے باوجود ایک طالبہ
پولیس تھانے میں پہنچ گئی ۔ ان دونوں واقعات میں مسلم نوجوانوں کے دلیری
وبہادری کا ثبوت ہیں۔ اس عزم کا اظہار ہیں کہ ’ہم لڑیں گے اور ہم جیتیں گے
‘۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کامیابی و کامرانی رونے والوں کونہیں ملتی بلکہ لڑنے
والوں کے قدم چومتی ہے۔
کرناٹک وہ ریاست ہے جہاں مسکان خان نے حجاب کے مخالفت اوباش طلباء کی اللہ
اکبر کا نعرہ لگا کر دھجیاں اڑا دی تھی۔ ملک و بیرون ملک مسکان خان کی
پذیرائی اور ہندوتو نواز بدمعاشوں کی مذمت ہوئی۔ سچے کا بول بالا اور
جھوٹوں کا منہ کالا ہوگیا۔ حالیہ واقعہ میں منی پال یونیورسٹی میں ایک
پروفیسر نے مسلم طالب علم کو کلاس کے دوران اجمل قصاب کے نام سے پکارنے کی
غلطی کردی۔ اس پر وہ طالب علم بپھر گیااور دوستوں نے اس کی ویڈیو وائرل
کردی جوایک غیبی مدد تھی ۔ ملک بھر میں ویڈیو کے چرچے ہوئے اور سوشیل میڈیا
پر پروفیسر کی مذمت ہونے لگی تو انتظامیہ کو موصوف کے خلاف تادیبی کارروائی
کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس ویڈیو کے میں کلاس روم کے اندر ایک پروفیسر
مسلم طالب علم سے نام پوچھتا نظر آتاہے اورجواب سن کر کہتا ہے ’’اچھا تم
قصاب کی طرح ہو‘‘ ۔ اس کا اشارہ ممبئی میں 26/11 کے دہشت گردانہ حملے میں
ملوث پھانسی کی سزا پانے والےاجمل قصاب کی طرف تھا ۔ بس پھر کیا تھا طالب
علم ایک شیر کی مانند جھپٹ کر جواب دیتا ہے کہ ’’آپ جو نام پکار رہے ہیں وہ
قابل قبول نہیں ہے اور وہ کسی طور پر بھی اس نام کو اپنے نام کے ساتھ جوڑنے
کے لیے تیار نہیں ہے‘‘۔
اس غیر متوقع حملے سے گھبرا کر پروفیسر معذرت خواہانہ انداز میں کہتا ہے
میں تو مذاق کررہا تھالیکن خوددار طالب علم کا غصہ کم نہیں ہوتا وہ کہتا ہے
کہ ’’26/11 کوئی مذاق نہیں ہے کہ آپ مجھے اس سے منسوب کریں ویسے بھی آئے دن
ملک کا مسلمان پریشان کیا جاتا ہے‘‘۔اس احتجاج کے بعد پروفیسر کے ہوش
ٹھکانے آجاتے ہیں اور ا احساس ہوجاتا ہے کہ غلط قوم سے پنگا لے لیا ۔ طالب
علم کا جذباتی استحصال کرنے کی خاطر کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے اپنے بیٹے کی
طرح ہے ۔ طالب علم جھانسے میں آنے سے انکار کرکے پوچھتا ہے’’کیا آپ اپنے
بیٹے کو بھی دہشت گرد کہنا پسند کریں گے؟ ‘‘نہ کہنے پر وہ پھر سوال کرتا ہے
:’’تو آپ کس طرح اتنے سارے لوگوں کے سامنے مجھے اس نام سے جوڑ رہے ہیں؟ آپ
ایک پروفیسر ہیں اور آپ کو یہ زیب نہیں دیتا‘‘ پروفیسر کے معافی مانگنے پر
وہ کہتا ہے :’’ صرف معافی مانگ لینے سے کسی کی سوچ نہیں بدلتی ہے۔آپ کو
اپنی سوچ بدلنی پڑے گی‘‘۔
اس ویڈیو میں استاد اور شاگرد کی حیثیت بدلی ہوئی ہے؟ عام طور استاد ڈانٹتا
اور شاگرد معذرت پیش کرتا ہے لیکن یہاں الٹا تھا طالب علم کی آخری نصیحت
پروفیسر کو پانی پانی کردیتی ہے ۔ کلاس میں پیش میں موجود بیشتر غیر مسلم
طلباء میں سے کوئی بھی استاد کی حمایت میں نہیں آتا بلکہ اپنی خاموشی سے
طالبعلم کی تائید کرتے ہیں۔ منی پال انسٹی ٹیوٹ پروفیسر کو عارضی طور پر
معطل کرکے یہ بیان جاری کرتا ہے کہ اس واقعہ کی تفتیش کے مکمل ہونے تک
متعلقہ اسٹاف کو کلاسز لینے سے روک دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارہ یہ وضاحت بھی
کرتا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ اس قسم کے رویے کو معاف نہیں کرتا اور اس معاملے
کواصول و ضوابط کے مطابق نمٹایا جائے گا۔یہ ویڈیو جب وائرل ہوئی تو متعدد
صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے اس کی مذمت میں ٹویٹ کیے۔ اپاسالا یونیورسٹی
کے پروفیسر اشوک سوائن نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت میں ایک
پروفیسر کلاس روم کے اندر ایک مسلمان طالب علم کو ’دہشت گرد‘ کہہ کر پکار
رہا ہے، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔
تعلیمی برادری کے علاوہ عالمی انعام یافتہ صحافی سواتی چترویدی نے ٹوئٹ میں
لکھا کہ یہ ویڈیو شرمناک ہے اور نریندر مودی کے بھارت میں روز اسی طرح ہوتا
ہے۔یہ گونج عالمی سطح پر پہنچی تو الجزیرہ کے صحافی سیف خالد نے کہا کہ
طالب علم کو دہشت گرد کہنا مذاق نہیں ہے، انہوں نے استاد کو ملازمت سے فارغ
کرنے کا مطالبہ کیا۔اداکار عارفی لامبا نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
کہا کہ نفرت اور فرقہ پرستی تعلیم گاہوں تک پہنچ گئی ہے، کیا ایک طالب علم
کو تعصب کے خلاف اپنا دفاع نہیں کرنا چاہیے؟ دی ہندو کے نامہ نگار سید محمد
نےپر زور انداز میں کہا کہ ایک مسلمان کو دہشت گرد کہنا مذاق نہیں ہے۔ان کا
کہنا تھا کہ بہت سے مسلمان طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، اور وہ
جانبداراساتذہ کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ تائیدو حمایت اس لیے حاصل ہوئی کیونکہ
اس طابعلم نے اپنی اہانت کے خلاف پر اعتماد انداز میں سلیقہ سے صدائے
احتجاج بلند کی ۔ وہ اگر صدمہ کا گھونٹ پی کر سو جاتا تو کوئی اس کی تائید
میں آگے نہیں آتا کیونکہ یہ دنیا دلیروں کا ساتھ دیتی ہے۔
تعلیم گاہوں میں اسلاموفوبیا کا دوسرا واقعہ راجستھان کے بلوترا کالج میں
پیش آیا جہاں ایک مسلم طالبہ کی موجودگی میں پروفیسر نے کلاس کے دوران
فرقہ پرستانہ تبصرہ کیا۔ اس درندہ صفت لیکچرار نے پہلے تو کلاس میں اسلام
اور مسلمانوں کے بارے میں اہانت آمیز باتیں کہیں اور اس کے بعد کالج کے بے
غیرت طلبا نے اس طالبہ کی حمایت کرنے کے بجائے اسے پولیس تھانے میں شکایت
کرنے پر بھیانک انجام کی دھمکی دی ۔ مذکورہ میں بی اے کے پہلے سال کی طالبہ
حسینہ بانو نے ویڈیو پر واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے
لیکچرار نے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دےکر ان کی دل آزاری کی ہے۔لکچرارنے
کہا کہ آفتاب نے اپنی ہندو معشوق کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے کیوں کہ مسلمان گوشت
خوراور سفاک ہوتے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا اسلام کی تعلیم ہے کہ ایک ہندو کو
کاٹو گے تو حج کا ثواب ملے گا اور دو کو کاٹو گے تو جنت ملے گی ۔ اس پر وہ
کلاس سے اٹھ کر جانے لگی تو استاد نے پوچھا تم کہاں جارہی ہو؟ اس طالبہ نے
کہا آپ میرے مذہب کے بارے میں یہ غلط باتیں نہیں کہہ سکتے ۔ استاد نے
ڈھٹائی دکھاتے ہوئے کہا یہ قرآن میں لکھا ہے۔ حسینہ بولی یہ جھوٹ ہے قرآن
میں یہ نہیں ہے۔ یہ سن کر وہ ہکا بکا رہ گیا ۔ پروفیسر کے نامعقول رویہ پر
یہ شعر یاد آتا ہے؎
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
اس کے بعد وہ کلاس سے باہر آئی تو اوباش طلباء نے کالج کا دروازہ بند
کردیا اور اس کو گھیر کر دھمکی دینے لگے کہ اگر وہ پولیس تھانے جائے گی تو
سب مل کر اس کے ساتھ برا سلوک کریں گے ۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ آفتاب سے
خطرناک تو یہ بھیڑئیے ہیں جو جھنڈ کی شکل میں ایک تنہا لڑکی کو ڈرا رہے
ہیں۔ ایک بدمعاش نے توموٹر سائیکل سے حسینہ کا پیر کچل دیا۔ اس کے بعد جب
یہ بات پھیل گئی تو خود پولیس حسینہ کے گھر پہنچ گئی اور بیان لکھوا کر
بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کا یقین دلایا ۔ اس کے بعد بھی کوئی اقدام نہیں
ہوا تو حسینہ نے اعلیٰ افسران سے مل کر محضر نامہ دیا اور اپنی ویڈیو میں
کہا کہ ایسے اساتذہ ہندو نوجوانوں کی منفی ذہن سازی کرتے ہیں اور وہ جذبات
میں آکر مسلم طلبا سے بحث و تکرار کرنے لگتے ہیں۔ حسینہ بانو نے بے دھڑک
اس استاد کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس ویڈیو سے پتہ چلتا ہے
کہ پولیس کارروائی کے ڈر سے جو لوگ حسینہ کو خوفزدہ کرنا چاہتے تھے وہ اپنے
مقصد میں ناکام ہوگئے ۔ یہ دونوں مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ امت کی
موجودہ نسل نہ ڈرے گی اور نہ جھکے گی ۔ وہ اپنے خلاف ہونے والی ناانصافی کا
ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور کامیاب و کامران ہوگی ۔ اس کشمکش میں پوری امت اور
سماج کے سارے انصاف پسند لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان بدمعاشوں کا
قافیہ تنگ کردیں اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے پر عزم
نوجوان کی تائید و حمایت کریں ۔ ان شاہین صفت نوجوانوں کا عزم و حوصلہ اس
شعر کی مانند ہے؎
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
|