مودی سرکار جب بھی ہوا میں اڑنے لگتی ہے تو اسے اپنی
حیثیت کا احساس دلانے کی خاطرمشیت چین کا استعمال کرتی ہے۔13؍ دسمبر سے
ہندوستان کی صدارت میں جی 20 ترقیاتی ورکنگ گروپ کا 4 روزہ اجلاس ممبئی میں
منعقد ہوا ۔ اس کی خاطر عروس البلاد کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ ہوائی
اڈے سے لے کر گیٹ آف انڈیا کے سامنے اجتماع گاہ کی ہوٹل تک سڑک کے دونوں
طرف پردے باندھ کر غربت کی سچائی کو ڈھانپ دیا گیا تھا اور ان پر وزیر اعظم
نریندر مودی کا ہنستا ہوا نورانی چہرا لگا کر یہ راز فاش کردیا گیا تھا کہ
’ کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘ یعنی یہ حرکت کس کے ایماء پر کی گئی
ہے۔ یہ کوئی سربراہی کانفرنس نہیں تھی اور نہ اس میں کوئی قابلِ ذکر غیر
ملکی رہنما کو شرکت کرنی تھی اس کے باوجود ترقی سے متعلق ورکنگ گروپ کو
حقیقت سے نا آشنا رکھنے بھرپور کوشش کی گئی ۔ لاسلکی دور میں یہ حماقت
کرنے والے بھول گئے کہ فی الحال ’پردے کے پیچھے کیا ہے ؟‘ جاننے گوگل کافی
ہے۔وہ آسمان سے بلا کم و کاست سچی تصاویر موبائل فون کے اندر پہنچا دیتا
ہے۔ اس لیے فی زمانہ بقول آنند بخشی (مع ترمیم)؎
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے بکھیڑوں سے
کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
جی 20 کی جس میٹنگ کے لیے یہ سارے پاپڑ بیلے گئے اس کا کلیدی خطبہ بھوٹان
کی ملکہ محترمہ جیٹ سن پیما نے پیش کیا۔ اس انتخاب سے اجلاس کی اہمیت کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے حسبِ توقع جی -20کی صدارت سنبھالنے پر
بھارت کو مبارکباددی اور کہا کہ وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں دنیا کو
اعتماد ہے کہ صدارت کی اہم ذمہ داریوں کو بھارت انتہائی دانشمندی
اورکامیابی سے ادا کرے گا۔ ان کو تقریر لکھ کر دینے والا بھول گیا کہ جس
ادارے میں دنیا کے صرف بیس ممالک شامل ہوں اس سے ساری دنیا کا توقع وابستہ
کرلینا مضحکہ خیز ہے۔ اس تقریب میں اقوام متحدہ کی ڈپٹی سکریٹری جنرل
محترمہ امینا جے محمد کا خطاب تو ہوا مگر انہوں نے ممبئی آنے کے بجائے
ویڈیو کے ذریعہ اپنا پیغام بھیجنے پر اکتفاء کرلیا۔ اس میں نیتی آیوگ کے
سربراہ جناب پرمیشورن اور سی ای ای ڈبلیو کے سی ای او ڈاکٹر ارونا بھاگھوش
کا پریذینٹیشن اور کلیدی نوٹ بھی دور سے پیش کیا گیا۔ اس لیے ممبئی میں کیا
جانا والا یہ تھام جھام نشست کی خاطر کم اورممبئی میونسپل کارپوریشن کی
تیاری کا حصہ زیادہ لگ رہا تھا ۔
ممبئی کے اندر جس حقیقت کی پردہ پوشی کی گئی وہ جگ ظاہر ہے۔ دنیا بھر میں
آئے دن ملک کی حالت زار کو بیان کرنے والی حقیقت پسندانہ جائزے شائع ہوتے
رہتے ہیں اور حکومت کو بار بار انہیں مسترد کرنا پڑتا ہے ۔ پردہ اٹھا کراگر
سچائی دکھا دی جائے تو زبانی انکار کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ جی 20کی
سربراہی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہر رکن کے حصے میں گھوم پھر کر ازخود
آجاتی ہے۔ اس کے لیے کسی کو کچھ کرنا نہیں پڑتا لیکن ایسا پرپگنڈا کیا
جارہا ہے کہ جیسے وزیر اعظم کی شخصیت نے دنیا کے بیس ترقی پذیر ممالک کو
انہیں اپنا سربراہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ مصنوعی تاثر اپنے آپ
میں حقیقت سے فرار ہےلیکن اس بے ضرر پردہ داری کے دوران چین کی سرحد پر
واقع توانگ سے چونکانے والی خبریں آنےلگیں۔ ایوان پارلیمان میں ان اطلاعات
کی پردہ پوشی نے پوری قوم کوتشویش میں مبتلا کردیا کیونکہ یہ قومی سلامتی
کا معاملہ ہے۔ حکومت اگر اس نازک معاملے پر ارکان پارلیمان کے ساتھ بحث و
مباحثہ سے کتراتی ہےیا عوام کے نمائندوں کو اپنی تشویس کا اظہار کرنے سے
روکتی ہےتو یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے۔ ایسے میں جی 20 کی سربراہی کا
ڈھول پیٹ کر اپنے آپ کو رستمِ زماں (وشوگرو) ثابت کرنا بےمعنیٰ ہے۔
چین کے اندر آزادی کے بعد سے یک جماعتی حکومت ہے مگر اس کے سربراہ کو ہر
پانچ سال بعد پارٹی سے اپنے عہدے کی توثیق کرانی پڑتی ہے۔ شی جن پنگ فی
الحال کئی مسائل سے جوجھ رہے ہیں ۔ معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ چکی ہے۔2013
میں جب شی جن پنگ اقتدار پر فائز ہوئے تو چین جاپان کو پچھاڑ کر دنیا کی
دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا ۔ اس وقت چین کی شرح ترقی 7.85% تھی لیکن
2019 کے آتے آتے وہ گھٹ کر 5.95% پر آگئی۔ اب اس میں مزید گراوٹ آئی ہے
اور بمشکل 3.25% پر پہنچ چکی ہے ۔بیلٹ اے روڈ(سڑک تعمیر کرو) پروجکٹ کے تحت
چین نے لگ بھگ 150 ملکوں کو اونچی شرح ِ سود پر 83 لاکھ کروڈ روپیہ قرض دیا
۔ فی الحال ان میں 70% قرض ادائیگی کی حالت میں نہیں ہیں ۔ دنیا کے غریب
ممالک پر جو قرض بقایہ ہے اس میں سے 40% حصہ چین کا ہے یعنی یہ رقم ڈوب رہی
ہےکیونکہ بہت سارے ممالک نے قرض واپس کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ چین کے اندر
ریئل اسٹیٹ میں آنے والی گراوٹ کے سبب ملک کے بڑے بنکوں کو17.6 لاکھ کروڈ
روپیہ کا خسارہ ہو چکاہے ۔
ان مشکل معاشی حالات کے دوران زیرو کورونا پالیسی کے خلاف چین میں ناقابلِ
تصور عوامی احتجاج ہو گیا جس نے شی جن پنگ کی نیند اڑا دی ۔ ایسے میں اپنی
مقبولیت کو قائم رکھنے کی خاطر شی ان کو بھی سرجیکل اسٹرائیک جیسے کسی بڑے
ڈرامہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اس کے لیے قریب میں نرم چارہ ہندوستان ہی
ہے۔ اس اسٹرائیک کے بعد وہ بھی گھر میں گھس کر مارا کا شور مچا سکتے ہیں
لیکن اس مقصد کے حصول کی خاطر شی جن پنگ کواپنی عوام کے دل میں ہندوستان کا
ڈر بٹھانا اور اس کے تئیں نفرت پیدا کرنا ضروری ہے۔ وطن عزیز میں سنگھ
پریوار کے لوگ ہندو عوام کو مسلمانوں سے اسی طرح ڈرا کر ان کے دل میں نفرت
پیدا کرتے ہیں ۔ اس کے بعد ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑ کر چینی حکمراں کے
لیے اپنے لوگوں کا دل جیت لینا آسان ہوجائے گا۔ ایسا کرنے کے بعد وہ جس
طرح امیت شاہ نے گجرات کی فساد کا کریڈٹ لیا اسی طرح جنگ کا سیاسی فائدہ
اٹھائیں گے۔ جمہوریت اور آمریت میں اس طرح کے تماشے عام سی بات ہیں ۔ راہل
گاندھی کے بیان کہ چین جنگ کی تیاری کررہا ہے کو اس تناظر میں دیکھنا
چاہیے۔
توانگ کے معاملے میں ایوان کے اندر تو خیر وزیر دفاع کو حکومت کے دفاع کی
ذمہ داری سونپی گئی مگر باہر وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا جب تک مودی جی
وزیر اعظم ہیں کوئی ایک انچ زمین بھی نہیں لے سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر
ایسا ہے تو آئے دن چینی انتظامیہ سے اپنی زمین واپس لینے کے لیے مذاکرات
کیوں ہوتے ہیں؟ ان سلگتے سوالات کا مودی سرکار کے پاس کوئی جواب نہیں
ہے۔سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو پر اوٹ پٹانگ تنقید کرنے والے شاہ
جی کے بیانات کو اب کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا کیونکہ پاک مقبوضہ کشمیر کو
واپس لینے کی خاطر جان لڑانے کا کھوکھلا نعرہ لگانے والے وزیر داخلہ کا دم
خم دنیا دیکھ چکی ہے۔ اسی لیے انہیں دوبارہ ایوان پارلیمان کے اندر موقف
رکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ فی الحال عوام سوچ رہے ہیں کہ آخر وزیر اعظم
کیوں خاموش ہیں لیکن خواص اس کو عافیت سمجھ رہے ہیں کیونکہ انہیں گلوان کے
بعد وزیر اعظم کا تاریخی بیان ’نہ کوئی آیا اور نہ آئے گا‘ یاد ہے۔ اس
بیان کے ذریعہ وزیر اعظم نے نادانستہ طور پر چینی موقف کی تائید کردی تھی
اس لیے کہ چین بھی کہہ رہا تھا کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول کو پار نہیں
کیا۔ اس کےباوجود اگر ہندوستانی فوجیوں نےجان گنوائی تو ہندوستانیوں کی
غلطی ثابت ہوجاتی تھی۔
وزیر اعظم کواگر چین کے خلاف بیان دینا ہو تب بھی وہ اس کا نام لینے سے
گریز کرتے ہیں اس لیے ان پر چین سے ڈرنے کا الزام لگتا ہے۔ توانگ معاملے
میں ایم آئی ایم کے سربراہ نے ٹویٹ میں لکھا 'وزیراعظم سیاسی قیادت دکھانے
میں ناکام ہو رہے ہیں۔ تصادم 9 دسمبر کو ہوا اور وہ آج بیان دے رہے ہیں۔
اگر میڈیا رپورٹ نہ کرتا تو آپ اس معاملے پر بات ہی نہیں کرتے۔ وزیر اعظم
تصادم پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ پی ایم چین کا نام لینے سے خوف کھاتے ہیں
اور ان کی حکومت چین سے متعلق بولنے سے ڈرتی ہے۔ اویسی نے مطالبہ کیا کہ
ساری جماعتوں کو جائے واقعہ پر لے کر جایا جائے لیکن جو ایوان کے اندر اس
مسئلہ پر گفتگو کے روادار نہیں ان سے ایسی توقع کرنا فضول ہے۔
توانگ سانحہ کے بعد سابق فوجی سربراہ منوج نرونے کہا ہے کہ خود کو پیشہ
ورملٹری کہنے والی چینی فوج سڑک کے غنڈوں کی مانند ڈنڈوں سے حملے کرکے اپنے
آپ کو شرمندہ کرتی ہے۔ یہی حال تو اپنے نظم و ضبط پر ناز کرنے والےسنگھ
پریوار کا ہے۔ اس کے لوگ وقتاً فوقتاً سڑک چھاپ بدمعاشوں کی طرح دنگا فساد
کرکے ازخود رسوائی مول لیتے ہیں۔ چین فوج کا ایسا کرنا غلط ہے تو سنگھی
غنڈوں پر بھی تنقید ہونی چاہیے لیکن ان کی پذیرائی ہوتی ہےاور اس سے سیاسی
فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ توانگ کے تناظر میں ہندوتوا نوازوں کی منافقت بے
نقاب ہوجاتی ہے۔کاش کے عوام اس پر توجہ دیتے لیکن اس کے لیے نفرت کی افیون
کا نشہ اترنا ضروری ہے۔ اس کام کے لیے پچھلے سو دنوں سے راہل گاندھی ملک کی
سڑک ناپ رہے ہیں ۔ اس کا کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت بتائے گا۔ بھارت جوڑو
یاترا کی غیر معمولی کا میابی پرحیدر علی آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر ِ سایہ دار راہ میں ہیں
|