مجبور اور بے بس کپتان

آئینی طریقہ کار تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ مسند اقتدار سے ہٹائے گئے سابقہ وزیراعظم عمران خان آئے روز نت نئے انکشافات کررہے ہیں۔ آجکل عمران خان کی تنقیدی توپوں کا رخ پاکستان کے سابقہ سپہ سالار جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ ہیں۔عمران خان کے بقول آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے اور احتساب کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے میرے ساتھ ہی نہیں ملک کے ساتھ سنگین مذاق کیا اور پی ڈی ایم قیادت کو این آر او 2 دیا گیا۔انہوں نے احتساب بارے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ انکے دور حکومت میںقمر جاوید باجوہ فیصلہ کرتے تھے کہ قومی احتساب بیورو(نیب)نے کسے کتنا دبانا ہے اور کسے چھوڑنا ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) باجوہ کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھے، سابق آرمی چیف نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ایک ایک کرکے کرپشن میں ملوث بڑے بڑے نام بری ہو رہے ہیں، ان کے دور میں ان کرپٹ افراد کے خلاف مقدمات مکمل تھے لیکن نیب کو کام کرنے نہیں دیا جاتا تھا۔سابقہ وزیراعظم عمران خان کے بیانات درحقیقت انکے بطور وزیراعظم بے بس ہونے کا اعتراف ہے۔ جبکہ عمران خان صاحب کے ماضی قریب کے اپنے ہی بیانات انکے موجودہ بیانات کی نفی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ایوان اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد امریکی سازش کے بیانئے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بیرونی سازش کے سامنے کھڑے نہ ہونے پرمیر جعفر میر صادق، غداری کے طعنے دینے والے عمران خان نے ماہ ستمبر میں ٹی وی انٹرویو کے دوران ایک مرتبہ پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی آفر کی تھی۔ٹی وی انٹرویو کے ذریعہ عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا کہ نئی حکومت کے منتخب ہونے تک آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دی جائے۔ عمران خان نے کہا کہ انکے وکلاءنے بتایاکہ جنرل باجوہ کی الیکشن تک تعیناتی کے لیے گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ آج عمران خان صاحب سابقہ آرمی چیف کےخلاف محاذ کھولے ہوئے ہیںجبکہ حقیقت بالکل اسکے برعکس ہے کہ آرمی کے اعلیٰ ترین عہدیدار کے خلاف تنقید کے نشتر چلانے والے عمران خان صاحب آخری وقت تک اسی شخصیت کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے آئینی و قانونی راستے تلاش کرتے رہے۔عمران خان کی جانب سے افواج پاکستان اور آئی ایس آئی پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد بالآخر ماہ اکتوبر میں پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو مشترکہ پریس کانفرس میں سامنے آکر عمران خان کےتضادات اور دوہرے معیار کو بے نقاب کرنا پڑا۔ پریس کانفرس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے انکشاف کیا کہ مارچ کے مہینہ میں آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی بھی پیشکش کی گئی، یہ پیشکش میرے سامنے کی گئی، یہ بہت پرکشش پیشکش تھی، لیکن انہوں نے اس بنیادی فیصلے کی وجہ سے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی کہ ادارے کو متنازع کردار سے ہٹا کر آئینی کردارپر لانا ہے۔عمران خان کو مخاطف کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آپ کو حق ہے اپنی رائے دینے کا، بحیثیت سپاہی میں اس حق کا احترام کرتا ہوں اور اس حق کا ہر ممکن حد تک تحفظ کروں گا، لیکن میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میرجعفر ہے تو ماضی میں آپ اتنی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے تھے، اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میر جعفر ہے تو آپ اس کی مدت ملازمت میں اتنی توسیع کیوں کر رہے تھے؟ عمران خان کی بے بسی اور شکست خوردہ بیانات و انکشافات پربہت ہی مشہور و معروف ضرب المثل یا د آرہی ہے کہ "ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑا"۔ اس وقت عمران خان اپنی دور ِحکومت کے ہرریاستی، حکومتی، سیاسی، معاشی ناکامی کا ذمہ دار جنرل قمر جاوید باجوہ و عسکری قیادت پر ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ اکتوبر2020 میں وزیراعظم عمران خان کے بیانات کے مطابق فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے، حکومت اور فوج کے درمیان بہترین تعلقات ہیں۔ فوج میری پالیسی کیساتھ کھڑی ہے۔یاد رہے پاکستانی تاریخ میں عمران خان ہی شاید ایسی سول قیادت تھی جسکے دور حکومت میں سول و ملٹری قیادت کے تعلقات نہ صرف بہترین تھے بلکہ ان تعلقات کو مثالی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ماہ اگست میں ٹی وی پروگرام میں عمران خان نے بتایا کہ انکےدور حکومت میں اسٹیبلشمنٹ سے کبھی حالات خراب نہیں ہوئے، ہماری طاقت یہی تھی کہ ہم ایک پیچ پر تھے، میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا ملکی مفاد کی خاطر اکھٹے تھے، فوج انکی چوری کے بارے میں سب جانتی تھی اور مجھے رپورٹ بھی کیا جاتا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی ایس آئی چیف کے حوالے سے اختلاف رائے تھا مگر حالات خراب نہیں ہوئے۔عمران خان کے اپنے بیانات انکے بیانات کی نفی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت عمران خان اپنی حکومت کے دوران پی ڈی ایم سیاسی قائدین کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم سے اپنی جان یہ کہ کرچھڑوانا چاہتے ہیں کہ وہ بالکل بے قصور ہیں اور مخالف سیاسی قیادت کے خلا ف انتقامی کاروائیوں کا الزام جنرل قمر جاویدباجوہ کے سر تھونپ کر پتلی گلی سے نکلنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ عمران خان کا سیاسی طرز عمل انکو بند گلی میں دھکیل چکا ہے، جہاں سے باہر نکلنا انتہائی مشکل دیکھائی دے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان سول اور عسکری قیادت کے خلاف محاذآرائی ختم کریں اور آگے بڑھ کر سول و عسکری قیادت کے ساتھ شانہ بشانہ ملکر چلیں تاکہ ریاست پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام آئے۔

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.