چند عشرے قبل تک خط رابطے کا موثر ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ملک
کے اندر عام طور پر خط تین دن میں پہنچ جاتا تھا اور بیرون ملک خط سات دنوں
میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ لیکن تاریخ میں خط کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے
بھی کیا جاتا رہا ہے۔کربلا میں شہید کر دیے جانے والے نواسہ رسول حضرت امام
حسین کے نام اہلیان کوفہ کے لکھے گئے خطوط کا ذکر کیے بغیر واقعہ کربلا
مکمل ہی نہیں ہوتا۔
اس سے قبل خلفائے راشدہ دور کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفوان کی شہادت
میں خطوط نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خلیفہ کے مخالفین کی سیاسی حکمت عملی
کے تحت ہوا یہ کہ بصرہ کے لوگ مصر والوں کو خطوط میں بتاتے کہ مدینہ منورہ
میں خلیفہ وقت کرپشن، اقربا پروری میں مبتلا ہو کر بے انصافی کر رہے ہیں۔
اسی مضمون کے خطوط مصر والے بصرہ والوں کو اور بصرہ والے کوفہ والوں کو
لکھتے۔ جس سے مدینہ سے دور بسنے والے مسلمانوں میں بھائی چارے کے جذبے تحت
مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوئی اور مختلف شہروں سے
نوجوان مدینہ المنورہ پہنچنے شروع ہوگئے۔ تاریخ نویسوں نے واقعہ شہادت
عثمان میں خطوط کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا۔
موجودہ دور میں خط لکھنا متروک عمل ہے مگر سیاسی مقاصد کے لیے یہ کام
2022میں کیا گیا۔ ہوا یہ کہ پاکستان کے ایک صحافی ارشد شریف ((1973-2022
کینیا میں قتل کر دیے گئے۔ارشد شریف کے قتل کا الزام ایک سیاسی جماعت ایک
پاکستانی ایجنسوں پر لگاتی اور جواب میں یہی الزام ایک سیاسی رہنما پر
لگایا جاتا۔ البتہ حکومت نے ایک تفتیشی ٹیم بنائی مگر سیاسی جماعت بضد تھی
کہ اس قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور مقدمے میں ان افراد کو نامزد کیا جائے
جن کا نام وہ لیتے ہیں۔ پہلے یہ مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔ سوشل میڈیا
پر اس مہم کی ناکامی کے بعد یہ مہم خطوط کے ذریعے چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت
عدالت عظمی کو خطوط لکھے گئے ۔خط لکھو مہم کامیاب ہوئی، عدالت عظمی نے ان
خطوط کا نوٹس لیا اور پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ یوں اس ڈیجیٹل
دور میں خطوط کو ایک بار پھر سیاسی طور پر کامیابی سے استعمال کیا گیا۔
|