ویسے تو پاکستان ایک لاء لیس ملک ہے۔جہاں کی عدالتیں اور
عدالتی نظام بھی قانون کی طرح اندھے ہی نہیں گونگےبہرے بھی ہیں ۔پولیس کے
کارنامے تو آئے روز دیکھتے ہی رہتے ہیں مگر ٹریفک پولیس کا بھی اللہ ہی
حافظ ہے۔نہ ان سے ٹریفک کنٹرول ہوتی ہے نہ ڈرائیورز۔اکثر دس بارہ سالہ لڑکے
موٹر بائیکس چلاتے نظر آتے ہیں۔نہ صرف یہ کہ وہ بائیکس چلا رہے ہوتے ہیں
بلکہ دو تین بہن بھائی بھی ان کے ساتھ سوار ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا پر دو بچوں
کی ویڈیوز بھی وائرل ہو چکی ہیں جن کی عمریں 5 اور 6 سال تھیں اور جو ڈبل
کیبن اور پراڈو ڈرائیو کر رہے تھے۔مگر آفرین ہے پولیس ہر جنہیں کبھی یہ بچے
نظر ہی نہیں آتے۔
اس غفلت کا نتیجہ کل اسلام آباد کے ایک شہری کو بھگتنا پڑا۔ ایک نوجوان
لڑکی گاڑی چلا رہی تھی جس کے ہمراہ ایک ملازم موجود تھا لڑکی نے ایک شخص کو
کچل دیا اور موقعے سے فرار ہو گئی۔ لڑکی لائسنس کے بغیر ایک ممنوعہ جگہ پر
ڈرائیونگ سیکھ رہی تھی اس واقعے کے فورا بعد ہلاک ہونے والے شخص سلطان
سکندر کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں موجود ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار
دے دیا۔
تھانہ گولڑہ کی حدود میں درج مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر سب
انسپکٹر جاوید سلطان نے بتایا کہ اہل محلہ اور عینی شاہدین کے مطابق
ڈرائیونگ سیکھنے والی لڑکی کی عمر 14-15 سال کے درمیان ہے۔تاہم پولیس کے
پاس لڑکی کی عمر سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ ملزمہ کے
والد فوج میں کرنل کے رینک پر ہیں اور وہ کوئٹہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر
رہے ہیں۔
ملزمہ کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن اس واقعہ
کے بعد ان کے گھر پر کوئی نہیں ہے۔جس روز یہ وقوعہ رونما ہوا اس دن ملزمہ
کے گھر سے کچھ افراد ہسپتال آئے لیکن اس کے بعد سے گھر پر تالا لگا ہوا ہے۔
پولیس افسران کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اگر کوئی بھی کم عمر ڈرائیونگ
کرتا ہوا پکڑا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے والد اور جس نے بھی چلانے کے
لیے گاڑی دی ہے ان کو بھی ذمہ دار گردانتے ہوئے ان کے خلاف ضابطہ فوجداری
کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ روکنے کی ذمہ
داری صرف ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی نہیں بلکہ تھانوں اور مختلف ناکوں پر
تعینات پولیس اہلکار بھی اس غیر قانونی اقدام کو روکنے اور ان کے خلاف
قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ انھوں نے پولیس افسران کو ہدایت دی ہیں
کہ اگر کوئی شخص قانون توڑنے والوں کو چھڑانے کے لیے آئے تو اس کے خلاف بھی
قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
یہ صرف پولیس کا ہی فرض نہیں کہ وہ ایسے بچوں کو ڈرائیونگ سے روکے بلکہ
والدین کو بھی اپنے انڈر ایج بچوں گاڑی یا بائیک نہیں دینی چاہیے۔انہیں
معلوم ہونا چاہیے کہ لائسنس کے لیے اٹھارہ سال کی حد آپ کے بچوں ہی کی
حفاظت کے لیے ہے۔اپنے بچوں سے آپ کو کوئی دشمنی ہے تو ضرور انہیں گاڑی کی
چابی پکڑائیے اور گھر ہی کی کسی دیوار پر مروا دیجئے مگر دوسروں پر رحم
کیجئے ۔یہ اسلام آباد میں ہونے والا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے
بھی کئی ایسے حادثات ہو چکے ہیں۔مارچ کے مہینے میں سنگجانی ملٹی گارڈنز کے
قریب اوور سپیڈنگ کی وجہ سے کار سکڈ کر کے سڑک سے اتر گئی اور اس میں آگ
بھڑک اٹھی چار لڑکے موقع پر ہی زندہ جل کر ہلاک ہو گئے۔
کشمالہ طارق کے بیٹے نے بھی لیکسز ڈرائیو کرتے ہوئے کئی لوگوں کو زخمی کر
دیا تھا۔لیکن کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ قانونی تقاضے پورے کر سکے۔ایسے
حادثات پورے پاکستان میں ہوتے رہتے ہیں لیکن پولیس انہیں روکنے میں ناکام
ہے۔
|