نگلہ دیش کے قیام کے وقت شیخ مجیب مغربی پاکستان میں قید
تھے۔ پاکستان نے انہیں رہا کر کے ان کے وطن بھیج دیا۔ لیکن اگست1975 میں
بنگلہ دیش کی فوجی بغاوت میں انہیں ان کے بچوں، بیوی، بہو سمیت قتل کر دیا
گیا۔ اہل خانہ میں صرف دو بیٹیاں بچ سکیں جو ملک سے باہر تھیں۔ کیا کبھی ہم
نے غور کیا کہ ساری خرابی اگر مغربی پاکستان کے فیصلہ سازوں ہی کی تھی تو
بنگلہ دیش کی فوج نے اپنے بنگ بندھو کو تیسرے ہی سال کیوں قتل کر دیا؟
اسی سے متصل ایک سوال اور بھی ہے۔ سوال یہ کہ ان چند سالوں میں شیخ مجیب کا
طرز حکومت کیسا تھا؟ وہ اپنی افتاد طبع سے ایک جمہوری حکمران ثابت ہوئے یا
بد ترین اور سفاک فاشسٹ؟ سانحہ مشرقی پاکستان کے حقیقی اسباب کاجائزہ لینے
کے لیے ان دو سوالات پر بھی بات ہونی چاہیے جو آج تک نہیں ہو سکی۔شیخ مجیب
نے بنگلہ دیش کا اقتدار سنبھالا تو پہلے مکتی باہنی کو اس سارے قتل عام اور
آبرو ریزی پر عام معافی دے دی تو اس نے غیر بنگالیوں کا کیا تھا۔ لیکن اس
کے بعد ان غنڈہ عناصر کے منہ کو جوخون لگا تھا اسے دھونے کی بجائے اس کی
سرپرستی شروع کر دی گئی۔ املاک اور عزتوں کو لوٹنے کا جو کلچر مکتی باہنی
نے دیا تھا اس کلچر کی حوصلہ شکنی نہ کی جا سکی۔ بلکہ سرپرستی کی گئی۔
نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ تیسرے ہی سال بنگلہ دیش کی فوج نے بنگ
بندھو کو سارے خاندان سمیت مار دیا۔ مارنے والے کون تھے؟ یہ مغربی پاکستان
کے لوگ نہ تھے۔ یہ بنگلہ دیش کے اپنے فوجی تھے۔ اور عام فوجی بھی نہیں تھے۔
ان میں سے تین تو وہ تھے جو بنگلہ دیش نے باقاعدہ جنگی ہیرو قرار دے رکھے
تھے کہ انہوں نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر " آزادی کی جنگ" لڑی تھی۔
کیا کوئی اس نکتے پر غور کرسکتا ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ بنگ بندھو کا
اپنے ہیروز کے ہاتھوں اس سفاکی سے قتل ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگ بندھو
کا طرز حکومت سفاک، فاشسٹ، آمرانہ اور بد عنوان تھا۔ مکتی باہنی کے جرائم
پیشہ غنڈہ عناصرحکومتی مناصب پر قابض تھے۔ نہ کسی کی جان محفوظ تھی نہ مال
اور حتی کہ نہ ہی کسی کی عزت محفوظ تھی۔ یہ دور حکومت تاریخ انسانی کے
بدترین اور فاشسٹ دور حکومت میں سے ایک تھا۔
پہلے تو کہا جاتا تھا کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کو لوٹ لیا (اس
غلط الزام کی حقیقت پر میں تفصیلی کالم پہلے ہی لکھ چکا ہوں) اور بنگ بندھو
کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی تھی۔ لیکن پھر یہ کیا ہوا کہ
بنگ بندھو کے اپنے دور حکومت میں یعنی 1974میں بنگلہ دیش میں ایسا قحط پڑا
کہ پندرہ لاکھ لوگ مار گئے۔ اولیور روبن کی رائے تو یہ ہے کہ بنگ بندھو ایک
نااہل ترین حکمران تھا۔ اور اس کے قتل کے محرکات میں ایک یہ نا اہلی بھی
تھی۔
شیخ مجیب بظاہر جمہوری قدروں کے علمبردار تھے لیکن وہ ایک بدترین فاشسٹ
حکمران ثابت ہوئے۔ چنانچہ 25 جنوری 1975کو انہوں نے دوسرا انقلاب، برپا کر
دیا۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ میڈیا پر پابندی لگا دی
گئی۔ شیخ مجیب نے پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہا تعلیم یافتہ بنگالی سب سے
زیادہ بے ایمان ہیں۔ اس لیے میں دوسرا انقلاب لا رہا ہوں۔ بنگلہ دیش کرشک
سرامک عوامی لیگ کے نام سے ایک کونسل بنادی گئی کہ اب ملک چلانے کے فیصلے
یہ کیا کرے گی۔ یہ فاشزم بھی ان کے قتل کی ایک وجہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ
اس دوسرے انقلاب، سے، جس کے فکری خالق ان کے اپنے بھتیجے شیخ فضل حق مانی
تھے، صرف چھ ماہ بعد وہ اہل خانہ سمیت قتل کر دیے گئے۔ ان کے سارے خاندان
کے قتل کی ایک وجہ یہ سوچ بھی تھی کہ وہ ایک خاندانی بادشاہت کی طرف بڑھ
رہے تھے۔
پاکستان سے الگ ہونے کا جواز تو جمہوریت دوستی، بتائی گئی لیکن شیخ مجیب نے
اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے ہی ملک میں قومی فوج ہونے کے باوجود ایک ذاتی
فوج کھڑی کر دی۔ جتیا رکھی باہنی نام کی اس نئی فوج کی وفاداری کا مرکز صرف
بنگ بندھو کی ذات تھی۔ اس کے حلف نامے میں ریاست یا آئین کی بجائے شیخ
مجیب کی ذات سے وفاداری تھی۔ کرسٹین فیئر نے لکھا ہے کہ اس کے ڈیتھ سکواڈ
تھے، اس نے شیخ مجیب کے حریفوں پر زندگی تنگ کر دی حتی کہ ان کے اہل خانہ
کی عزتیں تک لوٹیں۔ اس کا بجٹ اتنا زیادہ تھا کہ اس کے اخراجات پورے کرنے
کے لیے روایتی فوج کے بجٹ میں چالیس فیصد کمی کر دی گئی۔ فوجی افسران نے
اپنے ہی بنگ بندھو کو اس بے رحمی سے مارا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
شیخ مجیب کے قاتلوں میں سے تین ایسے تھے جو بنگلہ دیش میں ہیرو کا درجہ
رکھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیوں قاتل بنے؟ ڈھاکہ عوامی لیگ کے صدر اور
شیخ مجیب کے دست راست شیخ غلام مصطفی نے بنگالی میجر کی بیوی اور بیٹی کو
اغوا کر لیا تھا۔ اور جب اس پر بنگلہ دیش کے فوجی دستے غصے میں ان کی تلاش
کے لیے شہر بھر میں پھیل گئے تو شیخ مجیب نے انڈر ورلڈ کے ڈان کی طرح اپنے
گھر پر صلح کروا دی۔ شیخ غلام مصطفی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی البتہ
افسران کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ اتفاق دیکھیے کہ اسی رجمنٹ کے افسران بعد
میں شیخ مجیب کے قتل میں شامل تھے۔
عوامی لیگ کے ایک غنڈے اور مقامی صدر مزمل نے ایک بارات میں سے دلہا اور
دلہن کی کار کو قبضے میں لے لیا۔ دلہا وہیں قتل کر دیا گیا۔ دلہن کی عزت
لوٹ کر دو روز بعد اس کی لاش پھینک دی گئی۔ فوج نے مزمل کو گرفتار کر لیا۔
شیخ مجیب نے حکم دیا اسے رہا کر دیا جائے۔ روایت ہے کہ میجر فاروق اسی
واقعے کے رد عمل میں شیخ مجیب کے قاتلوں کے ساتھ شامل ہوا۔ یہ مزمل صاحب اس
وقت بنگلہ دیش میں وفاقی وزیر ہیں اور البدر کے لوگوں کی گرفتاریوں اور
پھانسیوں کے معاملات انہی کی نگرانی میں چل رہے ہیں۔
حالت یہ تھی کہ شیخ مجیب کا بیٹا شیخ کمال بنک لوٹتے ہوئے پولیس کی فائرنگ
سے زخمی ہوا۔ اقتدار مل گیا لیکن مکتی باہنی کی عادات نہ چھوٹ پائیں۔ شیخ
مجیب کے بھتیجے کی وجہ سے بنگلہ دیش کی تجارت کا ستیا ناس ہوا۔ اتفاق
دیکھیے یہ دونوں شیخ مجیب کے ساتھ قتل ہوئے۔ حتی کہ قاتلوں نے شیخ مجیب کے
دس سالہ بچے ارسل کو بھی معاف نہیں کیا۔ قاتلوں میں وہ بھی تھے جو شخ مجیب
کے بیٹے شیخ کمال کے دوست تھے اور شیخ مجیب کے گھر کھانا کھایا کرتے تھے۔
قاتلوں میں سے کچھ کو سزا سنا دی گئی ہے لیکن حسینہ واجد کی حکومت قتل کے
محرکات پر کوئی کمیشن کیوں نہیں بناتی؟ آخر معلوم توہو کہ ایسے سفاک قتل
عام کے مرکات کیا تھے اور شیخ مجیب کے قتل کے اگلے روز شائع ہونے والے
بنگلہ دیش آبزرور کے اداریے کا آغاز اس فقرے سے کیوں ہوا کہ:
|