آپسی اختلاف کا سلسلہ آخر کب تک؟


مسلمانوں کا آپسی اختلاف سے بچنا اور اتحاد و اتفاق ی راہ ہموار کرنا نہایت ہی ضروری ہے اور یہی وقت کا تقاضا ہے اور اسی میں قوم کی فلاح و کامرانی اور نجات ہے

آپسی اختلاف کا سلسلہ آخر کب تک؟
از قلم: ابوالعطر مفتی محمد عبد السلام امجدی

تھام لے خدا کی رسی کو چھوڑ دے اغیار کو
کہ ضربِ وحدت سے گرا دے دیوار ِکفر کو
فتنوں اور فساد کا دیو ہیکل جن ہمیں نگلنے کے لئے منہ کھولے ہوا ہے،کفر کی باطل قوتیں ہمیں مٹانے ،ہمارے گھروں کو جلانے،ہمارے املاک کو خاکستر کرنے اور ہماری ماں بہنوں کی چادر عفت کو تار تار کرنے کے لئے چاق و چوبند ہوچکی ہیں،کفر وباطل کے لشکر خونخوار مسلح ہوکر میدان میں اتر چکے ہیں ،بھگوار دھاری دہشت گرد ہمارے جسموں سے گوشت و پوشت نوچنے کے لئے گھات میں نہیں بلکہ ہماری دہلیز تک آہٹ دے چکے ہیں ،ہماری گلیوں میں باطل رقص کناں ہیں،ہمیں ڈرایا جارہا ہے ،ہماری فکری قوتوں پر خوف و ہراس کا پہرہ لگایا جاچکا ہے۔ایسے وقت میں ہمیں تمام فروعی،علاقائی ،برادری، تنظیمی اور دیگر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد و اتفاق کی قوت حاصل کرنی چاہیے ،ایک دوسرے کے لئے رب کے حضور دعا کرنی چاہیے ،اپنی حفاظت اور قوم کے تحفظ و بقا کے غور و فکر اور لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے،حالات سے کیسے نپٹا جائے اس پر غور و فکر کرنی چاہئے ،ارباب اقتدار و سیاست تک اور عالمی میڈیا یا عرب ممالک تک رپورٹنگ کیسے ہو اس پر بیٹھ کر تبادلہ خیال ہونا چاہئے ،قلیل التعداد مسلم علاقوں کی حفاظت کیسے یقینی ہو اس پر فوکس کرنی چاہئے ،مگر نہیں ہم ہیں کہ انجام سے بے خبر،حالات سے آنکھیں بند کرکے اپنوں ہی کے ساتھ دست و گریباں ہورہے ہیں ،اپنی زبان کی تلوار چلاکر اپنے ہی سنی بھائیوں کے سینہ عقیدت پر حملہ کر رہے ہیں،کہیں تکفیری فتویٰ کا خنجر تو کہیں
تضلیلی و تفسیقی گولہ و بارود کی بارشیں تو کہیں صلح کلیت کا بم اور بھی طرح سے سب ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔کسے کہیں مفکر،کسے کہیں مصلح ،کسے کہیں قائد ،کسے کہیں دردمند کسے کہیں اتحاد کا داعی سبھی کہیں نا کہیں کسی نا کسی طرح ایسا سیال مواد اپنی تحریر میں ،اپنی تقریر میں اور اپنی گفتگو میں ملادیتے ہیں جو کسی زہر سے کم نہیں ہوتے۔

اگر کوئی آدمی بے موقع و محل بیان جاری کرتا ہے جس سے کسی کی عقیدت کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وفد کی شکل میں وہاں پہنچ کر جواب طلب کیجئے، مواخذہ کیجئے مگر اس کا بھی ایک وقت ہوتا ہے ،کب کیا کرنا چاہیے اس سے بے خبر بھی نہیں رہنا چاہیے ،بے سوچے سمجھے جوابی کاروائی بھی تو دانشمندی نہیں اور نہ محاذ آرائی زیب دیتی ہے۔ہاں سوشل میڈیا پر آنے والے علما اور اپنا ویڈیوز بناکر نشر کرنے و کروانے والے بھی اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کب کیا اور کس انداز میں بیان دینا ہے۔اس وقت کس امر کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اس پر غور کرنا چاہئے ۔کچھ بھڑکاؤ بیان بازی یا ویڈیوگرافی کرنے والوں کو مرفوع القلم سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔چند روز قبل لہنہ شریف کے اسٹیج پر اپنے ہی سنی علما کے خلاف ایک مولوی نے زہرفشانی کی جس کی شرع شریف قطعی اجازت نہیں دیتی مگر ارباب شرع کی موجودگی میں ایسا ہوا جو نہایت ہی غیر اخلاقی و مذہبی جرم ہے۔اب تو وہ صاحب اس حلقہ میں خوب پروگرام بھی کر رہے ہیں جس میں ان کی کوئی وقعت ہی نہیں تھی،جنہیں دیکھنا تک گوارہ نہیں تھا ۔اور اس جناب نے اپنی دریدہ دہنی اور بے لگامی کا سلسلہ ختم نہیں کیا بلکہ اس کے بعد بھی اپنے مشن کو جاری رکھا اور کئی ایک صوتی پیغام ان کے سوشیل میڈیا پر شائع ہوئے جن میں اتہام و افترا اور الزام تراشی کرکے خود کو شریعت کی نظر میں مجرم بنالیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ شرعی ذمہ داری نبھائی ہے۔(العیاذ باللہ)اور یہ صرف یہیں کی اسٹیج کی بات نہیں ملک نیپال میں جس کو جہاں موقع ملتا ہے اپنی زبان سے زہر پھیلاتے ہیں۔کوئی اسٹیج پر تو کوئی فیس بک پر تو کوئی واٹساب پر اور سمجھتے ہیں بڑا مفکرانہ کام کیا ہے اور فخر محسوس کرتے ہیں اور کچھ جہال معتقدین اسے جرآت و حق گوئی سے تعبیر کرتے ہیں ۔

دیکھیں صاف لفظوں میں ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ نیپال میں جو اختلاف کئی سالوں سے چل رہا اور اب اس پر نئے انداز میں ملمع سازی کرکے پیش کیا جارہا ہے وہ شرعی و مسلکی اختلاف کم اور نفس پرستی زیادہ ہے۔جیشی ہو کہ زاہدی یا عثمانی یہ سب کچھ نہیں بلکہ یہ خود ساختہ اختلافی خوراک کا نام ہیں جن سے نفس پرستوں اور پیٹ پوجاریوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔بلکہ ان تینوں کلمات کا استعمال کرنا ہی غیرمناسب ہے۔اور ان تینوں کلمات کا استعمال ایک دوسرے کے لئے محض عناد و انتقام کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے جو کسی طرح سے درست نہیں ہے۔ہر فریق اپنی طرف کسی ایسے خاص لفظ کی نسبت سے بیزاری و ناراضگی ظاہر کرتا ہے جو گروہ و فریق کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اس لئے کسی شخصیت کی طرف منسوب کرکے اس کے معتقدین علما و عوام کو کسی خاص لقب اذیت رساں سے تحریر و تقریر میں یاد کرنے کی بجائے اتنا مناسب ہوسکتا ہے کہ کہا جائے فلاں صاحب کے ماننے والوں کا یہ نظریہ ہےاور فلاں صاحب کے ماننے والوں کا یہ نظریہ ہے تو اس میں برے القاب منہیہ عنہا کی وعید سے بھی بچا جاسکتا ہے اور کسی بھی شخصیت کے وابستگان کی دل آزاری بھی نہیں ہوگی ،نیز عوام میں اہل سنت کے نام پر کوئی گروہ بھی مشتہر نہیں ہوگا۔

نیپال میں جتنے سنی علما ہیں ان سب کا مصدر و مرکز ایک ہے اور وہ ہے اسلام و سنیت پھر اختلاف کیوں؟سبھی مسلک اعلیٰ حضرت کے ماننے والے ہیں پھر آپس میں رسہ کشی کیوں؟ایک دوسرے پر کفر و گمراہی کی تلوار سے وار کیوں؟جو ماضی میں ہوچکا اس اختلاف کے بوجھ کو نئی نسل کے کاندھوں پر جبرا کیوں لادا جارہا ہے اور کب تک ایسا ہوگا؟اور جو لوگ اس وقت اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ نفرت پھیلاتے ہیں وہ کب تک دوسروں کے اکسانے پر ایسا کرتے رہیں گے؟کیا اسلام میں مفاہمت و مصالحت کے لئے کوئی جگہ ہے یا نہیں؟کیا اس بارے میں اسلام کی وسیع تر تعلیمات کا دائرہ تنگ ہوگیا یا ہم نے تنگ کردیا یا ان کی وسعت قوم سے چھپا رہے ہیں؟کیا ہی یہی قیادت ہے،کیا اسی کا نام رہنمائی ہے،کیا قوم کے اعتماد و بھروسہ کا اسی طرح خون ہوتا رہے گا؟
کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں ناخدا کے ساتھ
پیر مغاں سے ہم کو کوئی بیر تو نہیں
تھوڑا سا اختلاف ہے مرد خدا کے ساتھ
اس وقت ہر طرف کے سنی نوجوان علما سے عرض کروں گا خدا را دل صاف کرلیجئے ،سینوں کو کشادہ اور بے کینہ کرلیجئے،فتوی بازوں سے دور رہئے ،قوم کو لڑانے والوں سے بیزار و دور ہو جائے ،محبت کا پیغام عام کیجئے، اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجئے اور دوسروں کے ہاتھوں میں بھی یہ رسی تھمائے،نفرت کا بازار نہیں عقیدتوں اور پیار کا شہر آباد کیجئے۔جن بڑوں اور پرانوں کا دماغ کام نہیں کر رہا ہے ان کا علاج کروانا ممکن ہو تو مل جل کیجئے ورنہ ان کی پیروی سے بچئے،جو علما فیس بک پر ویڈیوز بناکر شائع کرتے ہیں وہ پہلے اس کے مثبت و منفی اثرات پر بھی غور کرلیں پھر نشر کریں بس کسی نے کہا اور نشر کردیا ایسا نہ کریں۔بلکہ دعوت و تبلیغ کے لیے دعوت اسلامی کے جو ماہر مبلغین ہیں انہیں آئڈیئل بنائیں اور اس میں کچھ بھی حیا محسوس نہ کریں۔

اور ایک خاص بات یہ کہ ایسے خطبیبوں،مفتیوں اور عالموں پر کڑی نظر رکھیں جو امن کو خراب کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں جو بھڑکاؤ تقریر کرتے ہیں،ان کے خلاف قانونی کاروائی کریں چب رہ کر تماشائی یا نالہ کناہ نہ رہیں۔بس ایک بار ایک کے خلاف پیش قدمی کی ضرورت ہے پھر دیکھیے کس ماں کے لال پیلے میں ہمت ہوتی ہے اور کس چرب زبان خطیب کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے اور کس مفتی کا فتویٰ ۔اور ہم سب اہل سنت مل جل کر رہنے کے لئے عہد و میثاق کرلیں، انتشار و شقاق کی دیوار کو منہدم کردیں،پیار و محبت اور اتحاد و اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ،کیوں اسی میں ہماری حیات و زیست کا راز پنہاں ہے۔حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا :’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت‘‘
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
(ڈاکٹر اقبال)

 

ABDUSSALAM AMJADI
About the Author: ABDUSSALAM AMJADI Read More Articles by ABDUSSALAM AMJADI: 9 Articles with 9711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.