پاکستان میں ہر پانچ سال بعد آفت: زلزلہ، سیلاب، وبا اور بدانتظامی



پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی یہ کہے کہ ”قدرتی آفات ہمارے نصیب میں لکھی ہیں“ تو غلط بھی نہیں ہوگا، لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ اصل سچ یہ ہے کہ آفات تو آتی ہیں، مگر ان سے نمٹنے کی تیاری ہماری ذمہ داری ہے، اور یہی ذمہ داری ہم نے ہمیشہ نظرانداز کی۔ پچھلے بیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایک ڈراونی ترتیب نظر آتی ہے۔

2005 میں تباہ کن زلزلہ آیا، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں، شہر و دیہات ملبے میں بدل گئے۔ دنیا بھر سے امداد آئی لیکن ہم نے اس امداد کو بھی کرپشن اور بدنظمی کی نذر کر دیا۔ 2010 میں تاریخ کے بدترین سیلاب نے کروڑوں افراد کو متاثر کیا۔ لاکھوں گھر ڈوب گئے، زراعت اور معیشت کو زبردست دھچکا لگا۔ تب بھی حکومتی ردعمل دیر سے اور ناکافی تھا۔ 2015 میں ایک اور زلزلے نے شمالی علاقوں میں تباہی مچائی، پھر وہی کہانیاں، وہی رونے دھونے، اور پھر خاموشی۔2020 میں کرونا وبا نے نظام صحت کی قلعی کھول دی۔ ماسک اور وینٹی لیٹر کی کمی نے دکھا دیا کہ ہم ہنگامی حالات کے لیے کتنا غیر تیار ہیں۔اور اب 2025 میں پھر سیلاب آیا، اور ایک بار پھر عوام کے لیے عذاب کا دوسرا نام بن گیا۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے ان پچھلے حادثات سے کیا سیکھا؟ اگر ہر پانچ سال بعد ہم ایک نئی تباہی کا شکار ہوتے ہیں، تو کم از کم ہم نے مستقبل کے لیے کوئی حکمت عملی کیوں نہ بنائی؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ حادثے کے بعد جاگتے ہیں۔ زلزلے کے بعد ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمیں زلزلہ پروف عمارتیں بنانی چاہیے تھیں۔ سیلاب کے بعد ہمیں خیال آتا ہے کہ دریاوں اور ندی نالوں پر قبضے ختم کرنے چاہیے تھے۔ وبا کے بعد ہمیں صحت کے نظام میں سرمایہ کاری یاد آتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وقت گزرتا ہے، ہم سب کچھ بھول کر دوبارہ وہی پرانا کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو قدرتی آفات صرف "قدرت کا امتحان" نہیں ہوتیں، یہ دراصل ہماری بدانتظامی، غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ بھی بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر 2010 اور 2025 کے سیلاب صرف بارشوں کا کمال نہیں تھے۔ ان میں برسوں کی ناقص منصوبہ بندی، نالوں کی بندش، ناقص ڈیم سسٹم، زمینوں پر قبضے، اور بے ہنگم آبادی کا بھی حصہ تھا۔ اگر ہم بروقت چھوٹے ڈیم بناتے، نکاسی آب کے نظام کو بہتر کرتے، اور ہاو¿سنگ اسکیموں کو کنٹرول کرتے تو نقصان کم ہوسکتا تھا۔

اسی طرح کرونا نے ہمیں دکھایا کہ صحت کے شعبے پر ہم نے کتنی کم توجہ دی۔ اگر اسپتالوں کا انفراسٹرکچر بہتر ہوتا، اگر تحقیق اور ویکسین کے عمل پر پہلے سے سرمایہ کاری کی جاتی تو حالات اس قدر سنگین نہ ہوتے۔

اب آتے ہیں 2025 کے سیلاب پر۔ اس بار بھی ہم وہی پرانی روش دیکھ رہے ہیں۔ امدادی کیمپ لگائے گئے، فوٹو سیشن ہوئے، چند دن میڈیا پر شور مچا، لیکن متاثرین آج بھی خیموں اور سڑکوں پر پڑے ہیں۔ ان کے لیے مستقل بحالی کا کوئی لائحہ عمل نہیں۔ حکومت اور ادارے پھر وقتی ریلیف دے کر آگے نکل جائیں گے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ نقصان سیلاب کے وقت اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہمارے پاس پانی کو محفوظ کرنے کا نظام نہیں۔ ہر سال اربوں روپے کا پانی ضائع ہوکر سمندر میں جا گرتا ہے، اور دوسری طرف ہم پانی کی کمی کا رونا روتے ہیں۔ ہم بڑے ڈیم تو بناتے ہی نہیں، اور جو چند ڈیم بنے ہیں ان کی حالت بھی انتہائی خراب ہے۔ بعض ڈیموں کی دیواروں میں دراڑیں ہیں، کچھ میں مٹی جمی ہوئی ہے جس کی صفائی پر کوئی توجہ نہیں۔ یہ خطرہ بھی ہے کہ کل کو یہ بوسیدہ ڈیم ٹوٹ جائیں اور آفت مزید بڑھ جائے۔ ہمیں نہ صرف نئے ڈیموں کی ضرورت ہے بلکہ پرانے ڈیموں کی دیکھ بھال بھی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

سچ یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی پالیسیوں میں سنجیدگی نہ دکھائی تو 2030 میں کوئی اور نیا عذاب ہمارا منتظر ہوگا۔ یہ سلسلہ تبھی رکے گا جب ہم آفات کو قسمت کا بہانہ سمجھنے کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ ہمیں چاہیے کہ قومی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان صرف کاغذوں میں نہ رہے بلکہ عملی شکل اختیار کرے۔ سیلاب اور زلزلہ پروف انفراسٹرکچر بنے، چاہے اس پر زیادہ لاگت ہی کیوں نہ آئے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لیا جائے، کیونکہ یہ تباہیوں کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ صحت کا نظام مضبوط بنایا جائے تاکہ کسی وبا یا ایمرجنسی میں ہم دوسروں کے محتاج نہ ہوں۔ احتساب ہو کہ ماضی کی آفات میں جو اربوں کی امداد آئی وہ کہاں گئی۔

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قدرتی آفات آنا رک نہیں سکتیں۔ لیکن یہ آفات تبھی ”عذاب“ بنتی ہیں جب ریاست اور معاشرہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کرے۔ اگر ہم نے سبق نہ سیکھا تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کریں۔

#PakistanFloods #Earthquake #DisasterManagement #ClimateChange #PakistanCrisis #Flood2025 #Accountability #Corruption #WaterManagement #BuildDams
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 760 Articles with 621203 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More