* انسان کبھی مکمل اچھا نہیں اور کبھی مکمل برا نہیں۔*




* انسان کبھی مکمل اچھا نہیں اور کبھی مکمل برا نہیں۔*


انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ



مغل ادوار میں ہر مغل شہنشاہ کی کوئی نہ کوئی تاریخ قصہ و کہانی سے اٹی ہوئی ہیں جیسے مغل شہنشاہ جہانگیر نے خفیہ دستہ بھیجا اور نورجہاں کے شوہر شیر افگن کو قتل کروا دیا۔ یہ وہی جہانگیر تھا جس کے محل کے باہر سونے کی زنجیرِ عدل لٹکی رہتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی مظلوم وہ زنجیر ہلاتا تو بادشاہ خود دربار سے نکل کر انصاف کرتا۔ ایک طرف عدل و انصاف کی یہ عظیم نشانی اور دوسری طرف اپنی محبوبہ کی خاطر ایک بے گناہ شوہر کا خون—نتیجہ اخذ کیجیے کہ ، جہانگیر فرشتہ تھا یا قاتل؟

تاریخ کے اوراق میں ایسے ہی تضادات سے کتابیں اٹی پڑی ہیں۔ شاہجہان کو دیکھ لیں۔ محبت کا تاج محل بنایا، وہ سنگ مرمر کا خواب جو دنیا آج تک حیرت سے دیکھتی ہے۔ لیکن یہی شاہجہان تخت پر بیٹھتے ہی اپنے بھائیوں اور تمام ممکنہ وارثوں کو قتل کرا گیا تاکہ اقتدار پر کوئی سایہ نہ رہے۔ ایک طرف محبت کی یادگار، دوسری طرف خون سے رنگی ہوئی سیاست۔ تو سوال یہ ہے کہ ہم شاہجہان کو کس خانہ میں رکھیں؟ عشق کے خانے میں یا سنگدلی کے؟

اورنگزیب کی کہانی اور بھی ہولناک ہے۔ وہ اپنی روزی ٹوپیاں سینے اور چٹائیاں بُننے سے کمانے والا زاہد بادشاہ تھا۔ وصیت میں لکھا کہ میرا کفن میری سی ہوئی ٹوپیوں کے پیسوں سے خریدا جائے۔یہاں تک کے بادشاہی مسجد لاہور کی بنیاد رکھتے وقت اورنگزیب نے کہا کے بنیاد کوئی ایسا شخص رکھے، جس نے ہوش سمبھالنے کے بعد فرض نماز تو درکنار، تہجد بھی نہ چھوڑی ہو۔ جب کوئی سامنے نہ آیا تو اورنگ زیب عالمگیر نے کہا الحمد للہ میں نے تہجد کبھی نہیں چھوڑی۔

لیکن یہی اورنگزیب اپنے بھائی دارا شکوہ کو گرفتار کرتا ہے، اُس کے جلوس کو ہاتھی پر ذلت آمیز انداز میں نکالتا ہے اور پھر اُس کی آنکھوں میں دہکتے ہوئے سرخ لوہے کی سلاخیں گھسوا دیتا ہے۔ آخر کار اُسے قتل کرا کے سر دہلی بھیجتا ہے۔

یہی نہیں، اورنگزیب نے اپنے والد شاہجہان کو بھی قید کر دیا۔ وہ باپ جس نے تاج محل بنایا، اپنی زندگی کے آخری آٹھ سال قلعہ آگرہ کے ایک کمرے میں قیدی بن کر گزارے۔ کبھی بیٹے کے رحم کی جھلک نہ ملی، اور وہ بادشاہ اپنی ہی بنائی ہوئی عمارت تاج محل کو دریچے سے دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہوا۔ کیا یہ بادشاہ صوفی تھا یا جابر؟ درویش تھا یا سنگ دل؟

انسان دراصل ایک الماری ہے۔ ایک خانے میں روشنی، دوسرے میں اندھیرا۔ ایک دروازے میں سخاوت، دوسرے میں ظلم۔ لیکن ہماری عادت ہے کہ ہم صرف ایک دروازہ کھولتے ہیں اور پورے انسان کو اسی میں قید کر دیتے ہیں۔ نتیجہ؟ کبھی ہم ہیرو کی اندھی عقیدت میں پڑ جاتے ہیں اور کبھی دشمن کی اندھی نفرت میں۔

غور کرکے دیکھے کہ وہ نمازی جو ہر وقت پہلی صف میں کھڑا رہتا ہے، کاروبار میں لوگوں کو لوٹ بھی سکتا ہے۔ اور وہ آدمی جو زبان سے سخت اور تلخ ہے، شاید وہی ہے جو یتیم کے بچوں کی فیس چپکے سے ادا کرتا ہے۔ تو اب اصل اچھا کون اور برا کون؟

یہی اصول بڑے بڑے ناموں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہٹلر لاکھوں یہودیوں کا قاتل تھا، مگر جرمنی کی معیشت کھڑی کر دی، سڑکیں بنائیں اور فیکٹریاں چلائیں۔ چرچل دوسری جنگِ عظیم کا ہیرو بنا، لیکن اسی کے فیصلے سے بنگال میں قحط پڑا اور تین ملین انسان بھوک سے مر گئے۔ گاندھی جی آزادی کے استعارہ ہیں، مگر ان کی ذاتی زندگی میں برہمچریہ کے تجربات ہمیشہ متنازعہ رہے۔ قائداعظمؒ مغربی عادات کے قائل تھے، لیکن وہی ہمیں پاکستان دے گئے۔ اب بتائیے، یہ سب لوگ مکمل اچھے تھے یا مکمل برے؟

انسان کو سمجھنا شطرنج کھیلنے جیسا ہے۔ کچھ خانے سفید ہیں، کچھ کالے۔ کھیل انہی دونوں سے بنتا ہے۔ اگر صرف سفید ہوں تو کھیل ختم، اگر صرف کالے ہوں تو بھی کھیل ختم۔ انسان کی زندگی بھی ایسے ہی ہے—روشنی اور سائے، دونوں ساتھ ساتھ۔

اصل حکمت یہ ہے کہ انسان کو compartments میں پرکھا جائے۔ سیاست دان کو سیاست میں دیکھیں، مگر گھر کی زندگی کو الگ خانہ مانیں۔ استاد کو علم میں پرکھیں، مگر اخلاق میں بھی جانچیں۔ گلوکار کے فن کو سراہیں، لیکن اس کی نجی زندگی کے سائے بھی نوٹ کریں۔ یہی انصاف ہے اور یہی بصیرت۔

دیکھا جائے تو ، جو لوگ آج بھی کسی کو مکمل اچھا یا مکمل برا سمجھتے ہیں وہ حقیقت میں عقل کی پہلی سیڑھی پر ہیں۔ اصل عقل یہ ہے کہ ہم الماری کے تمام دروازے کھولیں اور ہر خانے کو الگ الگ دیکھیں۔ تبھی پورا انسان سامنے آتا ہے۔

۔ اگر آپ کسی انسان کی نیکی کو اس کی برائی پر ترجیح دینا سیکھ لیں تو یہ دنیا اچانک حسین ہو جائے گی۔ جیسے باغ میں کانٹے بھی ہوتے ہیں، مگر اگر آپ پھول پر توجہ دیں تو خوشبو ہی یاد رہتی ہے۔ اسی طرح جب آپ خوبی پر نظر رکھیں گے تو محسوس ہوگا کہ دنیا میں زیادہ تر لوگ برے نہیں بلکہ اپنی اچھائی میں پچاس فیصد سے اوپر ہی ہیں۔

آخر میں یہی سمجھ میں آتا ہے کہ انسان کبھی مکمل اچھا نہیں اور کبھی مکمل برا نہیں۔ اصل حکمت یہ ہے کہ ہم ہر شخص کو compartments میں پرکھیں اور اس کی نیکی کو اس کی برائی پر ترجیح دیں۔ جب آپ یہ زاویہ اپنائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں تقریباً ہر شخص اچھا ہے۔

 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 481 Articles with 302788 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.