نظام حکومت میں عدلیہ کی حیثیت قلب کی ہے۔ مقننہ اس کا
دماغ اور انتظامیہ ہاتھ پیر ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو زبان کہا جاسکتا ہے ۔ ان
کے علاوہ دیگر اعضائے جسمانی کی بھی اپنی اپنی اہمیت اور ضرورت ہے۔ وزیر
اعظم نریندر مودی نے پچھلے دنوں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ’
ہمارے ملک میں جہاں ایک طرف عدلیہ کا کردار آئین کے محافظ کا ہے تو وہیں
مقننہ شہریوں کی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئین کے ان
دو دھاراوں کا یہ سنگم، یہ توازن ملک میں ایک موثر اور ٹائم باونڈ عدالتی
نظام کا روڈ میپ تیار کرے گا‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آزادی کے ان 75
سالوں نے عدلیہ اور انتظامیہ کے کردار اور ذمہ داریوں کو واضح کیا ہے۔ ملک
کو سمت دینے کے لیےحسبِ ضرورت ان دونوں اداروں کے درمیان کا یہ رشتہ لگاتار
فروغ پایا ہے ۔ یہ چکنی چپڑی باتیں مائک سے سننے میں بہت بھلی معلوم ہوتی
ہیں لیکن اگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہو تو بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اس
لیے کہ بقول غالب؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وزیر اعظم نریندر مودی کو احساس ہے کہ عدلیہ کے اوپر سے عوام کا اعتماد اٹھ
رہا ہے۔ اس کی بحالی کے لیے وہ عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی اور مقامی زبانوں
کے استعمال وغیرہ پر زور دیتے ہیں حالانکہ اس علامتی میک اپ سے کوئی خاص
فرق نہیں پڑے گا۔ موجودہ حکومت کی نظر میں عدل و قسط کی ا اہمیت کو بلقین
بانو کے معاملے نے بے نقاب کردیا ہے۔ بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں
عمر قید کی سزا یافتہ 11 ملزمان کو مودی جی کی جنم بھومی اور امیت شاہ کی
کرم بھومی گجرات میں امسال یوم آزادی کے دن رہا کیا گیا ۔ اس ظالمانہ
اقدام کو دلیر بلقیس بانو نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ۔ 3؍ مارچ 2002 کو
احمد آباد کے قریب رندھیک پور گاؤں میں گودھرا سانحہ کے بعد رونما ہونے
والے فسادات کے دوران بلقیس بانو کے خاندان پر بھیڑ نے حملہ کیا تھا۔ ہجوم
کے اس حملے میں بلقیس کے خاندان کی تین سالہ بچی سمیت سات افراد مارے گئے
تھے۔اس وقت بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ان کی اجتماعی عصمت دری کی
گئی۔ گجرات کے حالات اس قدر خراب تھے کہ وہاں انصاف کی امید نہیں تھی۔ اس
لیےیہ مقدمہ ممبئی منتقل کردیا گیا۔
ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے 21 جنوری 2008 کے دن 11 مجرموں کو
عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے بمبئی ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ 15 سال
بعد ان میں سے ایک نے قبل از وقت رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔
سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس کی سزا کے معاملے میں
معافی پر غور کرے۔ حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔ اس کمیٹی نے انکشاف کیا
کہ ان کا برتاؤ اچھا تھا۔ اس پر گجرات حکومت نے مرکزی حکومت سے رہنمائی طلب
کی ۔ امیت شاہ کی وزارت داخلہ نے 11 ؍ جولائی کو ایک خط کے ذریعہ قبل از
وقت رہائی کی منظوری دے دی ۔اس طرح گویا مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ساز
باز سے یہ رہائی ہوگئی ۔ اس معاملے میں دیگر انصاف پسندوں کے علاوہ ہندوتوا
نواز شیو سینا نے بھی کہا تھا کہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے بلقیس بانو کے
خلاف جرم کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی نے تمام 11 مجرموں کی رہائی پر
گجرات حکومت سے پوچھا تھاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس طرح کے مظالم
پربلند آواز میں رونے والوں کی حساسیت بلقیس بانو کے معاملے میں کہاں چلی
گئی؟ اور یہ بھی کہا تھا کہ "اگر بلقیس کی عصمت دری کرنے والوں کو گجرات کے
آئندہ انتخابات میں ہندو ووٹوں کی خاطر رہا کیا جاتا ہے، تو یہ رجحان ہمیں
تباہ کر دے گا۔سینا نے جاننا چاہا” کیا عصمت دری کرنے والوں کو خوش کرنا
ہندو کلچر ہے؟ ‘‘۔
ان مجرموں کو چونکہ پرانی استثنیٰ کی پالیسی کے تحت رہا کیا گیا تھا اس لیے
سی پی ایم کی رکن پارلیمان سبھاشنی علی، ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا
وغیرہ نے رہائی کو چیلنج کردیا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے سماعت کے لیے بنچ
کا سربراہ انہیں جسٹس اجے رستوگی کو بنایا جنھوں نے اس رہائی کے لیے ریاستی
سرکار کو غورو خوض کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اس لیے مذکورہ تنازع میں انصاف کی
توقع پہلے ہی مرحلے میں کم ہوگئی لیکن پھر بھی بنچ کے اندر سپریم کورٹ کی
جج بیلا ایم ترویدی کی موجودگی امید کی ایک کرن تھی ۔ عصرِ جدید میں مرد بے
درد سمجھا جاتا ہے۔عورت کا دکھ در د محسوس کرنے کی خاطر خواتین کی نمائندگی
پر زور دیا جاتا ہے لیکن پھر یہ چونکانے والی خبر آگئی کہ جسٹس بیلا
ترویدی نے خود کو مقدمہ کی سماعت سے الگ کرلیا ۔جسٹس اجئے رستوگی نے پہلی
ہی سماعت میں اعلان کردیا کہ ان کی بہن جج معاملے کی سماعت نہیں کرنا چاہیں
گی۔ اس کے ساتھ یہ حکم دیا کہ ’’معاملے کو اس بنچ کے سامنے پیش کریں کہ جس
میں ہم میں سے کوئی رکن نہ ہو۔‘‘ اس طرح گویا دبے لفظوں میں خود جسٹس
رستوگی نے بھی معذرت چاہی ۔
جسٹس بیلا ترویدی نے سماعت سے الگ ہونے کی کوئی وجہ تو نہیں بتائی مگر ہر
اس کا مطلب اظہر من الشمس ہے۔ انہوں نے زبردست سیاسی دباو میں فیصلہ کیا
ہوگا۔ انہیں اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف سرکار کی مرضی کا فیصلہ کرنے
کاخطرہ مول لینے والوں کے سامنے جسٹس لویا کا انجام موجود ہے۔ ایک خاتون جج
کا اپنی ہم جنس کو انصاف دینے سے کنارہ کشی کرجانا ملک کے اندر عدل و انصاف
کی دگر گوں صورتحال کے ساتھ وزیر اعظم کے کھوکھلے الفاظ کی حقیقت کو بھی بے
نقاب کرتا ہے۔ بلقیس بانو کے وکیل کی دلیل تھی چونکہ اس مقدمہ کی سماعت
مہاراشٹر میں ہوئی ہے ۔ وہاں کی رہائی پالیسی کے مطابق ایسے گھناؤنے جرائم
پر 28 سال سے پہلے رہا ئی ممکن نہیں ہے ۔ جسٹس رستوگی بنچ کے ساتھ جسٹس
وکرم ناتھ کو کیا گیا اور ان دونوں نے مئی میں دیئے جانے والے عدالت عظمیٰ
کے اس حکم کو برقرار رکھتے ہوئے جس کے گجرات حکومت کو 1992 کے جیل قوانین
کے تحت 11 مجرموں کو رہا کرنے کی اجازت دی گئی تھی بلقیس بانو کی درخواست
کو خارج کردیا۔ اب بھلا کوئی جج اپنے ہی فیصلے کو کیسے مسترد کرسکتا ہے؟ ان
کو اس بنچ میں شامل کرنا ہی بنیادی طور پر درست نہیں تھا۔ سپریم کورٹ میں
ججوں کا کون سا قحط پڑا ہوا ہے جو کسی اور کو نامزد نہیں کیا جاسکا؟
انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر طرح کے تفریق و امتیاز کو بالائے طاق رکھ کر
ہرفرد کے ساتھ قرار واقعی سلوک کیا جائے۔ گجرات کی حکومت نے اس اصول کا بھی
گلا گھونٹ دیا ۔ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کےحق میں اس نے اپنے حلف
نامے میں کہا کہ معافی کو چیلنج کرنا مفاد عامہ کی عرضی کے دائرہ اختیار
میں نہیں آتا۔ یہ حقوق کا غلط استعمال ہے۔ اس کے علاوہ تمام مجرموں کو رہا
کرنے کا فیصلہ بورڈ میں شامل افراد کی متفقہ رائے سے کیا گیا۔ اس میں سزا
کے دوران مجرموں کا رویہ زیر غور رہا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان 11
مجرموں نے جیل میں 14 سال یا اس سے زیادہ کی سزا پوری کر لی تھی اور ان کا
برتاؤ اچھا پایا گیا تھا حالانکہ یہ وہ ایک لوگ طویل عرصہ جیل سے باہر
پیرول پر گزار چکے تھے اور واپس جانے میں تاخیر کرتے تھے۔ سرکار کا اصرار
تھا کہ یہ رہائی قواعد و ضوابط کے مطابق ہوئی نیز انہیں آزادی کے امرت
مہوتسو پر نہیں بلکہ پانچ دن قبل معافی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ایک طرف ان سفاک مجرمین کے تئیں یہ نرم رویہ اور دوسری جانب 2002 کے گودھرا
ٹرین آتشزدگی معاملہ میں قصوروار ٹھہرائے گئے فاروق کے معاملہ میں سپریم
کورٹ کے اندر اسی حکومت کا رویہ یکسر بدل گیا۔ فاروق کو محض پتھر بازی کے
لیے تاحیات جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ و جسٹس پی
ایس نرسمہا کی بنچ کے سامنے فاروق کا معاملہ آیا تو ضمانت کی مخالفت کرتے
ہوئے گجرات حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت میں کہا کہ یہ
سب سے بہیمانہ جرم تھا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 59 لوگوں کو زندہ جلا
دیا گیا تھا ۔ اس لیے قصورواروں کی اپیل جلد از جلد سننے کی ضرورت ہے۔ تشار
مہتا کےمطابق عام طور پر پتھراؤ کرنا معمولی قسم کا جرم ہے، لیکن مذکورہ
معاملے میں ٹرین کے کوچ کو بولٹ کیا گیا تھا اور یہ یقینی بنانے کے لیے
پتھراؤ کیا گیا تھا کہ مسافر باہر نہ آ سکیں اور اس کے علاوہ فائر ٹنڈر
پر بھی پتھر پھینکے گئے۔ یعنی اس سرکار کے مطابق پتھربازی کرنے والے کو
اٹھارہ سال بعد بھی ضمانت دینا غلط اور قاتلوں کو پندرہ سال بعد رہا کردینا
درست ہے ۔ اس طرح کا بھید بھاو کرنے والے جب عدل و انصاف پر پروچن سناتے
ہیں تو بیک وقت ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے۔ دنیا میں منوسمرتی
وہ واحد قانون کی کتاب ہے جس میں نسل کی بنیاد پر عدل و انصاف کو پامال کیا
جاتا ہے۔ موجودہ حکومت غیر اعلانیہ طور پر اسی ظلم کو عدل کا نام دینے کی
ناکام کوشش کررہی ہے۔ اس پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن
|