کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی کی شرافت اور نرم لب
ولہجے کا بی جے پی نے خوب فائدہ اٹھایا ۔ مودی جی نے قومی انتخاب کی مہم کے
دوران سونیا کے آنجہانی خاوند اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی پر کیچڑ
اچھالنے سے بھی پر ہیز نہیں کیا۔ رافیل کے معاملے میں جب ملک ’چوکیدار چور
ہے‘ کے نعرے سے گونج اٹھا تو اس سے گھبرا کر راجیو گاندھی کو نریندر مودی
نے موت کے تیس سال بعد’کرپٹ نمبر ون ‘ کے لقب سے یاد کیا جو نہایت شرمناک
اقدام تھا لیکن بی جے پی کی شریعت میں یہ نہ صرف حلال بلکہ مستحب ہے ۔
زعفرانی لب و لہجے میں اس الزام کا جواب دینا سونیا گاندھی جیسی مہذب خاتون
یا راہل کے لیے تو ممکن نہیں تھا لیکن کانگریس کے نئے صدر ملکارجن کھرگے کے
لیے بہت آسان ہے کیونکہ وہ بھی وہی بولی بولتے ہیں اور اپنے موقف سے پیچھے
نہیں ہٹتے بلکہ اس پر ڈٹ جاتے ہیں ۔ اس کا مظاہرہ پہلے گجرات اور پھر
راجستھان میں ہوچکا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کے اپنے صوبے کرناٹک
کی انتخابی مہم میں اس کے مزید نمونے ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں گے ۔
گجرات میں انتخابی مہم کے آخری دن کانگریس سربراہ ملکارجن کھرگےنے بہرام
پورہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی پر تنقید کرتے ہوئے
کہا تھاکہ ’’وہ کہتے ہیں کہ کہیں اور مت دیکھو۔ صرف مودی کو دیکھ کر ووٹ دو
لیکن کتنی بار تمہاری صورت دیکھیں؟ ہم نے کارپوریشن کے انتخابات میں آپ کا
چہرا دیکھا، ایم ایل اے کے الیکشن میں بھی دیکھا اورلوک سبھا کے انتخاب میں
بھی آپ ہی کی صورت نظر آئی۔ ہر جگہ آپ ہی آپ، کیا آپ کے پاس راون کی
طرح 100؍ چہرے ہیں؟ مجھے سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ اس حقیقت بیانی پر بی جے پی
والوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی حالانکہ اس میں غلط کیا تھا؟ بی جے پی کو
آج کل پر کوئی ہم دو ہمارے دو کی پارٹی کہتا ہے۔ ان سے میں ایک (مودی ) کا
چہرا دکھا کر دوسرا (امیت شاہ) ووٹ مانگتا ہے اور ان دونوں کے آشیرواد سے
باقی دو یعنی اڈانی اور امبانی نوٹ چھاپ کر کچھ اپنی اور کچھ پارٹی کی
تجوری میں ڈال دیتے ہیں ۔
راون کے دس چہرے زبان زدِ عام ہیں۔ اس کا کئی چہر وں والا پتلا بناکرہر سال
دسہرہ کے وقت نذرِ آتش کیا جاتا ہے ۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ ویسے ملک
کے کچھ حصوں میں مودی کی مانند راون کی بھی پوجا کی جاتی ہے اور سری لنکا
تو اس کا شیدائی ہے۔ وہاں کے لوگ آج بھی راون کو عظیم شیو بھگت، قابل
حکمراں ، جید عالم اور بڑا فنکار مانتے ہیں۔ راجستھان کے اندر راون کی
سسرال منڈورمیں اسے آج بھی داماد کا احترام دیا جاتا ہے۔ بی جے پی چونکہ
ایک نااہل پارٹی ہے اس لیے انتخابی مہم میں اس کا گزارہ کارکردگی کے بجائے
نفرت انگیزی یا ہمدردی بٹورنے پر ہوتا ہے۔ ملکارجن کھرگے کے بیان پر بھی
سخت برہمی کا اظہار کرکے وہ ہمدردی جٹانے میں لگ گئی۔ اس کے مطابق یہ صرف
وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ گجرات اور پورے ملک کی توہین ہے۔ مودی یُگ میں سابق
وزیر اعظم راجیو گاندھی کا قاتلوں کو رہائی یا بابائے قوم گاندھی جی کے
قاتل ناتھو رام گوڈسے کے مندر کی تعمیر سے کسی کی توہین نہیں ہوتی مگر وزیر
اعظم کو راون کہہ دینے سے نہ صرف گجرات بلکہ پورے ملک کی تضحیک ہوجاتی ہے۔
اس احمقانہ دلیل سے ہمدردی اور ووٹ تو مل جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک
درست بات غلط نہیں ہوجاتی ۔
عوام کی تائید و حمایت حق و باطل کی کسوٹی نہیں ہے۔ وہ تو آج جسے سر پر
بٹھا تے ہیں کل اس کو کوڑے دان کی نذر کردیتے ہیں ۔اس کی تازہ ترین مثال
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ہیں ۔ کل تک ٹرمپ کو امریکی عوام نے سر پر
بٹھارکھا تھا ۔ گجرات کے اندروزیر اعظم مودی ’نمستے ٹرمپ‘ کی تقریب کا
اہتمام کرکے ان کا استقبال کر رہے تھے۔ آج ٹرمپ کو امریکہ کی ایوان
پارلیمان پر تشدد بھڑکانے کے سنگین الزام میں فوجداری کا مقدمہ چلانے کی
تیاری چل رہی ہے۔ یعنی امریکی عوام کے نزدیک کل کا رام آج راون بن چکا
ہے۔اب مودی جی بھی اپنا نمستے واپس لینے کی سوچ رہے ہوں گے؟ یہ معاملہ دنیا
میں کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ آج مسلمانوں کو سبق سکھانے کے نعرے سے مرعوب ہوکر
بی جے پی کو اقتدار پر فائز کرنے والے رائے دہندگان کل شاہ جی عدالت کے
کٹہرے میں کھڑا کرسکتے ہیں ۔ عوام کے اندرچونکہ استقلال نہیں اس لیے ان پر
اعتبارنہیں کیا جاسکتا ۔ عربی زبان کا مشہورمقولہ ہے "العوام کالانعام"
یعنی "عوام چوپائیوں کی مانند " ہوتے ہیں ۔ اسی لیے شاطر سیاستداں ان کو
اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ورغلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن جلد یا بہ دیر
جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ انتقام لینے سے گریز نہیں کرتے۔
اطالوی عوام نے جو سلوک وہاں کے مقبول ترین رہنما مسولینی کے ساتھ کیا تھا
اس کا اعادہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوسکتا ہے۔ وطن عزیز کے اندر بھی
ظالموں کے تئیں انصاف پسندوں کے ارمان مومن خاں مومن اس شعر کی مانند ہے؎
ہم چارہ گر کو یوں ہی پنہائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آ گیا
ملکارجن کھرگے کے بیان پر بی جے پی بڑی مکاری سے مظلومیت کا کارڈ کھیلتے
ہوئے اسے پورے گجرات کی توہین قرار دے کر رائے دہندگان کو انتقام لینے پر
اکسایا اور لوگ اس جھانسے میں آگئے۔ بی جے پی نے کہا کہ کانگریس سربراہ
ملکارجن کھرگے بھی سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی زبان بول رہے ہیں
حالانکہ حقیقت تو یہ تھی کہ کھرگے بی جے پی کی زبان بول رہے تھے جس نے اسے
بے چین کردیا تھا ۔ بی جے پی کے ترجمان سنبت پاترا نے کہا تھاکہ ’’وزیراعظم
مودی گجرات کے بیٹے ہیں۔ وہ پوری دنیا میں گجرات کا فخر ہیں۔ گجرات کے بیٹے
کیلئے ایسی زبان استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ قابل مذمت ہے اور کانگریس
کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ مودی نے ملک کے مفاد میں بہت سے کام کئے ہیں۔ وہ
ہندوستان کو ترقی کی راہ پر لے جارہے ہیں۔ گجرات کی مٹی کو سلام، جس نے
ایسا بیٹا دیا، جو ہندوستان کے غریبوں کو آگے لے جانے کیلئے کام کر رہا
ہے۔ انہیں راون کہنا صرف مودی کی توہین نہیں ہے بلکہ یہ گجرات اور گجراتیوں
کی توہین ہے۔‘‘دن رات ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھ کر اپنے مخالفین پر دشنام
طرازی کرنے والے سنبت پاترا کی زبان سے یہ سب سن کر ہنسی آتی تھی اس کے
باوجود الیکشن کی بساط پر مظلومیت کا یہ کارڈ چل گیا۔
انتخابی مہم سے قطع نظر ابھی حال میں ملکا رجن کھرگے نے مودی جی کے مشہور
نعرے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ ان کے مطابق مرکز
کی مودی حکومت دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کے مفادات کی بابت بلند
بانگ دعویٰ تو بہت کرتی ہے لیکن حقیقت میں اس کے 8 سالوں میں ان طبقات کے
حقوق پر شب خون مارا گیا ہے۔ کانگریسی صدر ملکارجن کھرگے نے مودی حکومت کو
گھیرتے ہوئے وزیر اعظم مودی سےٹویٹ پر کچھ اہم سوالات کیے۔ انہوں نے پوچھا،
''نریندر مودی جی! پچھلے 8 سالوں میں آپ کی حکومت نے دلتوں، قبائلیوں اور
پسماندہ طبقات کو مرکز میں ان کے لیے مختص عہدوں کو پرُ کیوں نہیں کیا؟
لاکھوں آسامیاں کیوں خالی پڑی ہیں؟ یہ 'سب کا ساتھ' نہیں، 'سب سے وشواس
گھات (دھوکہ دہی) ہے۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جبکہ بیروزگاری کی شرح ۸؍ فیصد سے
تجاوزکرچکی ہے۔ ملک کا پڑھا لکھا نوجوان سڑک پر پکوڑے تلنے پر مجبور ہے۔ ان
سوالات کو غیر معمولی اہمیت کے حاصل ہوگئی ہے ۔
ملکارجن کھڑگے نے گرافکس کی مدد سے چونکانے والے حقائق شیئر کیے۔ سرکاری
اعداد و شمار کے مطابق مرکزی حکومت کے محکموں میں گروپ اے کے اندر دلت
برادری کی 48.5 فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اس کے علاوہ گروپ بی میں 60
فیصد اسامیاں پُر نہیں کی گئیں اور گروپ سی میں 45.8 فیصد عہدوں پر کسی کا
تقرر نہیں کیا گیا ۔ اس معاملے میں قبائلی سماج کی حالت تو اور بھی گئی
گزری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مرکزی حکومت کے محکموں میں گروپ اے کے اندر
قبائلی سماج کی 52.2 فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ وہیں، گروپ بی میں 60.7
فیصد اسامیاں اور گروپ سی میں 53.3 فیصد اسامیاں کو پُر نہیں کیا گیا ۔
سنگھ پریوار کی سوشیل انجنیرنگ کا شکار دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ بھی اس
کا معاملہ مایوس کن ہے۔ مرکزی حکومت کے محکموں میں گروپ اےکے اندر پسماندہ
طبقات کی 60.9 فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ گروپ بی میں 74.8 فیصد جبکہ گروپ
سی میں 60.3 فیصد اسامیوں پر تقررات نہیں ہوئے۔اس طرح یہ بات اظہر من الشمس
ہوجاتی ہے کہ مودی سرکارنے اپنے 8 سالہ دور اقتدار میں جن لوگوں کا جذباتی
استحصال کرکے انتخابی کامیابیاں درج کرائیں اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہیں
کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ یہ طبقات جب تک اس دوست نما دشمن کو نہیں
پہچانتے اس وقت تک آستین کے سانپ کو دودھ پلاتے رہیں گے۔ سنگھ کی فریب دہی
پر کلیم عاجز کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
|