ایک طرف مغرب کا طرز حکمرانی کا انداز دوسری طرف اسلام کے
قلمعہکےنام پر دنیا بھر قوم کے وفادار،ایکٹو الرٹ ہوشیار اپنے ملک کے لئے
دن رات محنت کام کی جستجو اچھی سے اچھی اچیومنٹ کے لئے فکر مند امیر قوم کے
ذمہ دار لوگ جو اپنی قوم کے لیے رات دن بڑی خندہ پیشانی سے اپنے فرائص
منصبی انجام دئے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ملکوں میں کبھی روٹی کپڑا اور
مکان کے نعرہ پر یا ایک بریانی پلیٹ پر قوم کے نصیبوں کو پر براجمان نہیں
ہوتے اس ہی وجہ سے اس طرح کے مُلک ترقی یافتہ، ترقی پزیر کی راہوں پر چل
پڑے ہیں جن کے سامنے ہم کاسہ لیے ان کے در پر پہنچ جاتے ہیں.
دوسری طرف
اور دوسری طرف ہمارے مُلک پاکستان کے حکمران جو مورثیتی سیاست یا برادر اور
سن کوٹے پر آئے ہوئے تفریح کے لئے ملک ملک پھرتے خالی ہاتھ خالی ذہن خالی
بڑھکیں مارتے غریب قوم کے ارب پتی غیر ذمہ دار لوگ انہیں نہ کل احساس تھا
نہ آج اور نہ آنے والے کل پر یہ لوگ کبھی سنجیدگی دیکھاینگے آج 75 سال
ہوگئے اس ملک کو ان کی یہ ہی سنجیدگی نے اس ملک کو ایتھوپیا، روانڈا،
صومالیہ ،افغانستان اور سری لنکا وغیرہ جیسے مُلکوں کی صفوں میں لاکھڑا کیا
ہے. ان میں قصور انکا بھی نہیں یہ سیاسی بھٹی سے نکلیں وئے لیڈران نہیں یہ
مختلف ڈرائینگ روم کے بند دروازوں کی خفیہ اجلاسوں کی پیداوار ہیں جیسے نہ
یہ کل عوام میں ان کی جڑیں تھیں اور نہ آنے والے دنوں میں یہ جڑیں عوام میں
تناور درختوں کی طرح پھوٹیں گی اس طرح کے فارمولے پاکستان کو ایک لیبارٹری
کی طرح آئے دن آزمائے تو جاتے ہیں مگر یہ ہی فارمولے جب جب کسی بھی صورت
میں عملی جامہ پہناکے عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں تو وہ عوام میں تو پہلے
ہی ان کی ساخ وہ کسی کام کی نہیں ہوتی مگر جب غیر مُلکی دوروں پر وفد کی
صورت میں جاتے ہیں تو نہ ان میں عوام کے کچھ حاصل کرنے کی جستجو اور نہ ہی
وہ لگن اور سوچ سے عاری ہوتے ہیں کیونکہ انہیں نہ عوام لائی ہے اور نہ یہ
عوام کے لیے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں
ان کہ کسی دماغ کہ کھانچے میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے ہمیں کونسی عوام لائی ہے
نہ یہ عوام میں جاسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں عوام کی محرومیوں کا احساس ان
کے دلوں میں کوئی کھلبلی مچاتا ہے یہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے ہر
حکمران اور اس کی ٹیم کے دماغ کہ گوشہ میں یہ سرائیت کرچکی ہوتی ہے جس کی
وجہ سے آج تک ہم ایک قوم نہ بن سکے
یہ ہجوم ایک ریوڑ کی مانند ہے
جس دن قوم بنے گا اس دن قسمت بدلے گی |