کافی عرصے سے کچھ لکھا نہیں اس لیئے تحریر تھوڑی طویل ہے
مگر امید ہے کہ کچھ باتیں آپ کے کام آہی جائیں گی انشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔
دوہزارتئیس آگیا۔۔۔ سال دوہزار بائیس بھی الحمد اللہ میرے لیئے بہت اچھا
تھا ۔۔ دوہزار تئیس بھی انشاء اللہ بہت اچھا ہوگا ۔۔۔ صرف اللہ پر یقین اور
بھروسا اسکے بعد آپ کی کوشش اور محنت ۔۔ بس یہ وہ چیزیں ہیں جو آپ کو
آگے لیکر جانے والی ہیں ۔۔ کبھی کسی کے آسرے پر مت رہیں ۔۔۔۔ قابل رحم
نہیں ۔۔ بلکہ اس قابل بنے کہ آپ کو لوگ خود ہر جگہ بلائیں اور عزت کریں
۔۔۔ بس کچھ گزارشات ہیں جو اپنے مستقبل کو لیکر پریشان ہیں یا وہ کسی بھی
فیلڈ میں ہوں ۔۔۔ چار پانچ گزارشات ہیں ہیں وہ کرلیں اوراس پرکار بند
ہوجائیں ۔۔ دین کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں اور فرائض کی ادائیگی میں
کوتاہی نہ کرے ۔۔ جوہوچکا اس پر بھی شکرگزار رہے ،جو ہورہا ہے اس پربھی اور
جو ہوگا اس پر بھی اللہ سے اچھا گمان ہی رکھیں
ہمیشہ محنت کریں اور اسکا صلہ اور امید کی آس صرف اللہ سے لگائیں ۔۔۔۔
کبھی زندگی میں مایوس نہ ہوں ۔۔ قران میں ہے جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی
کی ، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بیشک
وہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(پارہ 24 ، سورۃ الزمر ، آیت 53) اور حدیث میں
ہے اللہ اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ اگر وہ
خیر کا گمان کرے ، تو اس کے لیے خیر ہے اور اگر شر کا گمان رکھے ، تو اس کے
لیئے شر ہے۔۔ تو مایوسی، نہ امیدی اپنی زندگی میں آنے ہی نہ دیں ۔۔ خود کو
عقل کل نہ سمجھیں ۔۔۔ کہ فلاں کو آٗئے ہوئے کچھ دن ہوئے اور وہ کہاں پہنچ
گیا اور ہم ایک عرصے سے اس فیلڈ میں ہے اور وہیں کہ وہیں ۔۔۔ یہ تاثر اور
سوچ ہی غلط بندہ سینئر اسکے کام کی بدولت ہوتا ہے وقت گزارنے سے نہیں ۔۔۔
اگر ایک بندہ کم وقت میں ترقی کرلے تو وہ اسکی صلاحیت ہے اور اگر جو سینئر
ہے اور اس مقام تک نہیں پہنچا تو مان اس میں وہ اہلیت نہیں ۔۔ مانا کہ قسمت
اور پرچی دونوں چلتی ہے مگر قسمت اور پرچی کو ثابت بھی وہی بندہ کرتا ہے
دوسرا یہ کہ اگر اللہ پاک اپ کو ایسا عہدہ دے کہ آپ کسی کی مدد کرسکتے ہیں
تو ضرور کریں ۔۔۔۔۔ کیوں کسی بندے کا آپ کی طرف دیکھنا خاص اللہ کا فضل ہے
آپ پر ۔۔ تو مواقع اورآسانیاں پیدا کریں ۔۔۔ آپ استطاعت رکھتے ہوں کسی
کی مدد کرنے کی تومدد کریں مگر احسان نہ کریں اور احسان کرکے کہ کسی مجبوری
کا فائدہ نہ اٹھائیں ۔۔ حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین
لوگ ایسے ہیں،جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے،نہ ان پر
نظرکرم فرمائیں گے، اور نہ ان کو پاک کریں گے، اور ان کے لیے دردناک عذاب
ہوگا۔ ایک، احسان جتانے والا کہ جب بھی کسی کو کچھ دے، احسان جتائے۔ دوسرا،
عصر کے وقت جب بازار ختم ہو رہا ہو،جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا۔ اور
تیسرا، اپنے تہمد کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، جس سے اس کا مقصد سوائے
تکبر و نخوت کے کچھ نہ ہو۔(مسلم،کتاب الايمان)
تیسرا کبھی اپنے نفس پر عمل نہ کرے بلکہ اللہ کی رضا اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی اطاعت کریں ۔۔۔۔ کمی بیشی اللہ معاف کرے ایک غزوہ میں حضرت علی رضی
اللہ تعالی عنہ کفارکو پچھاڑ دیتے ہیں اور تلوارتان لیتے ہیں ۔۔ کفارآپ کے
منہ مبارک تھوکتا ہے مگرتھوکنے کے بعد آپ اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔۔ ۔وہ حیران
ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ انہیں غصّہ آتا اور مجھے قتل کردیتے انہوں نے
مجھے کیوں چھوڑدیا ؟؟؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے
محض رضائے حق کے لئے تلوار پکڑی ہے میں خدا کے حکم کا بندہ ہوں اپنے نفس کے
بدلہ کے لئے مامور نہیں ہوں میں خدا کا شیر ہوں اپنی خواہش کا شیر نہیں ہوں
۔ چونکہ میرے منہ پر تونے تھوکا ہے اس لئے اب اس لڑائی میں نفس کا دخل
ہوگیا اخلاص جاتا رہا،اس لئے میں نے تجھے چھوڑ دیا ہے کہ میرا کام اخلاص سے
خالی نہ ہو۔۔ تو کبھی اپنی نفس اور انا کو خود پر غالب نہ آنے دیں بہت
ترقی کریں گیں
چوتھا کبھی کسی کی برائی،غیبت،بہتان اورعیب نکالنے سے پہلے یہ سوچ لیں جو
آپ کہہ رہے ہیں بالکل وہی آپ کے لیئے کوئی دوسرا کررہا ہو تو کیسا رہے گا
۔۔ بس آپ نے ضمیر سے خود کلامی کریئے آپ کو جواب مل جائے گا ۔۔۔ مثال ہم
کہتے ہیں فلاں بندہ ہے اسکو میں نے ایک کام کہا اس نے کہا وہ کل کردے گا۔۔
پھر کل وہ شام میں اپنے گھرآیا مگر آپ کے پاس نہیں آیا ۔۔ اس نے کہا
یارمجھے گھر والوں کے ساتھ جانا ہے ۔۔ تو آپ کیا سوچیں گے ؟؟؟ کہ مجھے
زبان دی اور کہہ رہا ہے گھر والوں کے ساتھ جارہا ہے اگر پہلے میرا کام
کردیتا اور چلے جاتا گھر والوں کے ساتھ کیا ہوتا ؟؟؟؟ اب یہ ساری سیچویشن
خود پر رکھ کر سوچیں ایسا آپ کے ساتھ ہوتا توکیا آپ پہلے کسی کا کام کرتے
یا گھر والوں کے ساتھ جاتے ؟؟؟؟ بس جو جواب ضمیر سے آئے وہ مان لیں ۔۔ تو
ساری پریشانی اور مسائل ختم ہوجائے گی
پانچواں سب سے اہم نقطہ ہمیشہ عاجزرہیں،تندرستی ہزار نعمت ہے یہ ایک جملہ
نہیں زندگی کا خلاصہ ہے،اگر آپ کے پاس کچھ نہیں اور بہت غربت ہے مگر صحت
ہے تو اس سے بڑی دولت کوئی دنیا میں ہے ہی نہیں ۔۔ اگر آپ کے پاس دولت بے
تحاشا ہے مگر ہر حال میں شکر ادا کریں ۔۔ دنیاوی زندگی میں ہمیشہ خود سے
نیچے والوں کو دیکھیں اور دینی لحاظ سے خود سے اوپر والوں کو دیکھیں ۔۔۔۔
آپ جو کھانا کھارہے ہیں، جو کپڑا پہن رہے ہیں ،جو پانی پی رہے ہیں وہ بہت
سے لوگوں کو نصیب ہی نہیں ہوتا ۔۔۔ شکوے،شکایات گزار کر صبر،شگرگزاراور
قناعت والی زندگی بسر کریں ۔۔۔ لوگوں کے عیب اور ٹوہ میں نہ لگیں ۔۔۔ جو
وقت ملے ۔۔ دورود شریف،استٖغفراللہ،سبحان اللہ
|