عدلیہ کی خودمختاری پرخطرے کے منڈلاتے بادل

عدالت عظمیٰ کے ایک بہت بڑے وکیل اور بار ایسو سی ایشن کےسابق صدر نشین دشینت دوے نے انڈین ایکسپریس کے ادارتی صفحہ پر عدلیہ کو آخری محا فظ قرار دے کر لکھا کہ قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی خودمختاری باہم منسلک ہیں اور انتظامیہ کو اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ مضمون مقننہ اور عدلیہ کے درمیان جاری سرد جنگ کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ مرکزی سرکار چاہتی ہے کہ ای ڈی، سی بی آئی اور الیکشن کمیشن کی مانند عدلیہ کی خودمختاری پر بھی شب خون مار کر اسے اپنا غلام بنالے۔ وزیر قانون کرن رجیجو کے ذریعہ آئے دن عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لینا اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان چپقلش کا تازہ ثبوت چند دن قبل وزیر قانون کرن رجیجو کا سپریم کورٹ کو دیا جانے والا ایک نہایت نامعقول مشورہ ہے۔ کرن رجیجو کویہ حق ہی نہیں کہ وہ عدالتِ عظمیٰ سے یہ کہیں کہ ضمانت کی اور مفادِ عامہ کی درخواستوں کی سماعت نہ کی جائے۔ وزیر موصوف نے اس کی وجہ یہ بتائی چونکہ زیرالتوا مقدمات بہت زیادہ ہیں اس لیے سپریم کورٹ کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کتنے مقدمات زیر سماعت ہیں اور کیوں ؟اس کے بارے عدالت سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ کل کو اگر عدلیہ نے مقننہ کو مشورہ دیا ہوتا کہ ایوان کا سیشن وقت سے پہلے ختم کرنے کے بجائے اس میں توانگ پر بحث کی جائے تو سرکار تلملا کر کہتی وہ اپنا کام کرے اور ان کے کام میں دخل نہ دے۔ یہی بات عدلیہ کو کہنا چاہیے۔

عدالت کے اندر جو بے شمار مقدمات لٹکے ہوئے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس سنگین صورتحال کے لیےحکومت کے ذریعہ دائر کردہ مقدمات ذمہ دار ہیں جنھیں سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر چلایا جاتا ہے اور سرکار ان کو ٹال مٹول کرکے بے انتہا طوالت دیتی ہے۔ اس کی دوسری وجہ ججوں کے تقررات میں سرکار کی آنا کانی ہے۔ عدالت عظمیٰ سے لے کر نچلی عدالتوں تک کئی اسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن حکومت ان کو پُر نہیں کرتی ۔ اس لیے سرکار نے اول تو اپنی نااہلی اور خرمستی کے سبب حالات بگاڑ کررکھ دیئے اوپر سے عدالت کو پروچن دے رہی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں؟ وزیر قانون کے مشورے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے کہا کہ شخصی آزادی ”قیمتی اور اٹوٹ حق“ ہے۔سی جے آئی کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم اپنے ضمیر کی آواز سننے کے لئے یہاں نہیں ہیں تو پھر کس لئے ہیں؟

وزیر قانون کرن رجیجو کی زبان درازی اپنے حدود سے تجاوز کررہی ہے ۔انہوں نے پچھلے دنوں ایوان ِ بالا میں عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد پرتشویش کااظہار کرتے ہوئےسارا الزام عدلیہ پر ڈال دیا ۔وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ججوں کی تقرری کے لیے کالجیم نظام کی جگہ نیا نظام نافذکرنے پر زور دیتے ہیں ۔ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق ملک کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب ہے۔رجیجو کے خیال میں اس کا سب سے بڑاسبب ججوں کی تقرری کے لیے رائج کالجیم کا نظام ہے۔حکومت وقت کو ججوں کی تقرری کےسرکار ی دائرہ اختیار سے باہر ہونے کا قلق ہے ۔ اس مسئلہ کو قابو میں کرنے کے لیے رجیجوایوان پارلیمان کے دونوں ایوانوںمیں منظور شدہ نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کی تشکیل کا بل کا ذکرکرتے ہیں جسے سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مسترد کر دیا تھا۔ عدلیہ کی آزادی کو پامال کرنے کی غیر آئینی کو شش کو اگر عدالت عظمیٰ نے مستر دکیا تو کیا غلط کیا؟ یہ اس کا حق ہے لیکن رجیجو نے وقتاً فوقتاً ملک کی مختلف شخصیات کے ذریعہ اس قدم کو غلط قرار دینے کی سفارش کرواتے ہیں اور ایسا ماحول بنا رہے ہیں کہ گویا کالیجیم کا نظام ملک اورایوان کی سوچ کے مطابق نہیں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ نیشنل جوڈیشیل اپائنمنٹ کمیشن ہندوستان کی تاریخ میں ایوان کےذریعہ عدلیہ کی خود مختاری پر سب سے بڑا حملہ تھا اس لیے سپریم کورٹ کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔

کالیجیم سسٹم پروزیر قانون کرن رجیجو کی تنقید پر سپریم کورٹ نے سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے اس بات پر ناراضی ظاہر کی کہ کالیجیم کی سفارش کے باوجود حکومت اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں تساہلی اور ٹال مٹول کررہی ہے۔ حکومت کا معاملہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا ہے۔ جسٹس سنجے کشن کول کی قیادت میں 2؍رکنی بنچ نے رجیجو کے جواب میں کہا کہ کالیجیم کے ذریعہ نام بھیجے جانے کے باوجود حکومت ججوں کی تقرری نہیں کررہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ’نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن ‘ کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے ناراضگی کے طورپر ایسا کیا جارہا ہے؟ انہوں نے نے نفس مسئلہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ناموں کو منظوری نہیں دی جارہی ہے۔ سسٹم کام کیسے کرے گا؟ کچھ نام تو ڈیڑھ ڈیڑھ سال سے زیر التواء ہیں۔ اس پر عدلیہ اپنی ناراضی کااظہار بھی کرچکی ہے۔جستس کول کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ حکومت نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن کےنافذ نہیں ہونے کی وجہ سے ناراض ہےاس لیےکالیجیم کے سفارش کردہ ) ناموں کو منظور نہیں کیا جاتا۔

بنچ جس میں جسٹس اے ایس اوکا بھی شامل تھے،2021ء میں بنگلور ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن کے ذریعہ حکومت کے خلاف داخل کردہ توہین عدالت کی پٹیشن پر سماعت کررہی تھی ۔ ایسوسی ایشن نے کالیجیم کی سفارش کے باوجود11؍ ججوں کے ناموں کو منظوری نہ دینے پر حکومت کے خلاف یہ پٹیشن داخل کی ہے۔ ایسوسی ایشن نے نشاندہی کی کہ حکومت کا یہ رویہ سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کی خلاف ورزی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ حکومت کے لئے لازمی ہے کہ جن ناموں کو کالیجیم دوبارہ بھیج دے انہیں 3؍ سے 4؍ ہفتوں میں منظورکرلیا جائے۔ کورٹ نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ ’’ایسا نہیں ہے کہ آپ ناموں کو روک سکتے ہیں،اس کی وجہ سے پورا نظام متاثر ہوتا ہے... اور کبھی کبھی جب آپ تقرری کرتے بھی ہیں تو بھیجے گئے کچھ ناموں کو منظور کرلیتے ہیں اور کچھ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ اس کے ذریعہ سینئرٹی کے نظام کو متاثر کررہے ہیں۔ ‘‘ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے نشاندہی کی کہ کئی نام ۴؍ مہینوں سے حکومت کے ہاں التواء کا شکار ہیں۔ حکومت کی نااہلی اور عدم اسنجیدگی کا پردہ فاش کرتے ہوئے کورٹ نے اس معاملے میں وقت کی پابندی کی ضرورت پر زور دیا اور نشاندہی کی کہ ایک وکیل جس کے نام کی سفارش جج کے طور پر کی گئی تھی اس کا انتقال ہوگیا اور دوسرے نے جج بننے کیلئے دی گئی آمادگی ہی واپس لے لی۔

ملک کی اس سے زیادہ ابتر صورتحال اور کیا ہوسکتی ہے کہ مقننہ اور عدلیہ سرِ عام ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ اس معاملے کو اندرونِ خانہ حل کرنے کے بجائے چوراہے پر لانے اور ٹائمز ناؤ پر وزیر قانون کرن رجیجو کے انٹرویو نے عدلیہ کو تشویس کا شکار کردیا اور اسے حکومت کو خبردار کرنا پڑا کہ کالیجیم سسٹم پر کسی کو تحفظات ہوسکتے ہیں مگر جب تک یہ نافذ ہے، یہی ملک کا قانون ہے۔ دراصل سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر اور سینئر ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے بنچ کی توجہ وزیر قانون کرن رجیجو کے ان تبصروں کی جانب مبذول کرائی۔ وکاس سنگھ کے مطابق رجیجو نے سپریم کورٹ پر برہمی کااظہار کرتےہوئے انٹرویو میں کہا کہ ’’یہ کبھی مت کہنا کہ حکومت فائلوں کو دبا کر بیٹھی ہے، اگر ایسا ہے تو حکومت کے پاس فائل بھیجیے ہی مت، آپ خود تقرری کرلیجئے، خود سب کچھ کیجیے۔‘‘وزیر کے اس تبصرہ پرناراضگی کااظہار کرتے ہوئے جسٹس کشن کول نے کہا کہ ’’جب کوئی اعلیٰ عہدہ پر فائز اس طرح کی بات کرتا ہے تو ....ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ا س کے ساتھ ہی جج نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اٹارنی جنرل صاحب، میں نے اب تک میڈیا کی رپورٹوں کو نظر انداز کیا، مگر یہ بہت ہی اعلیٰ عہدہ پر فائز شخص کی طرف سے آرہاہے۔ وہ بھی ایک انٹرویو میں۔(فی الحال) میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ رہا ہوں۔‘‘

جسٹس کول نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’بنچ کے جذبات‘‘ سے حکومت کو آگاہ کردیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کے قانون کی پاسداری ہو۔ قانون بنانے والوں کو قانون پامال کرنے سے روکنے تنبیہ سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ کورٹ نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے یہ دھمکی بھی دی کہ ’’آپ دونوں ہی اتنے سینئر ہیں کہ بنچ کے جذبات سے حکومت کو آگاہ کر دیں۔ مہربانی کرکے مسئلے کو حل کریں، ہمیں اس پر کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔‘‘ بنچ نے حکومت کو آگاہ کیا کہ اس سلسلے میں توہین عدالت کا نوٹس جاری نہ کرکے عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اگر حکومت کا یہ رویہ جاری رہتا ہے تو اس پر توہین عدالت کا مقدمہ چلے گا اور وزیر قانون کو کٹہرے میں کھڑا ہوکر اپنا دفاع کرنا ہوگا ۔ اس تنازع سے ظاہر ہے کہ ملک میں فی الحال نہ صرف پرسنل لا بلکہ عدلیہ کی خود مختاری پر بھی خطرے کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ مودی جی اقتدار سے دستبردار ہونے سے قبل ملک کو کہاں لے جاکر چھوڑیں گے یہ کوئی نہیں جانتا ؟ لیکن اگر دیگر اداروں کی مانند عدالت کو بھی طوطے کا پنجرہ بنادیا گیا تو یہ آزادی و حریت کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ معروف وکیل اور رکن پارلیمان کپل سبل لکھتے ہیں مقننہ کی خود مختاری محض خیال خام یا وہم ہے جبکہ قانون کی حکمرانی ایک حقیقت ہے۔



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451370 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.