پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کورونا کے مضر اثرات سے
سنبھل ہی نہ پائے تھے کہ روس یوکرین جنگ کے وبال نے سال 2022میں پوری دنیا
کو بری طرح ہلاکر رکھ دیا،اس جنگ نے سپلائی لائنز کو شدید متاثر کیا جس کی
وجہ سے چھوٹے ممالک کو سنگین مشکلات درپیش رہیں۔
پاکستان نے کورونا کی صورتحال کے دوران معمولات زندگی کو بحال رکھتے ہوئے
وباء پر قابو پانے کیلئے جو اقدامات کئے وہ لائق تحسین ہیں۔ کورونا کی پوری
صورتحال میں جانفشانی سے کام کرنے والے تمام اداروں اور افراد کا کردار
قابل تعریف رہا۔
اس وقت پاکستان مخدوش معاشی صورتحال کا شکار ہے لیکن اگر پوری قوم کورونا
کی طرح اس معاشی مشکل پر قابو پانے کیلئے ایک ہوجائے اور مربوط و مستحکم
اور مضبوط طریقہ کار وضع کرکے ہماری قوم اپنے عزم و ہمت اور جذبے کو بروئے
کار لاکر اس مشکل گھڑی سے بھی نبردآزما ہوسکتی ہے۔
ملک میں جو محرومی اور محکومی چھائی ہوئی ہے اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ سب
سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کے پاس جو پیسہ ہے وہ
صرف ایک ماہ کی ادائیگیوں کیلئے ہی کام آسکتا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت
اور ادارے اس مایوس کن صورتحال سے نکلنے کیلئے لگن اور جانفشانی سے کام
کرتے نظر نہیں آرہے۔
حکومت اور اداروں کو اس وقت دیگر امور کے ساتھ ساتھ معیشت پر زیادہ سے
زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے مالی ذخائر تیزی سے کم
ہورہے ہیں اور ہمیں ارباب اختیار کو انکی بساط کے مطابق تجاویز بھی دینی
ہیں ۔
پاکستان کو آئندہ چند ماہ میں بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں لیکن ہمارے پاس
موجود رقم اپنے اخراجات کیلئے بھی ناکامی ہے تو ایسے میں دیگر ادائیگیاں
کیسے کی جائیں گی ؟، اس کیلئے قلیل مدتی دورانیہ میں ہمارے سفراء کو بھی
ترسیلات زر بڑھانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اورسمندر پار مقیم
پاکستانیوں کو بھی اس مشکل گھڑی میں ملک و قوم کو آزمائش سے نکالنے کیلئے
آگے آنا چاہیے۔
متحدہ عرب امارات میں بطور سفیر خدمات کے دوران ترسیلات زر تقریباً 1
اعشاریہ 2 بلین ڈالر تک محدود تھیں اور جب میں نے تقریباً 3 سال بعد چارج
چھوڑا توترسیلات زر بڑھ کر تقریباً 3 اعشاریہ 2 بلین ڈالر تک بڑھ چکی تھیں
اور یہ سب عرصہ دراز سے متحدہ عرب امارات میں مقیم محب وطن پاکستانیوں کی
معاونت سے ممکن ہوا۔
ترسیلات زر میں اضافے کو صرف ان تارکین وطن کی تھوڑی سے پذیرائی اور ترغیب
کی وجہ سے ممکن بنایا گیا کیونکہ 10 ہزار ڈالر تک ترسیلات زر پاکستان
بھجوانے والے پاکستانیوں کو خصوصی طور پر سفیر کیمرے کے سامنے اسناد سے
نوازتا اور ان لوگوں کی سفارتخانے میں آنے پر خصوصی عزت افزائی کی جاتی
تھی۔
اس وقت ہمیں اپنے انداز و اطوار اور تیور بدلنے کی ضرورت ہے ، اگر ہم قوائد
و ضوابط کو چیلنجز سے ہم آہنگی کے ساتھ بنانا شروع کرتے ہیں تو کوئی وجہ
نہیں کہ ہم اپنے ذخائر کوچند ہفتوں یا مہینوں میں بہتر نہ بناسکیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آپ قرضوں اور دوست ممالک پر ہمیشہ انحصار نہیں کرسکتے،
دوسروں پر انحصار ایک نہ ایک دن ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوتا ہے اور
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دوسروں پر انحصار ہی کی وجہ سے آج پاکستان کی
معاشی صورتحال تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
ابھی ہمیں بین الاقوامی سیاسی و جغرافیائی حالات کو مد نظر رکھ کر درست سمت
میں اپنے سفارتی تعلقات کو استعمال کرنا ہوگا اور اگر ہم وقت اور حالات کو
مد نظر رکھ کر بہتر انداز میں درست سفارتکاری کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو
ہی ہم اس مشکل صورتحال سے نکل سکتے ہیں۔
اس وقت ہمیں مختلف حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا ہوگا اورای سی او،ایس سی او،
بی آر آئی اور چین کا جو منصوبہ ہے اس کے ثمرات ہم اسی صورت حاصل کرسکتے
ہیں جب ہم ان تمام چیزوں پر غور و خوض اور حساسیت کوبدلتے بین الاقوامی
منظر نامے کو مد نظر رکھ کر فیصلے کریں۔
آج وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام اداروں کو چوبیس گھنٹے کام کرنا ہوگا، اخراجات
کم کرنا ہونگے، بین الاقوامی سیاسی وجغرافیائی صورتحال کو سامنے رکھ کر
سفارتی پالیسیوں کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا ۔ اس ضمن میں وزیرخارجہ بلاول
بھٹو زرداری کی جانب سے مختلف ممالک کے ساتھ روابط بحال کرنے کی سعی ایک
مثبت کوشش ہے لیکن ان تعلقات کو عملی طور پر بھی استعمال کرنا چاہیے تاکہ
ان کے ثمرات بھی حاصل ہوسکیں۔
افغانستان میں ڈالر اسمگل ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر دباؤ مزید
بڑھتا جارہا ہے کیونکہ پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے اور ایسے میں اگر
ہر ماہ لاکھوں ڈالر اسمگل ہوکر افغانستان چلے جائیں تو ہمارے حالات مزید
خراب ہوتے جائینگے۔
ہمیں افغان طالبان کو یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہیے کہ شائد ہم امریکا کی
طرف لچک کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کا اشارہ ہمارے وزیردفاع خواجہ آصف نے
نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد دیا ہے کیونکہ اگر پاکستان دوبارہ جنگ
و جدل کی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو اس بار نکلنا زیادہ مشکل ہوگا۔
اس وقت ہمیں مختلف سمتوں میں مختلف حکمت عملی کے ساتھ فوری اقدامات اٹھانے
کی ضرورت ہے، اگر ہم نے درست سمت کا تعین نہ کیا تو ہمارا توازن بگڑ جائیگا
جس سے مختلف ممالک کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں پر بھی اثر پڑے گا اور ہم
ان معاہدوں کے ثمرات سے محروم ہوسکتے ہیں لیکن اگر ہماری سمت اور رفتار
بہتر ہوتی ہے تو ہم آئندہ کچھ ماہ میں مشکل حالات سے نکل سکتے ہیں ۔
معاشی چیلنجز کو اگر دنیا کی بڑھتی آبادی کے ساتھ جوڑا جائے تو یہ حقیقت
ہے کہ اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک آبادی میں اضافے کا بوجھ اٹھانے کا
متحمل نہیں۔ بنگلہ دیش نے ہم سے الگ ہوکر اپنی آبادی کی شرح کو کنٹرول
کرکے ہی ترقی کی طرف قدم بڑھایا ۔
ہم اپنی معاشی ترقی اور شرح نمو کواگر 9 فیصد تک بھی لے جائیں تب بھی اس
بڑھتی آبادی کا بمشکل خیال رکھنا ممکن ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ آبادی
پر کنٹرول کیلئے عملی اقدامات ناپید ہیں اور اگر ایسی ہی صورتحال برقرار
رہتی ہے تو ہمارے لئے ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔
|