سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے ایموجی کا استعمال کیسا ہے ؟

ایموجی (Emoji) ایسی تصویر یا شبیہ کو کہتے ہیں جو مختلف قسم کے خیالات اور احساسات و جذبات کی ترجماتی کرتی ہے، ایموجی کا استعمال سوشل میڈیا پر کیا جاتا ہے جیسے فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ ۔ایموجی میں جاندار و غیرجاندار دونوں قسم کی تصویر آتی ہیں ۔ یہاں ہمیں یہ جاننا ہے کہ جاندار پر مشتمل ایموجی استعمال کرنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟

ایموجی میں عموما جاندار کی ادھوری تصویر ہوتی ہے جیسے چہرہ ،ہاتھ، پیر،ہونٹ، کان ، دل وغیرہ تاہم مکمل تصویربھی ہوتی ہے اور غیرجانداربھی ہوتی ہے۔ان مختلف قسم کے ایموجی کے ذریعہ انسان مختلف قسم کے دلی خیالات اور قلبی احساسات کا اظہار کرتا ہے جیسے پسندکرنا، ناپسندکرنا، غصے کا اظہار کرنا، خوشی کا اظہارکرنا، غم کا اظہارکرنااورمحبت کا اظہار کرنا وغیرہ ۔ خیالات وجذبات کے اظہار کے لئے ان ایموجی کے استعمال کا حکم جاننے اور سمجھنے کے لئے پہلے یہ جان لیں کہ اسلام میں ہرقسم کے جاندار کی تصویر حرام ہے خواہ وہ ڈیجیٹل تصویر ہو یا ہاتھ سے بنائی گئی تصویر ہو۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل دو احادیث پر غور فرمائیں ۔
پہلی حدیث:سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصُّورَةُ الرَّأْسُ ، فإذا قُطِعَ الرَّأْسُ ، فلا صُورَةَ(السلسلة الصحيحة:1921)
ترجمہ:تصویر (‏‏‏‏کا تعلق) سر سے ہے، اگر سر کاٹ دیا جائے تو تصویر (‏‏‏‏کا حکم) نہیں رہتا۔
دوسری حدیث:ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أتاني جبريلُ فقالَ : إنِّي كنتُ أتيتُكَ البارحةَ فلَم يمنعني أن أَكونَ دخلتُ عليكَ البيتَ الَّذي كنتَ فيهِ إلَّا أنَّهُ كانَ في بابِ البيتِ تمثالُ الرِّجالِ ، وَكانَ في البيتِ قِرامُ سترٍ فيهِ تماثيلُ ، وَكانَ في البيتِ كَلبٌ، فمر برأسِ التِّمثالِ الَّذي بالبابِ فليُقطعْ فيصيَّر كَهَيئةِ الشَّجرَةِ، ومُر بالسِّترِ فليُقطَعْ ويجعلُ منهُ وسادتينِ منتبذَتينِ تُوطآنِ ، ومُر بالكلبِ فيُخرَجُ( صحيح الترمذي:2806)
ترجمہ:میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: کل رات میں آپ کے پاس آیا تھا لیکن مجھے آپ کے پاس گھر میں آنے سے اس بات نے روکا کہ آپ جس گھر میں تھے اس کے دروازے پر مردوں کی تصویریں تھیں اور گھر کے پردے پر بھی تصویریں تھیں۔ اور گھر میں کتا بھی تھا، تو آپ ایسا کریں کہ دروازے کی «تماثیل» (مجسموں) کے سر کو اڑوا دیجئیے کہ وہ مجسمے پیڑ جیسے ہو جائیں، اور پردے پھڑوا کر ان کے دو تکیے بنوا دیجئےجو پڑے رہیں اور روندے اور استعمال کیے جائیں۔ اور کتے کو نکال بھگائیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ اور وہ کتا ایک پلا تھا حسن یا حسین کا ان کی چارپائی کے نیچے رہتا تھا، چنانچہ آپ نے اسے بھگا دینے کا حکم دیا اور اسے بھگا دیا گیا۔

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر میں سب سے اصل و اہم "سر "ہوتا ہے۔ اگر تصویر سے "سر "کاٹ دیا جائے تو پھر وہ تصویرکے حکم میں نہیں ہے یا اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ تصویر سے ایسا حصہ نکال دیا جائے جس سے روح ختم ہوجائے تو پھر وہ تصویر کے حکم میں نہیں ہے کیونکہ اب اس تصویر میں جان نہیں بچی ، بے جان چیز ہوگئی اور بے جان چیز جیسے درخت، پہاڑ ، سمندر کی تصویر ہے اسی کے مانند ہوگئی۔لہذا اس قسم کی تصویر جس میں جان نہ ہو یا جس تصویر سے سرکاٹ کر ہٹادیا جائے تو اس کے استعمال میں حرج نہیں ہے ۔

چونکہ ایموجی میں مکمل تصویر نہیں ہوتی بلکہ تصویر کا بعض جزء یاحصہ ہوتا ہے اس وجہ سے بعض علماء ایموجی کے استعمال کو جائز کہتے ہیں مگر میں ایموجی کی فہرست میں شامل تمام قسم کےایموجی پر غور کرتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ایموجی کو علی الاطلاق جائز نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں ایسی بھی ایموجی موجود ہیں جن میں قباحت معلوم ہوتی ہے ۔قباحت والے چندقسم کے ایموجی کو آپ کے سامنے بیان کرتاہوں ،اس سے پہلے نبی ﷺکا یہ فرمان جان لیں ۔ ارشاد نبوی ہے :
دع ما يَريبكَ إلى ما لا يَريبُكَ ، فإنَّ الصِّدقَ طُمأنينةٌ وإنَّ الكذبَ رِيبةٌ(صحيح الترمذي:2518)
ترجمہ:اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے، سچائی دل کو مطمئن کرتی ہے اور جھوٹ دل کو بے قرار کرتا اور شک میں مبتلا کرتا ہے۔

اس حدیث کی روشنی میں ایسی کوئی چیز جس کے استعمال میں شک پیداہوجائے یاترددمعلوم ہو اس کا نہ استعمال کرنا ہی بہتر ہے ۔ اب ذرا ایموجی کی فہرست میں شامل ان ایموجی پرغورکریں جن کے بارے میں دل کھٹکتاہے اور استعمال میں حرج معلوم ہوتا ہے۔
(1)ایموجی میں مختلف قسم کے چہرے ہیں جن میں باقاعدہ سر، آنکھ، ناک اور کان وغیرہ بھی ہوتے ہیں ۔ ایسے میں یہ مکمل تصویر تو نہیں مگر تصویر کا اہم حصہ تو ضرور ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ تصویر سر کا نام ہے ۔
(2)چہرہ اور ہاتھ کی مختلف تصاویر میں بعض تصاویر قابل اعتراض ہیں جیسے غصہ کا اظہارکرنا، رونا، مکا مارنا، عشق ومحبت کااظہارکرنا، ڈرانا، تالی بجانا حتی کہ ہاتھ جوڑنے(نمستے) کی بھی تصویر ہے جو ہندؤں کے یہاں عبادت کی علامت ہے ، ایک مسلمان کے لئے اس کا استعمال کرناجائز نہیں ہے۔
(3)انسانی جذبات کی ترجمانی بلی اور بندر کی شکل میں بھی کی گئی ہے حتی شیطانی اور ڈرانی اشکال بھی پائی جاتی ہیں۔
(4)ان ایموجی میں بعض عیب دار اور ناپسندیدہ چیزیں بھی ہیں مثلا قے کرنا، ناک سے دھواں نکالنا، مذاق اڑانا،نجاست اور جھینک کی علامت وغیرہ
(5)ایموجی والے چہروں میں عورتوں کے بھی مختلف قسم کے چہرے شامل ہیں بلکہ چہروں کے علاوہ ان کے ہونٹ ، ہونٹوں کی مختلف کیفیات ،عورت کی مکمل تصویر ، نیم عریاں تصویر اورعورت ومرد کی اکٹھی تصویریں بھی ہیں۔
(6)ایموجی میں فحش علامات بھی بہت ہیں جیسے عشق ومحبت کے اظہار کے لئے مختلف قسم کے دل ، مختلف قسم کے ہونٹ ، بوسہ لینااور آنکھ مارنا وغیرہ

مذکورہ بالا امور کے علاوہ اور بھی قابل اعتراض امور ہیں جن سب کا ذکر یہاں نہیں کیاگیا ہےتاہم سمجھنے کے لئے یہی کافی ہیں۔

ان سارے امور پر غورکرکے دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا ایموجی کوعلی الاطلاق جائز کہہ سکتے ہیں ؟ بالکل نہیں ۔ ان میں بہت ساری چیزیں حیاکے خلاف ہیں، بہت ساری چیزیں فحش ہیں اور بہت ساری چیزیں بری صفات میں داخل ہیں اوربہت سارے احساسات اس قبیل سے ہیں جن کا اظہار ہمیں دوسروں کے سامنے نہیں کرنا چاہئے بلکہ چھپانا چاہئے ۔سمجھنے کے لئے ایک بات ہی کافی ہے کہ ایک مسلمان اپنے جذبات واحساسات کے اظہار میں پوری طرحآزاد نہیں ہے ۔بہت ساری چیزیں اظہار کے قابل ہوتی ہیں اور بہت ساری چیزیں اظہار کے قابل نہیں ہوتی ہیں یا چھپانے کے قابل ہوتی ہیں اور بہت ساری چیزیں صرف عورتوں کے درمیان یا صرف مردوں کے درمیان ہوتی ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن ایموجی میں قباحت نہیں ہے ان کے استعمال میں حرج نہیں ہے جیسے پسند و ناپسندکرناتاہم علی الاطلاق ایموجی کا استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس طرح ایموجی کا استعمال کرنے سے ، ان ایموجی میں جو قبیح قسم کے ایموجی ہیں ان کی قباحت بھی ذہن سے نکل جائے گی پھرشعوری یالاشعوری طورپر کسی وقت کچھ بھی علامت استعمال کرسکتے ہیں اور کسی کے لئےبھی استعمال کرسکتے ہیں ۔

اپنی بات کہنے اور جذبات کا اظہارکرنے کے لئے کلام کا سہارا لیں اور اس وقت ہرقسم کے تحریری اسٹیکر زبھی دستیاب ہیں، چاہیں تو ان کا استعمال کریں بلکہ ان اسٹیکرز میں اچھے اچھے دعائیہ کلام بھی ہوتے ہیں ان کا استعمال کرنا اور بھی اچھا ہے ، کسی کو دعا بھی دے سکتے ہیں اور بدلہ میں آپ کو بھی دعاملے گی ۔
 
Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.