ٹیکسوں کی ماری قوم اور لٹیرے حکمران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سوال اور جواب بار بار دیا جاتا ہے کہ ہم امریکہ کا دیا ہوا کھاتے ہیں تو اسکی مرضی ہے وہ ہم سے جو مرضی سلوک کرے ، اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ ہم امریکہ کا نہیں کھاتے ، یاد رہے یہاں ہم سے مراد عوام ہے ، امریکہ اگر کچھ دیتا ہے اور لیتا ہے وہ صرف حکمرانوں سے اسکی ڈیل ہے ، عوام کو امریکہ سے ایک پیسہ نہیں ملتا ، امریکہ سے جو بھی پیسہ آتا ہے وہ صرف دو فیصد کے پاس جاتا ہے اور نہ صرف وہ پیسہ جو باہر سے آتا وہ ہمارے حکمران اور دو فیصد طبقہ کھاتا ہے بلکہ جو پیسہ ہم ٹیکس کی شکل میں دیتے ہیں وہ بھی حکمرانوں کی جیبوں میں ہی جاتا ہے اور اسکا ایک فیصد بھی عوام کو نہیں ملتا اور نہ ہی لگتاہے۔۔۔اس ملک کے حکمرانوں کو جو امریکہ دیتا ہے میں اسکی بات نہیں کرتا کیونکہ وہ تو سب کو پتہ ہے ، مگر میرا تجزیہ تو دیکھیں کہ کتنا پیسہ آتا ہے اور یہ جاتا کہاں ہے ، میرے محلے میں ایک دکان ہے ، کریانے کی ، بزبان فرنگی جسے گروسری کہہ لیں ، وہاں پر موبائل کے کارڈ بھی ملتے ہیں ، ایک دن دوکاندار سے پوچھا کہ کتنے کارڈ نکل جاتے ہیں دن میں ، کہنے لگا تین سے پانچ ہزار کے ، اور اوسط کہیں تو تین ہزار کے لازمی بکتے ہیں ، اور پھر میں نے حساب لگانا شروع کیا۔۔۔اگر آپ سو روپے کا لوڈ کرتے ہیں تو آپ کے اوسط 15 روپے کٹتے ہیں ، یاد رہے یہ اس کے علاوہ ہیں جو ہم فی کال پر ٹیکس دیتے ہیں۔ میں گلبرگ میں رہتا ہوں ، جی وہی گلبرگ جو لاہور کا دل کہلاتا ہے، اس میں ایسی کوئی پچاس ہزار دوکانیں ہونگیں جہاں سے موبائل کارڈ ملتا ہے اور اگر میں کہوں کہ ہر دوکان پر تین ہزار کے کارڈ روز بکتے ہیں تو غلط نہیں ہو گا ، اب آئیں ذرا حساب کرتے ہیں
ایک دوکان کی روزانہ سیل: 3,000
صرف گلبرگ میں روز کی سیل : 3000 50000x تو حاصل ہوئے 15,000,0000 یعنی پندرہ کروڑ
گلبرگ سے حاصل شدہ ٹیکس ؛ 15 فیصد کے لحاظ سے دو کروڑ پچیس لاکھ 2,2500,000

اب آتے ہیں کہ ایسی دوکانیں پورے لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں کتنی ہوں گیں اور پورے پاکستان میں کتنی ہونگی ؟ پریشان نہ ہوں ہم ایک رف سا اندازہ لگاتے ہیں پورے پاکستان میں سیل اگر ایک کھرب کی ہو تو (جو بہت ہی کم ہے اصل سے ) تو پندرہ ارب روز کا ٹیکس یعنی ایک مہینے میں چار سو پچاس ارب کی آمدن اور سال کی پانچ ہزار چار سو ارب کا موبائل ٹیکس۔۔۔۔ارے ارے آپ اچھلیں نہیں ابھی یہ صرف موبائیل کارڈ کی بات ہوئی ہے آتے ایک اور چھوٹے سے ٹیکس کی طرف جسے ٹول ٹیکس کہا جاتا ہے۔ ٹول ٹیکس چونگی پر ایک گاڑی گزرنے کا اوسطَ بیس روپے لیا جاتا ہے اور ٹرک بس کا سو روپے سے لیکر پانچ سو تک بھی ہے ، چلیں ایک چونگی پر چلتے ہیں ، جو کہ کم مصروف چنگیوں میں شمار ہوتی ہے ، سہالہ اور کشمیر کی طرف جانے والی ٹریفک چونگی یہاں روز تقریبا دس ہزار گاڑیاں گزرتیں ہیں اور اوسط تیس روپے دیتیں ہیں ، جس میں ہم فرض کرتے ہیں کہ حکومت کو ملتے ہیں صرف پانچ روپے ، یعنی صرف پچاس ہزار ، ایسی چنگیاں جو ہائی وے یا مصروف شاہراﺅں پر ہیں ان پر اوسطا ایک لاکھ گاڑیاں گزرتیں ہیں (آنے والی اور جانے والی) تو حکومت صرف پانچ روپے ہی لے تو پچاس لاکھ ، اگر سارے پاکستان میں ایسی صرف دس ہزار چنگیاں ہوں تو ایک دن کی آمدن ہوگی پانچ کھرب ، تو مہینے کی ہوئی ایک سو پچاس کھرب اور سال کی یعنی دو ہزار کھرب۔۔۔۔۔اب ان دونوں آمدن کو اکھٹا ملائیں یعنی بس دو ہزار کھرب حاصل ہوئے کہاں سے ؟ صرف دو جگہ سے اور اب اگر آپ سب کو اکھٹا کریں جو ٹیکس ہم دیتے ہیں ، تنخواہوں پر ، پانی پر بجلی پر گیس پر تو کم سے کم بھی روز کی آمدن ہزار کھرب سے کم نہیںکیا ہم امیر قوم نہیں ؟ جو اتنا ٹیکس دیتے ہیں مگر صرف حکمرانوں کی جیبوں پر اور امریکہ جیسے حرام خور کو آئی ایم ایف کی شکل میں سود در سود دے رہے ہیں ، لعنت ہے اس پر جو یہ ٹیکس لیتاہے اور پھر بھی کہتا ہے کہ پاکستان کو ابھی اور قرضوں کی ضرورت ہے اور ہمارا گزارا نہیں ہوتا۔۔۔میں مزید تجزیہ بھی دے سکتا ہوں مگر کیا آپ خود نہیں سوچتے ؟؟؟مہربانی کر کہ سوچئے گا کہ آپ کی محنت کون کھا رہا ہے ؟؟؟؟؟؟ یہ سب زرداری ،گیلانی ،شریف اور امریکہ کے غلام اور تلوے چاٹنے والے لُٹیرے حکمران۔۔۔
khalid shahzad farooqi
About the Author: khalid shahzad farooqi Read More Articles by khalid shahzad farooqi: 44 Articles with 49116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.