لیبیا عراق اور کابل کی راہ پر

لیبیا کے سابق مرد اہن کرنل قذافی منظر عام سے غائب ہوچکے ہیں جبکہ باغیوں نے طرابلس پر اپنی پرو امریکن سکھا شاہی نافذ کردی۔قذافی کے جانثاروں اور وائٹ ہاوس کی کٹھ پتلیاں(باغیوں) کے مابین مختلف مقامات پر کشت و قتال کی خبریں سننے کو ملتی ہیں مگر اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ قذافی کی طویل شہنشاہت کا لاشہ ہمیشہ کے لئے تازیانہ عبرت بنکر قبرستان میں درگور ہوچکا۔طرابلس میں باغیوں کی کامیابی پیشین گوئی اور توقع سے قبل از وقت منصفہ شہود پر ائی۔ماہرین کا تجزیہ تھا کہ قذافی 2001 اور2003 میں بالترتیب کابل اور بغداد میں حملہ اوروں یعنی ناٹو کے خلاف طالبان اور صدام نے جتناعرصہ resistance کی قذافی بھی اتنے عرصے تک مزاحمت کریں گے مگر ایسے قیافے اور تبصرے خذاں رسیدہ پتوں کی طرح جلد گل سڑ گئے۔قذافی کے دھڑن تختے کے بعد یہ امر یقینی نظر نہیں آتا کہ مرد میدان کون رہا؟ ہار جیت کس کی ہوئی؟ مغرب کے معروف تجزیہ نگارpetric kook اپنے مکالمے( قذافی کی شکست مگر جیت کس کی) میں لکھتے ہیں کہ قذافی مخالفین جو مختلف الخیال تنظیموں کے رکن و رکین ہیں وہ قذافی کی مخاصمت اور سرکاری افواج کے خلاف جنگ کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہیں اسکے علاوہ اور کچھ نہیں۔بن غازی میں امریکہ سمیت مغرب اور یو این او نے عبوری کونسل کو بطور حکمران تسلیم کرلیا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ عبوری کونسل اختیارات سے محروم ہے۔لیبیا میں خانہ جنگی اور جنگ کے خاتمے میں ایک مشکل ہے۔قذافی کی افواج اور باغی عناصر کو ایک دوسرے کا دم خم دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ناٹو کے ترجمان اور باغیوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر ناٹو7 ہزار459 فضائی حملوں میں قذافی کے فوجی ٹھکانوں کو ٹھکانے نہ لگاتی تو باغی مارے جاتے۔ اب چند سوالات تو دماغ پر کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں کہ باغی عناصر غیر ملکی امداد کے بل بوتے پر جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو گلستان میں بدل سکتے ہیں؟ کیا وہ طرابلس میں جاری انتشار کشاکش اور کشیدگی کو مستحکم امن میں تبدیل کرلیں گے؟ کیا لیبیائی قوم باغیوں کی امریکن نواز حکومت کو تسلیم کرلے گی؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے ہمیں عراق اور افغانستان پر ناٹو کی غیر منصفانہ جارحیت پر نظر دوڑانی ہوگی۔عراق اور کابل کی مثالیں کچھ نیک شگون اور حوصلہ افزا نہیں ہیں بلکہ ان میں سے تو انتباہ کا عنصر غالب دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان میں طالبان مخالف شمالی اتحاد نے ناٹو کی فضائی استبدادیت کے کارن طالبان کو پسپا کیا اور پھر عارضی بالادستی کو تباہ کن طریقے سے استعمال کیا۔کابل میں ایک ایسی حکومت معرض وجود میں آئی جس میں افغانستان کے حقیقی ورثا پشتون شامل نہ تھے جسکا بھیانک نتیجہ یہ نکلا کہ طرفین کے مابین خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ امریکہ کابل پر قبضے کی ایک دہائی پوری کرنے کے باوجود نہ تو افغان قوم کے دلوں میں گھر بناسکا اور نہ ہی امریکی جمہوریت کے دیو نے امن کی فاختہ کو جنم دیا۔ عراق میں صدام کو شکست دینے کے بعد امریکی کچھ زیادہ ہی پر اعتماد تھے۔عراق کے امریکی حکمرانوں نے سرکاری فوج تحلیل کردی۔ بعث پارٹی کے عہدیداروں کو سرکاری عہدوں سے ہٹادیا گیا۔ معزول عراقی فوجیوں کے لئے عالمی لینڈ اور آئل مافیا کے خلاف لڑنے کے علاوہ کوئی اپشن اور متبادل نہ تھا۔ عراقی قوم وقتی طور پر صدام کے جانے پر خوش تھی مگر صدام حسین کی جگہ لینے اور بغداد کی صدیوں قدیم مسلم تہذیب و ثقافت کو پاش پاش کرنے کی خاطر امریکہ اتحادیوں اور انکے نورالمالکیوں نے وہ قہر ڈھائے کہ بے جان عمارتوں کی روح بھی سسکنے لگی۔ جنگ جیتنے کے باوجود قبضہ گروپ کو ایسی ہولناک مزاحمت نے پھانس لیا کہ امریکی فوجیوں کے لئے عراق جہنم بن گیا۔کیا اب لیبیا کا حشر بھی عراق اور افغانستان کی طرح ہوگا؟ لیبیا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ لیبیائی قوم ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی کہ ناٹو کی ظلمت نے انکا سکون سکھ چین غارت کردیا۔اقوام متحدہ نے بار بار اپیل کی کہ باغی ایسی کاروائیوں سے گریز کریں جس میں مخالفین سے انتقام لینے کی خواہش ہو مگر جولائی میں ایک کمانڈر انچیف کو قتل کیا گیا جو انتقامی کاروائی تھی۔ عبوری کونسل نے حکومت تشکیل دینے کے لئے جن رہنما اصول و ضوابط مرتب کئے ان میں جلد سے جلد امن کے قیام کا عہد بھی شامل تھا۔غیر ملکی اشاروں پر مرتب کئے جانیوالے حکومتی قوانین عوام کی توقعات خواہشات اور جذبات کے تحفظ کی ضمانت دے سکتے ہیں اگر ایسا نہ ہوا تو لیبیائی قوم شدید مایوس ہوگی۔یہ ممکن ہے کہ تیل سے مالا مال اس ملک میں ایسی قانون سازی کی جائے گی جو امریکی مفادات کی نگرانی کرتی ہو۔قذافی حکومت کی جگہ لینا باغیوں کے لئے اسان نہیں ہے۔بھانت بھانت اور چوں چوں کے مربے پر مشتعمل باغی اتحاد کے لئے لازم ہوچکا ہے کہ وہ قذافی کے ان فوجی آفیسرز یا ساتھیوں کو اقتدار میں حصہ دار بنائیں جنہوں نے جنگ کے آغاز پر قذافی کو چھوڑ کر باغیوں کی مدد کی اگر ایسا نہ ہوا تو یہی فوجی عراق کی تحلیل کی جانیوالی فورسز کی طرح باغیوں کے خلاف بغاوت کا جھنڈا لہرا سکتے ہیں۔پیٹر کوک اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ کرنل قذافی نے اپنی سرکار کے آخری چھ مہینوں میں عوام پر کوئی ایسا ظلم روا نہیں رکھا جسطرح امریکیوں نے بغداد اور کابل میں فوجی غلبہ پانے کے بعد روا رکھے۔ناٹو نے بغداد اور کابل میں ظلم و جبریت کے ریکارڈ توڑ دئیے۔بیس لاکھ عراقیوں اور افغانیوں کو بارود کے ڈھیر میں بدلنے والے قابضین امریکہ برطانیہ اور ناٹو نے یہ سوچ لیا کہ اب انکا کوئی مخالف نہیں ہے۔وہ اپنے کرزئیوں اور نورالمالکیوں کو اکثریتی آبادی کا نمائندہ سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت چاہے انکا تعلق افریقہ سے ہو یا موصل و کربلا سے وہ افغانی ہوں یا پاکستانی وہ امریکہ کے گرین کارڈ ہولڈر ہوں یا لندن میں ملازمت کرتے ہوں نے کبھی غیر ملکی حملہ اوروں کے مسلم خطوں پر فوجی قبضے کو برداشت نہیں کیا۔عراق اور افغانستان کے جنگی حالات اور وہاں ہونے والی مزاحمت اور لیبیا میں باغی عناصر کی کاروائیوں کا عمیق نظروں سے مشاہدہ کیا جائے تو قرائن سے صاف نظر اتا ہے کہ لیبیا میں ایک دفعہ پھرعراق اور افغانستان کی تاریخ دھرائی جائے گی۔ لیبیا میں خانہ جنگی کا گرافup تو ہوگا ڈاون نہیں۔ امریکہ مزاحمت کاروں اور باغیوں کے مابین نفاق فسق و فجور کی اگ بھڑکاتا رہے گا تاکہ یہودیوں کا اسلحہ زور شور سے فروخت ہوتا رہے ۔خون بہتا رہے گا۔ میدان کارزار دہکتا رہے گا۔طرابلس میں باغیوں کا استقبال کرنے والے لیبیائی نوجوان استعماریت کے خلاف سرپر کفن باندھ کر بے خطر آتش نمرود میں اتر جائیں گے۔پیٹر کوک کا ایک جملہ امریکہ اور اسکے حواریوں کے لئے قابل دید اور قابل غور و فکر ہے۔پیٹرکوک لکھتے ہیں کہ فتح کے ماحول میں خوشیاں مناتے وقت چند عناصر ایسے بھی پیدا ہوجاتے ہیں جو مستقبل میں تباہی اور بربادی کا باعث بنتے ہیں عراق اور افغانستان میں امریکی قابضین کا جو حشر ہوا ہے وہ پیٹرکوک کے جملے کی روشنی میں صد فیصد درست نہیں؟ شہرہ آفاق کالم نویس رابرٹ فسک نے تازہ ترین کالم(تاریخ کا سبق) نے مستقبل کے لیبیا پر یوں خامہ فرسائی کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اب مغرب کو اس امکان کا خوف ہونا چاہیے جو راتوں رات بدل بھی سکتا ہے کہ گرین بک کا مصنف سیرت میں اپنا ٹھکانہ بنا چکاہے۔سیرت قذافی کا آبائی گاؤں ہے جہاں پہلی افریقن کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔فسک لکھتے ہیں قبائلی وفاداری ناٹو کی حمایت یافتہ لیبیائی فورس سے زیادہ خوفناک ہوگی۔سیرت میں باغیوں کو شکست ہوئی تھی۔بلاشبہ بہت جلد دونوں القابات تبدیل ہوجائیں گے۔ قذافی کے جانباز دہشت گرد جبکہ جمہوری کونسل کے حمایتی وفاداروں کے استعاروں میں بدل جائیں گے۔دہشت گردوں کے خلاف پرمغرب کی پروردہ لیبیائی حکومت کی خواہش پر ناٹو بمباری کرتی رہے گی۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.