دنیا کے تمام سازو سامان، زینت اور آرائش فانی ہے،
اس دنیائے فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن ضرور یہاں سے رخت سفر
باندھنا ہے ۔ یہ ناپائیدار دنیا اس قابل نہیں کہ آخرت کو بھول کر اس میں جی
لگایا جائے اور ہم اس کی محبت میں ایسے حواس باختہ ہو جائیں کہ اپنے انجام
کو بھی فراموش کردیں۔ سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان
ہے’’ اس شخص پر انتہائی تعجب ہے جو جنت پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا کے حصول
میں سرگرم رہے‘‘ ۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو
عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی
طرح ہیں۔ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کلمہ شہادت والی انگلی اور اس
کے برابر والی انگلی ملا کر فرمایا کہ میری بعثت میں اور قیامت میں اتنا
قرب اور اتصال ہے جتنا کہ ان دو انگلیوں میں ہے ۔سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ
وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کے جتنے دور یعنی زمانے مقرر
کئے تھے وہ سب ختم ہوگئے ہیں اب یہ آخری دور ہے جو میری بعثت سے شروع ہوا
ہے اور قیامت پر ختم ہوگا، میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نیا نبی نہیں آئے
گا نہ کوئی اُمت پیدا ہوگی۔ قیامت کا دن جسے روزِ آخر کہتے ہیں اس کا آنا
حق ہے اور وہ ضرور آنے والا ہے وہ دنیا کا آخری دن ہے اس دن تمام آسمان اور
ستارے پارہ پارہ ہو جائیں گے اور زمین اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ریزہ ریزہ
ہو جائیں گے ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النّبیین تک تمام
پیغمبروں نے توحید کے بعد روز آخرت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ایک دن یہ
عالم فنا ہوجائے گا اور پھر مخلوق کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا وہاں ان کے
اعمال کی جزا و سزا ملے گی۔ بلاشبہ یہ دنیا چند روزہ ہے، یہ عالم ایک دن
فنا ہونے والا ہے اور اس کے بعد ایک عالم آنے والا ہے جہاں فنایا زوال نہیں
۔ قارئین کرام ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا سے آخرت کی طرف روانہ ہونے سے
پہلے اس عالم جاودانی کا کچھ سامان کر لیں۔ اور قیام قیامت کی صورت یہ ہوگی
کہ اس روز صور پھونکا جائے گا جس سے تمام جاندار مر جائیں گے اور ہلاک ہو
جائیں گے پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے سب مردے زندہ ہو جائیں گے
اور قبروں سے اُٹھ کر میدان حشر کی طرف دوڑیں گے ۔ قرآن کریم میں ارشاد
ربانی ہے کہ جس دن صور پھونکا جائے گا۔ سو تمام آسمان و زمین والے گھبرا
جائیں گے مگر جس کو خدا چاہے ۔ ( سورۃالنمل)
اﷲ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جسم کی بوسیدہ ہڈیوں اور خاک میں ملے ہوئے
ریزوں کو ہر جگہ سے جمع کرے گا خواہ وہ آگ میں جلا ہو یا پانی میں غرق ہوا
ہو یا ہوا میں اُڑ گیا ہو یا دھوپ میں خشک ہو گیا یا گل سڑ کر خاک میں مل
گیا ہو یا شکم حیوانات میں ہضم ہوگیا ہو جسم کے تمام اجزاء کو جمع کرے گا۔
حتیٰ کہ کوئی ذرّہ اس میں سے باقی نہ رہے گا پھر اس کو اسی وضع اور ہیئت
اور اسی صورت و شکل پر جو دنیا میں اس کو حاصل تھی ترکیب و ترتیب دے کر
زندہ کر دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اگر دنیا میں اس کے جسم کا کوئی حصہ یا کوئی
عضو قطع ہوگیا ہو تو وہ بھی اس کے ہمراہ اعادہ کر دیا جائے گا۔ پہلی مرتبہ
کے صور پھونکنے میں سارا عالم مر جائے گا،اور جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا
تو سب زندہ ہو جائیں گے ۔ارواح سب کی سب صوراسرافیل میں جمع ہوں گی۔ نفخ
صور کے ساتھ ہی تمام رُوحیں نکل پڑیں گی اور اپنے اپنے قالب میں داخل ہو
جائیں گی اور بحکم خداوندی سب زندہ ہوجائیں گے ۔ اگر نظر عبرت سے دیکھا
جائے تو ہر روز اس کا نمونہ ہم لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا ہے مگر لوگ
قیامت سے غافل ہیں اور جب ان کو قیامت کی کوئی آیت یا حدیث سنائی جاتی ہے ،
تو شک اور تردّ کے کان سے اس کو سنتے ہیں،مثلاً جب شام ہوتی ہے اور اندھیرا
ہو جاتا ہے اور نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو تمام لوگ اپنے گھروں میں اور تمام
پرندے اپنے گھونسلوں میں گھس جاتے ہیں اور رات کو سو جاتے ہیں اور بے حس و
حرکت ہو جاتے ہیں گویا کہ مر گئے ۔پھر جب صبح ہوتی ہے تو دفعتہ بے اختیار
سب بیدار ہو جاتے ہیں اور ادھر ادھر منتشر ہو جاتے ہیں۔ جس طرح اب نیند سے
جاگے ہو اور بستروں سے اُٹھ کر منتشر ہو رہے ہو اسی طرح قیامت کے دن قبروں
سے اُٹھائے جائیں گے ۔باشندگان عالم اپنے کاروبار میں مشغول ہوں گے اور
روئے زمین پر کوئی اﷲ کا نام لینے والا باقی نہ رہے گا ، وہ جمعہ کا دن
ہوگا اور محرم الحرام کی دسویں تاریخ روز عاشورہ ہوگا کہ یکایک علی الصباح
لوگوں کے کانوں میں ایک باریک آواز آنا شروع ہوگی اور بڑھتی جائے گی یہاں
تک کہ تمام لوگ مرجائیں گے اور زمین و آسمان پھٹ جائیں گے ، پھر دوسری
مرتبہ صور پھونکا جائے گا جس سے تمام مردے زندہ ہو جائیں گے اور حساب کتاب
شروع ہوجائے گا۔ اور اگر کسی نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کے اجر کا حق
دار ہو گا اور اگر کسی نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ سزا کا مستحق ہو گا۔
اسلام نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ دنیا کی زندگی کے بعد انسان
کو ایک اور زندگی ملے گی جسے آخرت کی زندگی کہتے ہیں۔ اس لئے انسان کو دنیا
میں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے آخرت کی زندگی خراب ہو اور
ایسے کام قرآن حکیم میں صاف طور پر بتا دیئے گئے ہیں۔ جن کا اثر آخرت کی
زندگی پر پڑتا ہے اور وہ کام بھی اچھی طرح کھول کر سمجھا دیئے ہیں جن کے
کرنے سے آخرت کی زندگی سنورتی ہے ۔سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سب
کاموں کے کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے جو قرآن کریم کی رو سے آخرت کی
زندگی کے لئے مفید ہیں۔ |