اقوام متحدہ کی غزہ کے محاصرہ کی رپورٹ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اقوام متحدہ کی غزہ کے محاصرہ کی رپورٹ اور ترکی کی جرات مندانہ خارجہ پالیسی

گزشتہ سال 2010کے وسط میں جب انسانی حیات کے ضامن سامان سے لدی ایک بڑی کشتی جو ترکی کی عوام کی طرف سے غزہ کے محصورمسلمانوں کے لیے لے جائی جا رہی تھی تواسرائیلی بحریہ کے غنڈوں نے اس غیرفوجی اور خالص انسانی جہاز پر دھاوابول دیااورترکی کے نوباشندے قتل کر ڈالے اور باقیوں کو یرغمال بناکر گرفتار کر لیا۔اس واقعے کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔اسرائیلی بحریہ کی اس کاروائی پر قوام متحدہ نے اپنی کمیٹی بٹھائی اور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے اس کمیٹی کو اس وقوعے کی تحقیقات کا حکم دیا۔اس کمیٹی میں چار افراد کو تعینات کیا گیا،نیوزی لینڈ کے سابقہ وزیراعظم ”سر جیفرے پامر“اس کمیٹی کے سربراہ مقررہوئے،کولمبیاکے سابق صدرالوارویورائب،اور ترکی اور اسرائیل کے نمائندے جوزف شیونوفر اورسلیمان اوزدم،اس کمیٹی کے بقیہ اراکین تھے۔اس کمیٹی نے کمال جانبداری سے اسرائیل کے اس ناجائزاور سراسرزیادتی سے بھرے ہوئے ظالمانہ اقدام کی کھل کر حمایت کی اور واضع طور پر کہاکہ اسرائیل کا اقدام صحیح اور درست تھا اور اسرائیل کی ریاست اپنے اس فعل میں صریحاََ حق بجانب ہے۔جب آنکھوں کے سامنے پردے آجائیں اور دلوں پر کانوں پر مہر لگ جائے تو اسی طرح کے فیصلے رونما ہوا کرتے ہیں۔اس طرح کے فیصلوں پر زیادہ حیرانی اس لیے بھی نہیں ہو نی چاہیے کہ سیکولرازم کی کوکھ سے اس سے پہلے بھی اسی طرح کے بعیدازعقل و قیاس فیصلے آتے رہے ہیں اور خود اسرائیل کا وجود بھی اسی طرح کی ایک ناجائزقراردادکامکروہ نتیجہ تھا۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ غزہ کے مکینوں سے بچنے کے کیے اسرائیل کو بین الاقوامی سمندروں میں ناکہ بندی کا حق حاصل ہے۔جب کہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے اور آئے دن غزہ کے نہتے مکینوں پر اور شہری آبادیوں پر بلاشتعال بمباری کرتاہے اور نسلوں اورفصلوں کا بے پناہ نقصان کرتا ہے۔ایک سو پانچ صفحات پر مشتمل رپورٹ کے آخر میں ترکی کے رکن کمیٹی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔بین الاقوامی قانون کے تحت کسی ریاست کو بھی بین الاقوامی سمندروں میں محاصرے کا حق حاصل نہیں ہے اور جینوا معاہدے کے تحت جو کوئی ملک ایسا کرے تو وہ مستوجب سزا گردانا جاتا ہے ،خاص طور پر کسی شہری آبادی کے محاصرے کا تو بین الاقوامی قانون میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،تب صرف تعصب کے باعث اس رپورٹ کے مندرجات کو قبول نہیں کیاجاسکتا۔

ترکی کی قیادت کے لیے یہ رپورٹ ناقابل برداشت ثابت ہوئی۔عذرگناہ بدتر از گناہ کے مصداق بجائے اس کے کہ اسرائیل کوترکی سے معافی مانگنے پر مجبورکیاجاتااور تلافی حالات وواقعات کی کوئی صورت نکالی جاتی اس کی بجائے ترکی کے عوام کو اس بات کی سزا دینے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے ایک سیکولر مصنوعی قیادت کی بجائے دینداراور حقیقی قیادت کوکیونکرمنتخب کر لیا۔اس اقدام کا اقوام متحدہ جیسے ادارے کی طرف سے وارد ہونا مزیدتر اچھنبے کی بات ہے،کہ وہ ادارہ جسے انسانیت کا نمائندہ ادارہ سمجھاجاتاہے اور پوری دنیاکی طرف سے اس ادارے کواعتماد کا مینڈیٹ حاصل ہے ،اور جس ادارے سے عدل و انصاف کی توقع کی جاتی ہے وہی ادارہ نہ صرف یہ کہ ظلم کی حمایت کرے بلکہ ظالم کے وکیل کا کرداراداکرنے لگے چہ معنی دارد؟؟کیااقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو اس بات کااندازہ نہ تھا کہ جن افراد کو کمیٹی میں شامل کیا جارہاہے وہ جانبدار ہیںیا غیر جانبدار ہیں؟؟کیا اس طرح کی کمیٹی میں جانبدار افراد کی تقرری اپنے اتنے بڑے عالمی منصب کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟؟اور کیا یہ تعیناتیاں کسی ”اور“کی آشیرباد پر عمل میں آئیں تھیں؟؟ان سوالات نے اقوام متحدہ جیسے ادارے کو مزید مشکوک کر دیا ہے کہ ادارہ صرف مسلمانوں نے ساتھ ہی معاندانہ رویہ کیوں جاری رکھے ہو ئے ہے؟؟

ترکی کی جرات مندقیادت نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو تسلیم کر نے سے یکسر انکار کر دیا ہے،اگرترکی انکار نہ کرتا تو کشمیر کی طرح بیسیوں سال گزرنے کے باوجود بھی انصاف حاصل نہ کر پاتا۔ممکن ہے اگر ترکی میں سیکولرقیادت ہوتی تو وہ اتنا بڑا قدام نہ کر پاتی لیکن یہ صاحب ایمان قیادت ہے جس کی خارجہ پالیسی میں ایمان کی روشنی دور سے آنکھوں کو چندھیا رہی ہے۔ترکی نے رپورٹ آنے کے فوراََ بعد ہی اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کر دیا ہے کہ ایسی ریاست کے سفیر کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے،پاکستان بھی اگرٹرین میں جلائے جانے والے اپنے شہریوں کے ردعمل کے طور پر بھارت کے سفیر کے ساتھ یہی سلوک کرتاتو آج حالات کسی بہتر سمت میں جا رہے ہوتے لیکن ترکی خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی قیادت کی اولاد،جائداداور اثاثے اپنے ہی مادر وطن میں ہیں اور ترکی نے اسرائیل سے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جب تک اسرائیل مقتولین کے بارے میں معافی نہیں مانگتااور ان کے ورثاکے ساتھ تلافی مافات نہیں کرتااور غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کرتا اس وقت تک اس سے تعلقات کا کوئی امکان نہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تمام معاہدات اور خاص طور پر دفاعی تعلقات ختم کر دیے ہیں کیونکہ یہودیوں کے ساتھ دفاعی تعلقات ترکی کی سیکولرقیادت نے قائم کیے تھے جب کہ قرآن مجید نے یہودیوں کے ساتھ جہاد کا حکم دیاہے اور صریحاََ کہا ہے کہ یہودونصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔پھر ان حالات میں جب کہ ایک طرف اسرائیل نے مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کررکھاہوتودوسری طرف ایک اسلامی ریاست کاس اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی قائم داری امت مسلمہ کے ساتھ کھلی غداری ہے،اور ترکی کی موجودہ دیندار قیادت خلافت عثمانیہ کی وارث ہے جوامت سے کبھی غداری نہیں کرے گی،انشاءاﷲ تعالٰی۔ترکی کے وزیرخارجہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ انقرہ بحیرہ روم میں موجود اپنی قوت کا بھرپور دفاع کرے گا،دوسرے الفاظ میں یہ اسرائیل کے لیے دھمکی کے سوا کچھ نہیں۔

دوسری طرف اسرائیل نے اس رپورٹ کو خوش دلی سے قبول کر لیا ہے،ظاہر ہے جو رپورٹ اسرائیل کے حق میں ہواسے کیوں نہیں قبول کرے گا جبکہ اسرائیل ان نوسوکے قریب قراردادوں کو کیوں قبول نہیں کرتااوران پر عمل کیوں نہیں کرتا جو اس کے خلاف منظور کی گئی ہیں۔نیویارک ٹائمزکے مطابق رپورٹ آنے سے دو ہفتے قبل امریکی وزیرخارجہ ہنری کلنٹن نے اسرائیلی وزیراعظم سے کہاتھا کہ ترکی سے معافی مانگ لیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ایسا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ اس سے اسرائیلی شہریوں کا مورال گر جائے گا اور ریاست کی کمزوری واضع ہو جائے گی۔یہ اس لیے ہوا کہ امریکہ کو ترکی کی دیندارقیادت سے اسی جرات مندانہ اقدام کی توقع تھی اور امریکہ اسرائیل کو مزید تنہا نہیں کرنا چاہتا تھا۔اسرائیل کی تنہائی پہلے بھی امریکہ کے لیے وبال جان ہے اور آئے دن اسرائیلی قیادت کے بہیمانہ فیصلوں اورسفاکانہ کاروائیوں کی جوابدہی امریکہ کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جارہی ہے۔اسرائیل کی سفارتی تنہائی امریکہ کے معاشی زوال میں بھی ایک فیصلہ کن کردار اداکررہی ہے ،جب کبھی اسرائیل مسلمانوں پر دھاوابولتاہے ایشیاکی طرف امریکی تجارت کاگراف تیزی سے نیچے آنے لگتاہے جو آہستہ آہستہ اب امریکہ کومعاشی،سیاسی اوردفاعی زوال کی انتہا تک پہنچائے گااور امریکہ کی قیادت کو شاید اس بات کااحساس ہے یا نہیں ہے کہ اسرائیل کو بچاتے بچاتے وہ خود بھی ڈوب جانے لگا ہے اور شاید وہ قریب آیاچاہتاہے جب یورپ کی طرح امریکہ میں ہولوکاسٹ کی تاریخ دہرائی جائے گی اور امریکیوں کے گروہ کے گروہ یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر سنگسار کررہے ہوں گے جنہوں نے پوری انسانیت کو سود کے جال میں پھانس کر اس کا خون نچوڑ لیا ہے۔

اسرائیل کا فاسقانہ کردارننگ انسانیت ہے اور اقوام متحدہ کااسرائیل کی قتل وغارت گری پرتسلی و تشفی اور کمرتھپکاؤکارویہ مسلمانوں کے جلتے پرتیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔

اقوام متحدہ کادارہ اپنے ماضی کے باعث بالعموم اوراس رپورٹ کے تناظر میں بالخصوص اپنی استنادی حیثیت کھو بیٹھاہے،ترکی کاکردارکل مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے لیے شب تاریک میں قندیل رہبانی سے کم نہیں ہے،دنیابھر کے مسلمان اقوام متحدہ کے جانبدارانہ رویے کو دیکھ کر بھی اس سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیںجبکہ اب یہاں سے کسی بھلے کی کوئی توقع نہیں۔اب جب کہ امریکہ تیزی سے اپنے زوال کی قبرمیں اترتا چلا جارہا ہے مسلمانوں کے حکمرانوں کو ایک بار پھر اس جرات مند اقدام کے باعث ترکی کی امامت میں اس کے پیچھے صفیں باندھ لینی چاہییں،جو قیادت اسرائیل کو آنکھیں دکھاسکتی ہے امریکہ اور یورپ کے لگڑبگڑاس کی ایک دھاڑ سے ہی سرنگوں ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے۔خلافت عثمانیہ کی تاسیس نواسرائیل کے ناپاک وجودسے اس زمین کوپاک کرنے کامقدمہ بن سکتی ہے ۔طاغوت اس تیزی سے پگھل جائے گاکہ اس گزرتے ہوئے وقت پر آنے والی نسلیں حیران اور شسدرہوں گی اور اﷲ تعالٰی کا دین اور اس کے نبی ﷺ کی شریعت اس کرہ ارض پرحکمرانی کریں گے کہ یہ دین اسی لیے اتارا گیاہے کہ اسے دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 524247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.