قائداعظم نے جس مقصد کے لیے علیحدہ مملکت کے قیام کی
جدوجہد کی وہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم اور لیاقت علی خان کی یکہ بعد
رحلت ہونے کے بعد پاکستان کے نومولودہ سیاسی قائدین اور اُس وقت کے مذہبی
جماعتوں کے قائدین نے اپنا یہ اولین فریضہ ادا کرنے کی بالکل ذمہ داری قبول
نہ کی کہ اگر وہ پاکستانی مسلمانوں یعنی پاکستانی عوام کو اپنا فریضہ زندگی
ادا کرنے کے اصول کے قابل بناتے اور ان میں صبر و استقلال ، حقوق العباد ،
عدل و انصاف اور انسانی فلاح و بہبود ترقی کی بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر
کا جذبہ ہر پاکستانی مسلمان میں پیدا کرتے۔ مگر اس کے برعکس یہ سیاسی و
مذہبی قائدین اپنی گدیوں کو مزید مضبوط کرنے اپنی وراثیت کو سیاست و مذہبی
گدہ نشینوں کی بھاگ دوڑ میں لگ گئے اور ملک کے ذرائع پیداوار و وسائل پر
قابض ہونے کی جستجو میں خود اپنے لئے دولت کے انبار لگانے کی قطار میں لگ
گئے اور اسلام کے نام پر پاکستانی عوام کو دیئے گئے اپنے قول و فعل کی
انہوں نے اپنے عمل سے لکیر کھینچ دی، انہوں نے اور ان کے حواریوں نے ایڑی
چوٹی کا زور صرف عوام کو جہالت کی طرف دھکیلنے میں اپنا وقت صرف کردیا اور
انہیں سیاسی اختیار سے ایک طرح سے یعنی بے دخل کرنے میں مصروف عمل رہے اور
پاکستان کی اسمبلیوں کو ملک کے ایک فیصد جاگیرداروں ، وڈیروں ، سرمایہ
داروں اور ان کے حواریوں کے لئے مختض کردیا۔ ان اسمبلیوں میں پاکستان کے
محروم و محکوم طبقہ کا داخلہ ناممکن کردیا گیا اور انہیں مستقل طور پر اس
مہیب فریب میں مبتلا کردیا گیا کہ یہی جاگیردار ، وڈیرے، اور سرمایہ دار جو
بعد میں ( اشرافیہ ) کے نام سے جانے گئے پاکستانی عوام کہ ذہنوں میں ان کی
سوچ میں الغرض یہ سرائط کردیا گیا کہ یہ ہی ( اشرافیہ ) تمھارے خیر خواہ
ہیں اور یہ ہی پاکستان کی متوسط طبقہ اور لوئیر کلاس طبقہ کی نمائندگی
کرسکتے ہیں اور ان بیچاروں کو یہ باآور کرایا گیا کہ یہ ہی ( اشرافیہ
)تمھاری ترقی و خوشحالی کے لئے ہم وقت تمھارے لیے کوشاں ہوسکتے ہیں۔ اس طرح
پاکستان کی گزشتہ 75 سال سے یہ اشرافیہ پاکستان کی سیاہ و سفید کی مالک بنی
بیٹھی ہوئی ہے 75 سال سے مُلک پٹری پہ آنے کے بجائے پٹری سے اُترتا جارہا
ہے اب پاکستانی عوام کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آج پاکستانی عوام ایک ایسے
بیچ منجدھار پر پھنسی ہوئی ہے کہ وہ فیصلہ نہیں کر پارہی کہ ہمیں کن دو
واضح سمتوں میں سے کسی ایک سمت پر چلنے کا اظہار اور کوئی اصول طے کرنا ہے.
1/ ایک سمت وہ یعنی موجودہ فرسودہ گلاسڑہ سیاسی و انتخابی نظام اور روایتی
برائے نام کنٹرول جمہوریت پر پہ درپے نقصان کے باوجود بھروسہ کرنا جو مُلک
جمہوریت کے آبائی چیمپین بنے ہوئے ہیں اصولا یہ ان کے ملکوں میں بھی بری
طرح فیل ہوتا نظر آرہا ہے بس اعلان کرنا باقی ہے.
2/ دوسری سمت وہ ہے جو حقیقی سچ اور انصاف و عدل سے بھرپور جمہوریت اور
انسانی فلاحی و بہبود مملکت کے اقرار کی سمت .
ہمارے مُلک پاکستان کے فیصلے کرنے والوں اور پاکستان کی عوام کو اس موقع پر
یہ اہم فیصلہ کرنا ہونگے کہ ہمیں بین الاقوامی دنیا میں پاکستانی قوم کی
رسوائی و تزلیل اور پاکستان کے 98% فی صد عوام کی 02% فیصد جاگیرداروں اور
سرمایہ داروں کے ہاتھوں غلامی منظور ہے یا کہ پاکستانی قوم کی بھٹی سے نکلی
خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا اور اسے ایک باعزت، باوقار، ترقی یافتہ
اور خوشحال دنیا کی قوم بنانا مقصود ہے جس کا ہر انسان بجا طور پر اس بات
پر فخر کرسکے کہ وہ حقیقی جمہوری نظام کا حصہ ہے جس میں اختیارات و اقتدار
حقیقی معنوں میں عوام الناس کو حاصل ہوتا ہے جو کہ اس جمہوری نظام کا حُسن
ہے. اس حقیقی جمہوریت نظام کے عظیم مقصد کو پانے کے لئے ہمیں اپنی پرانی
گلی سڑی سیاست اور اس نظام حکومت کو یو ٹرن کے ساتھ 360 زاویہ سے بالکل
اسکو بدلنا ہوگا. پاکستان عوام کی رہنمائی کا منصب آئندہ صرف ایسے افراد کے
سپرد کرنا ہوگا جن کا تعلق لوٹ مار ، بیرون مُلک میں اثاثے اور قوم پر ظلم
وجبر کے تحت اپنی قوت و حیثیت حاصل کئے ہوئے فرد رتی برابر بھی اس میں شریک
حکومت نہ ہوں ، نہ ہی ان خاندان سے تعلق رکھتے ہوں جنہوں نے گذشتہ 75 سالوں
میں سؤائے پاکستانی عوام کی سیاسی و سماجی زندگی کو مخدوش کردیا جو اپنے
اپنے آبائی علاقوں میں بھی عوام کو عام روزمرہ زندگی میں صاف پانی ، صحت و
تعلیم ، وغیرہ کی سہولت نہ دئے سکے پھر بھی وہ ہمیشہ اس انتیظار میں بیٹھے
ہوتے ہیں کہ کسی طرح کوئی کمزوری نظر آئے اور انہیں کوئی سامنے سے نہیں
پیچھے سے کوئی اقتدار کے منصب پر بیٹھنے کا چانس مل جائے پھر عوام پر اپنے
ظلم و تشدد اور جبر و استحصال کی دھاک بیٹھا سکیں. یہ تبدیلی ہمیں اگر لانا
ہے تو ہمیں اس کے لئے سب سے پہلے ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنے
اندر چھپی ہوئی۔ بے غیرتی ، بددیانتی ، خودغرضی اور مفاد پرستی، وغیرہ کہ
چہرہ کو بے نقاب کریں اور ہر قسم کی منافقت اور زبانی جمع خرچ کو قصہ
پارینہ بنائیں اپنی ذات کو قومی مفاد عامہ اور وسیع تر انسانی فلاح و بہبود
کی خاطر بھرپور اجتماعی جدوجہد کے لئے وقف کردیں اور انسانی برادری کے ساتھ
حقیقی محبت و یگانگت کا جذبہ لے کر قدم بڑھایں ہمیں اس مقصد کا مکمل شعور
حاصل کرنا ہوگا کہ سماج کی بہبود اور ترقی ہی میں ہر انسان کی خوشحالی اور
اس کا سکون اس میں مضمر ہے۔
آجکل کا پاکستان اور اس کی عوام اب اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اسے ہلڑبازی
، بہودہ زبان اور جزباتی و اشتعال انگیز سیاست کے بھنور میں دھکیلا جائے
ہماری پاکستانی قوم علم و عمل اور شعور و آگہی کی ترسی ہوئی پیاسی ہے، وہ
سائینس و عمل اور فنی ترقی کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے بیتاب ہے، وہ اپنے
دامن سے غربت ، بھوک و افلاس اور ظلم و ناانصافی و جہالت سے نکلنے کے لیے
راہ بیچھائے کھڑئی ہے، وہ ایمان اور عمل کے تضاد کی جنگ سے راہ فرار کی
انتیظار میں امن کا جھنڈا بلند کیے ہوئے ہے . وہ ہر رہنے والے ہر فرد کی
زندگی سے (خواہ وہ کسی گروہ، لسانیت ، مذہب اور فرقہ واریت ، صوبائیت وغیرہ
سے تعلق رکھتا ہو اور کوئی سا بھی نظریہ رکھتا ہو) وہ دشمن کے بچوں کو
پڑھانے کا عظم کے دیے بھی جلائے بیٹھی ہے جہالت اور غربت کے کمبل سے جان
چھڑانا چاہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے اخلاقیات اور انسانیت کا امرت
دھارا درکار ہے جو اس کی ترقی و خوشحالی کو دوام بخش سکے گا اور اسے غلط
راہوں پر چل نکلنے سے باز رکھ سکے گا۔ پاکستان عوام میں آجکل پیدا ہونے
والی بیداری اور عوام کے زہنوں میں پہنچنے والا وہ شعور اور حالات کی بدلتی
ہوئی وہ سمت صاف بتا رہی ہے کہ پاکستان سے اب یہ فرسودہ گلاسڑہ سیاسی نظام
کو تحفظ دینے والی وہ کرپٹ اشرافیہ اور ان کے معاون قوتیں پسپا ہوں گی،
پاکستانی عوامِ گزشتہ 75 سال سے اپنی حقیقی آزادی کا وہ خواب یقینا پایہ
تکمیل ہو پائیگا اور ہمارا پاکستان اور اس کی عوام دنیا میں ترقی یافتہ
ملکوں اور ان کی عوام کی طرح ترقی کی منزلیں ہر میدان طے کریگی .. |