ہر کامیاب شخصیت یا ادارے کی کامیابی میں سب سے بڑا کردار
اُسکی خود احتسابی (self accountability) کے عمل میں پوشیدہ ہوتا ہے ذیل
میں ہم تحریک انصاف کی کراچی بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کا
تفصیلی جائزہ پیش کرینگے ۔
تحریکِ انصاف اور خاص کر عمران خان کی عوامی مقبولیت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ
پی ٹی آئی سندھ بلدیاتی انتخابات میں کم از کم کراچی کی حد تک کلین سویپ
کرے گی لیکن اب تک کی مصدقہ اطلاعات اور نتائج خاصے مایوس کن ہیں اِن مایوس
کن نتائج میں جہاں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور تمام
سیاسی جماعتوں کا اس وقت عمران خان کے خلاف ہونا شامل ہیں وہیں تحریکِ
انصاف کی جانب سے کُچھ سنگین غلطیاں ایسی ہیں جو اس مایوس کُن کارکردگی کا
سبب بنیں کیونکہ باوجود اُن فیکٹرز کے جو پی ٹی آئی کے خلاف جاتے ہیں پی ٹی
آئی نے ابھی حال ہی میں پنجاب کے ضمنی انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی
انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی ۔
تو پھر آخر کیا وجہ ہے وہ کراچی جہاں پی ٹی آئی کی مقبولیت باقی تمام
پارٹیوں سے ملا کر بھی زیادہ ہے وہاں لوگوں نے بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ
انصاف پر اُس طرح بھرپور اعتماد نہیں کیا ؟
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں کراچی کی لوکل سیاست ، وہاں کے مسائل اور ڈائنامکس
کو سمجھنا پڑے گا کراچی کی لوکل سیاست باقی مُلک کی عمومی سیاست سے مختلف
ہوتی ہے اور بقایا مُلک کی سیاست کا کراچی پر اُس طرح گہرا اثر نہیں پڑتا ۔
یہ سچ ہے کہ 9 اپریل کو عمران خان کو نکالے جانے کے بعد باقی ملک کی طرح
اُس پر کراچی میں بھی شدید غم و غصّہ پایا 10 اپریل کو میلینیم مال کے
سامنے وہ مناظر آج بھی دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جب ہزاروں کی
تعداد میں لوگوں نے یک زبان ہوکر قومی ترانہ پڑھا اور اُسکی اپنی مزاحمت کا
استعارہ بنایا اُس کے بعد کراچی میں عمران خان کا ہر جلسہ ریکارڈ توڑ رہا ۔
کراچی میں اگر لوکل پولیٹکس کی بات کی جائے تو کراچی ملک کے باقی کُچھ حصوں
کی طرح وہ بدقسمت شہر ہے جسے ہمیشہ ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ملک کیلئے
سونے کی چڑیا کی ہونے کے باجود وہاں مسائل کا انبار ہے جسے دہرانے سے آپکا
وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا یہ حقیقت ہے کہ کراچی کے لوگوں میں احساسِ محرومی
بہت گہرا ہو چکا ہے اُنکو محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کو صرف اُن کے پیسے سے
مطلب ہے اُن کے مسائل سے نہیں
انہی سب وجوہات کی وجہ سے کراچی کے لوگ ہمیشہ اُن سیاستدانوں اور پارٹیوں
کو پسند کرتے ہیں جو مُلک کی عمومی سیاست پر بات کرنے کے بجائے کراچی کے
مسائل پر بات کریں اور پھر بلدیاتی انتخابات کا تو انعقاد ہی گلے محلے کے
مسائل کو حل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے
تحریکِ انصاف سے جو بنیادی غلطی ہوئی وہ یہی تھی کہ کراچی کی لیڈرشپ کی
توجہ ایک تو ملکی سطح پر عمومی سیاست پر تھی اور دوسرا اُنہوں نے عمران خان
کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے کراچی کے گلی محلے کی سطح پر اُس طرح خاطر
خواہ کام نہیں کیا جس طرح پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی نے کیا اور دوسری
غلطی کراچی کی تقریباً تمام لیڈرشپ ڈیفنس میں رہنے والے ہیں چاہے وہ علی
زیدی ہوں فردوس شمیم نقوی ہوں خرّم شیر زمان ہوں عمران اسماعیل ہوں یا پھر
حلیم عادل شیخ ۔
دوسری طرف جماعت اسلامی نے اُس کے مقابلے میں سالوں سے حافظ نعیم کو کراچی
سے سیاست میں اتارا جو عام علاقے میں رہنے والے ، کراچی کے مسائل کو سمجھنے
والے اور صرف کراچی کے مسائل پر بولنے والے ہیں ایک طرح سے جماعت نے حافظ
نعیم کو کراچی کے لیے وقف کر دیا تھا ۔ اگر سیاسی سے وابستگی سے بالاتر
ہوکر دیکھا جائے تو حافظ نعیم نے ہر موقع پر کراچی کیلئے نا صرف آواز بلند
کی بلکہ بے پناہ محنت کی جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کی کراچی قیادت مختلف
شخصیات میں بٹی رہی ۔
میری نظر میں تحریک انصاف کراچی کے پاس ایک ایسی شخصیت ہے جسے اگر بروقت
حافظ نعیم کے مقابلے میں لانچ کیا جاتا تو آج جو نتائج آئے ہیں یقیناً اُس
سے مختلف ہوتے وہ شخصیت fix it تنظیم کے بانی اور تحریک انصاف کے کراچی سے
سابقہ رُکن قومی اسمبلی عالمگیر خان ہے ۔
عالمگیر خان کی شہرت کراچی میں بہت اچھی ہے اُسکی وجہ بھی یہی کراچی کے
لوکل مسائل کیلئے جدوجھد ہے ایم این اے بننے سے قبل عالمگیر نے نا صرف
کراچی کے مسائل پر بات کی بلکہ اُس کے حل کیلئے بغیر کسی سرکاری عہدے کے
Fix it کی بنیاد رکھ کر عملی اقدامات بھی اٹھائے جسے بڑی پذیرائی ملی اور
نوجوان اُسکی تنظیم سے جڑتے گئے ۔
تحریکِ انصاف اگر بروقت عالمگیر خان کو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کا
ٹاسک سونپ دیتی اور حافظ نعیم کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کی طرف سے میئر
کے طور پر پیش کرتی تو اس سے ایک مقابلے کی فضا پیدا ہوتی کراچی کے شہریوں
اور خاص کر تحریک انصاف سے وابستہ نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا ہوتا جو
تحریک انصاف کی پارٹی کلچر کا خاصا ہے اور یقیناً آج نتائج اس سے بہت مختلف
ہوتے ۔
لو ٹرن آؤٹ کی بہت بڑی وجہ تحریک انصاف سے وابستہ لوگوں کی بلدیاتی
انتخابات میں عدم دلچسپی تھی کیونکہ اُن کے سامنے حافظ نعیم کے مقابلے پر
صرف کنفیوژن تھی جبکہ جماعت اسلامی حافظ نعیم کی شخصیت کے بل بوتے پر اپنے
لوگوں کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں کامیاب ہوئی بلاشبہ اِس الیکشن میں
حافظ نعیم کی شخصیت بھی ایک بڑا فیکٹر تھی ۔
پیپلز پارٹی کی جیت کی سمجھ آتی ہے کہ وہاں اُن کی صوبائی حکومت کی بدولت
اُنکو پوری صوبائی مشینری کی مدد حاصل تھی اور پیپلز پارٹی نے اس الیکشن
میں بہت بڑی دھاندلی کی لیکن اگر تحریک انصاف اپنے لوگوں کو پولنگ اسٹیشنز
تک لانے میں کامیاب ہوجاتی اور ٹرن آؤٹ اچھا ہوتا تو پھر پیپلز پارٹی کو
دھاندلی سے روکا جا سکتا تھا جیسے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہوا تھا ۔
جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ تھی کہ تحریک انصاف سے وابستہ جو لوگ پولنگ
اسٹیشنز تک آئے اُن میں سے بھی کثیر تعداد نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا صرف
اور صرف حافظ نعیم کی شخصیت کی وجہ سے ۔
اس کے علاوہ بھی تحریک انصاف کے پاس یہ آپشن تھی کہ بروقت جماعت اسلامی سے
صرف کراچی بلدیاتی انتخابات کی سطح پر اتحاد کر کے کم از کم پیپلز پارٹی کو
کافی حد تک روک سکتی تھی دونوں پارٹیوں کا اتحاد آرام سے اپنا میئر اور
ڈپٹی مئیر لا سکتی تھی جو کہ موجودہ صورتحال میں اب نا ممکن لگ رہا ہے
تحریک انصاف کی بلدیاتی انتخابات میں ناکامی آنے والے جنرل الیکشن میں پی
ٹی آئی کے ووٹ بینک میں بہت ڈینٹ ڈال سکتی ہے
ابھی بھی اگر تحریک انصاف کو کراچی میں اپنے ووٹ بینک کو بچانا ہے اور آنے
والے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو عالمگیر کو قومی اسمبلی
کا الیکشن لڑوانے کے بجائے ابھی سے بلدیاتی انتخابات اور لوکل سیاست کیلئے
وقف کر دیں کیونکہ میری نظر میں کراچی کے گلی محلوں میں مسائل اتنے زیادہ
ہیں کہ وہ عمومی سیاست سے زیادہ اپنے گلی محلے کے مسائل کو حل کرنے میں
زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں مُلک کے باقی حصوں میں رہنے والوں کو شاید یہ بات
عجیب لگے لیکن جو خود کراچی میں رہتا ہوں اُس کو اسکا بخوبی اندازہ ہوگا ۔
مستقبل میں کراچی میں کامیابی کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیاست سے
زیادہ بلدیاتی انتخابات پر فوکس کریں ورنہ کراچی آپکے ہاتھ سے نکل سکتا ہے
۔
|