قرب الہی

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
اللہ تبارک وتعالی جب کسی کو اپنا قرب عطا فرماتا ہے تو اسے اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جس کا خود اسے یقین نہیں ہوتا اور ہر کوئی اس مقام تک پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے ہم جب کسی سے محبت کا دعوہ کرتے ہیں تو اسے تحفے تحائف دیتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی کو جب کسی بندے سے محبت ہوجائےاور وہ اپنے کسی بندے سے خوش ہوجائے تو وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلاتا ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں میں حاضر ہوں کیا حکم ہے تو اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ فلاں بستی کے فلاں گلی کے فلاں گھر کے فلاں شخص کے بیٹے سے مجھے پیار ہوگیا ہے مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے یہ سن کر حضرت جرائیل علیہ السلام نے عرض کیا تو یارب میرے لئے کیا حکم ہے اللہ تبارک وتعالی نے کہا کہ تم بھی اس سے محبت کر و میں جس طرح سے اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہوں تم بھی اس پیار سے دیکھا کر و تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یااللہ تبارک و تعالی ہوگیا مجھے بھی پیار ہمارا تو تیرے ہر اس بندے سے پیار ہے جس سے تجھکو پیار ہے اب کیا حکم ہے تو اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ اب زمین میں جائو اور یہ اعلان کردو اور جو میرے خاص اور چنے ہوئے بندے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ بات انڈیل دو کہ اللہ تبارک وتعالی کو فلاں بندے سے پیار ہوگیا ہے تم بھی پیار کرو اور اس طرح پیار کرو کہ کوئی کتنی بھی کوشش کرے یہ محبت ختم نہ ہو حضرت جبرائیل علیہ السلام دوڑے ہوئے گئے اور جب واپس آئے تو عرض کیا یااللہ تبارک وتعالی ساری دنیاکے دلوں میں اس کا پیار ڈال آیا ہوں اب کیا حکم ہے میرے مالک تو اللہ تبارک وتعالی فرمائے گا جائو اب آسمان کا چکر لگائو سارے فرشتے اور حور وں میں یہ اعلان کردو کہ رب کریم اس بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی محبت کرو وہ پیار کرتا ہے تم بھی پیار کرو حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب اللہ کسی کو اپنا محبوب بنالے اپنے خاص بندوں میں چن لے تو پھر پوری دنیا اس کی عزت کرنے لگ جاتی ہے فرشتے اس کا خیال رکھتے ہیں وہ سب کی نطروں میں معتبر مانا جاتا ہے کیوں کہ اب وہ اللہ تبارک وتعالی کا خاص بندہ ہوتا ہے اور اللہ تبارک وتعالی اس سے پیار کرتا ہے۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب سیکھنا ، دیکھنا اور سمجھنا یہ ہے کہ اللہ پیار کس سے کرتا ہے محبت کا حقدار کس کو ٹھراتا ہے اپنا قرب کس کو عطا کرتا ہے وہ کون خوش نصیب ہے جسے وہ رب العزت اپنے خاص بندوں میں شامل کرکے اپنا قرب عطا کرےا ہے قران مجید فرقان حمید کی سورہ بقرہ میں ایت نمبر 22 میں اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ *اللہ تبارک وتعالی پیار کرتا ہے توبہ کرنے والے سے اللہ تبارک وتعالی پیار کرتا ہے پاک رہنے والے سے* حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ اپنے گناہوں سے شرمسار ہوکر اپنے رب کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا ہے اور صدق دل سے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی خوش ہوجاتا ہے اور اتنا خوش ہوجاتا ہے کہ اس کے گناہوں کو صرف معاف ہی نہیں کرتا بلکہ اسے اپنے خاص بندوں میں شامل کر لیتا ہے ایک دفعہ کوئی جائے تو سہی حاضر تو ہو اس کے دربار میں وہ رب جو 70 مائوں سے زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے وہ کیسے چاہے گا کہ اس کا کوئی بندہ جہنم میں جائے اور اللہ تبارک وتعالی کو اپنے بندے کے جو اعمال سب سے زیادہ پسند ہیں توبہ کرنے کا عمل ان میں سب سے پہلے آتا ہے اور وہ اپنے بندے کے توبہ کرنے کے عمل سے بہت خوش ہوتا ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیتہ الطالبین کے توبہ کے باب میں موجود سچی توبہ کے عنوان کے تحت ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز صحابی رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم امام المحدثین حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کوفہ کے مضافات میں واقع ایک گائوں سے گزر رہے تھے تو دیکھا کچھ فاسق وفاجر ایک مکان میں موجود شراب نوشی میں مسغول ہیں اور ان میں ایک گانے والا بھی تھا جو مشہور تھا اور اپنی بربط بجا کر گانے میں مصروف ہے اس کی سریلی اور مسحور کن آواز سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اسے کتنی سریلی آواز دی ہے اگر یہ اس آواز کو گانے کی بجائے اللہ تبارک وتعالی کے نازل کردہ قران کریم کی تلاوت میں استعمال کرتا تو کتنا اچھا ہوتا آپ رضی اللہ عنہ یہ بات کہ کر آگے چل دئے اس گانے والے کا نام زادان تھا وہ آپ رضی اللہ عنہ کے کہے ہوئے کلمات کو تو نہ سمجھ سکا لیکن اتنا اندازہ ہوگیا کہ اس کے گانے کے بارے میں کچھ کہا گیا اس دریافت کیا کہ کون تھے تو لوگوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن مسعود تھے اور فرمارہے تھے کہ اتنی سریلی آواز اگر اللہ تبارک تعالی کے نازل کردہ قران مجید کی تلاوت میں استعمال ہوتی تو کیا بات تھی اس نے جب یہ سنا تو اس پر ایک ہیبت طاری ہوگئی اور اس نے اپنا بربط زمیں پر دے مارا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھاگا جب وہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو اپنا رومال گلے میں ڈال کر ایک مجرم کی طرح کھڑا ہوگیااور رونے لگا آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی حالت رجوع الی للہ دیکھکر بےقرار ہوگئے اور اظہار محبت کرتے ہوئے اسے گلے لگالیا اور پھر دونوں ملکر خوب روئے لوگوں نے دریافت کیا کہ حضور یہ کیا ماجرا ہوا کہ ایک گانے والے کو نہ صرف آپ رضی اللہ عنہ نے گلے لگایا بلکہ دونوں ملکر خوب روئے بھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس شخص سے محبت کیوں نہ کروں جس سے اللہ تبارک وتعالی خود محبت کرتا ہو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول اس کی سچی توبہ کا باعث بن گیا اذان نے مکمل طور پر آپ رضی اللہ عنہ کی صحبت اختیار کرلی اور قران پاک کے علم سے بہت حصہ پایا اور اس علم کی بدولت امامت کے درجہ پر فائز ہوئے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کا قرب اور محبت کے حصول کے لئے ہمارے اکابرین نے بڑے بڑے مجاہدات کئے کئی کئی سالوں تک دنیا و مافیہا سے دور رہکر صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کی عبادت میں اپنا وقت گزارا تب جاکر ان میں سے کوئی معین الدین چشتی اجمیری خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ تعالی علیہ بنا تو کوئی حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمتہ اللہ تعالی علیہ بنا کوئی امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اللہ تعالی علیہ بنا توکوئی عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ تعالی علیہ بنا اور ایسے بے شمار اولیاء کرام اور بزرگان دین موجود ہیں جو اپنی اپنی آرام گاہوں میں ارام فرمارہے ہیں اور اللہ تبارک وتعالی کے قرب ، محبت ،اور عطا سے وہاں سے بھی کرم فرما رہے ہیں اور یہ سب اللہ تبارک وتعالی کے خاص بندوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہے اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب الکائنات ہمیں بھی اپنے خاص بندوں میں شامل کر لے آمین ۔ قرب الہی کے حوالے سے بزرگان دین اور اللہ تبارک وتعالی کے برگزیدہ ولیوں میں سے ایک نام حضرت عبداللہ بن زید رحمتہ اللہ علیہ کا ہے ان کا ایک معروف واقعہ آپ لوگوں نے سنا یا پڑھا ہوگا میں یہاں تحریر کررہا ہوں تاکہ دوبارہ پڑھکر ایمان تازہ ہوجائے حضرت عبداللہ بن زید رحمتہ اللہ علیہ جنہوں نے اپنی زندگی صرف اور صرف اللہ کی عبادت میں گزاردی یہاں تک کہ آپ نے نکاح بھی نہیں کیا جبکہ آپ علیہ رحمہ کی عمر 60 یا 65 تک جا پہنچی تھی ایک دن احادیث مبرکہ کا مطالعہ فرمارہے تھے کہ ایک حدیث پر نظر پڑی جس میں سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شادی کی عمر تک پہنچا اور شادی نہ ہوئی یا کسی شرعی وجہ سے شادی نہ کرسکا لیکن خاتمہ ایمان پر ہوا تو اللہ تبارک و تعالی اس کی شادی جنت میں کروادے گا اگر عورت یے تو کسی مرد کے ساتھ اور مرد ہے تو کسی عورت کے ساتھ بس یہ پڑھنا تھا تو سوچنے لگے کہ اگر یہاں میں نے نکاح نہیں کیا تو جنت میں تو نکاح ہوگا تو میری بیوی کون ہوگی یہ سوچتے رہے کہ رات ہوگئی آپ جب آرام کی غرض سے لیٹنے لگے تو آپ علیہ رحمہ نے دعا کی کہ یا اللہ تبارک وتعالی مجھے یہ تو بتا کہ جنت میں میری بیوی کون ہوگی اور سو گئے لیکن دعا قبول نہ ہوئی دوسرے دن پھر یہ ہی عمل دہرایا لیکن جواب کوئی نہ آیا لیکن جب تیسری مرتبہ آپ علیہ رحمہ نے دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ ایک عورت جو حضرت بلال حبشی کی نسل سے تھی اور اس کا رنگ بھی سیاہ تھا اس نےکہا کہ میں میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا ہوں اور بصرہ میں رہتی ہوں اتنا سننا تھا کہ آپ علیہ رحمہ کی آنکھ کھل گئی اٹھے تو تہجد کا وقت تھا تہجد ادا کی ذکرواذکار کئے نماز فجر پڑھی سواری لی اور بصرہ کی طرف چلدئیے بصرہ کے لوگ آپ علیہ رحمہ سے بڑے متاثر تھے اور چاہنے والے بھی ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب حضرت عبداللہ بن زید رحمتہ اللہ تعالی علیہ بصرہ پہنچے تو لوگوں نے بڑے گرمجوشی سے استقبال کیا کچھ دیر کے بعد لوگوں نے پوچھا حضرت بغیر اطلاع اچانک کیسے آنا ہوا تو آپ علیہ رحمہ نے فرمایا یہاں کوئی میمونہ (رحمتہ اللہ تعالی عنہا ) رہتی ہیں ؟ لوگ حیران ہوگئے اور پوچھا کہ اتنی دور سے آپ علیہ رحمہ کیا میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا سے ملنے آئے ہیں ؟ تو فرمایا کیوں اس میں اتنا حیران ہونے والی کونسی بات ہے تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو دیوانی ہے لوگ اسے پتھر مارتے ہیں آپ علیہ رحمہ نے پوچھا کیوں تو بتایا کہ وہ کام ہی ایسے کرتی ہے کوئی رو رہا ہو تو ہنسنے لگ جاتی ہے اور کوئی ہنس رہاہو تو وہ رونے لگ جاتی ہے اور دھاری پر ہماری بکریاں چراتی ہے اس وقت بھی وہ ہماری بکریاں لے کر جنگل کی طرف گئی ہوئی ہے آپ علیہ رحمہ آرام فرمائیں وہ عصر تک واپس آجائے گی پھر آپ علیہ رحمہ کی ملاقات کروادیں گے تو حضرت عبداللہ بن زید رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ مجھے بتائو وہ کس طرف گئی ہے مجھے ابھی اس سے ملنا ہے لیکن وہ جنگل بہت خطرناک ہے آپ علیہ رحمہ وہاں نہ جائیں لوگوں نے کہا لیکن آپ علیہ رحمہ نے فرمایا مجھے صرف یہ بتائو کہ وہ کس سمت گئی ہے تو لوگوں نے آپ علیہ رحمہ کو جنگل کے راستے کی سمت بتادی ۔

میرے محترم اور معزز آگے بڑھنے سے پہلے میں کچھ باتیں واضح کرتا چلوں کہ جب کوئی شخص اللہ تبارک وتعالی کی عبادت و مجاہدات میں اپنی زندگی صرف کردیتا ہے اللہ تبارک وتعالی کے قرب کو پالیتا ہے اور جب اس کا دل اللہ تبارک وتعالی کی عبادت سے بھر جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی کی ذات کے علاوہ اس کا تعلق کسی سے باقی نہیں رہتا اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ جب کوئی میرا قرب پالیتا ہے تو میں اس کی انکھ بن جاتا ہوں اس کی زبان بن جاتا ہوں اس کے ہاتھ اور اس کے پائوں بن جاتا ہوں یعنی بندے کا اپنی خواہشات سے تعلق باقی نہیں رہتا اور نہ ہی وہ اپنے ارادے سے کچھ کرتا ہے بلکہ وہ اپنے رب اور مالک و مولا کی چاہت پر عمل کرتا ہے اس کی زبان سے اللہ تبارک وتعالی کے ذکر کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا اس کی حرکات و سکنات اللہ تبارک وتعالی کی مرضی سے ہوتی ہیں اس کا بولنا سننا اور نظر سے دیکھنا سب اللہ تبارک وتعالی کی توفیق سے ہے پھر بندہ وہی سنتا ہے جو اس کے رب العزت کو پسند ہوتا ہے دیکھتا اس چیز کو ہے جو اللہ تبارک وتعالی کو راضی کرے ہاتھ سے اس چیز کو پکڑنا اور اس طرف چلنا ہے جہاں رب الکائنات کی مرضی پنہاں ہوتی ہے ۔

میرے محترم پڑھنے والوں اب ہم حضرت عبداللہ بن زید رحمتہ اللہ علیہ کے واقعے کو آگے لیکر چلتے ہیں جب لوگوں نے آپ علیہ رحمہ کو جنگل کے راستے کی سمت بتادی اور آپ علیہ رحمہ جیسے ہی جنگل میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ یہ تو واقعی بہت خطرناک جنگل ہے یعنی بھیڑیے اور شیر کھلے گھوم رہے تھے اور یہاں تک کہ پائوں میں کتنے حشرات الارض آرہے تھے آپ علیہ رحمہ نے سوچا کہ شاباش ہے اس اکیلی خاتون کی مردانگی پر پھر وہ جیسے تیسے بچ بچاکر وہاں پہنچے جہاں حضرت میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا کا قیام تھا سب سے پہلی حیرت آپ علیہ رحمہ کو اس وقت ہوئی جب آپ علیہ رحمہ نے دیکھا کہ بکریاں چرانا تو ایک بہانہ ہے اصل معاملہ قرب الہی کے حصول کا ہے آپ علیہ رحمہ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا مصلی پر کھڑی نوافل میں مصروف عبادت ہیں دنیا ومافیھا سے دور جنگل میں لیکن پھر بکریاں کہاں ہیں ویسے بھی بکریاں تو بڑی شرارتی ہوتی ہیں کبھی ادھر بھاگ کبھر ادھر تو آپ کو دوسری حیرت اس بات پر ہوئی جب آپ علیہ رحمہ نے آگے بڑھکر دیکھا کہ وہ شیر کہ جن کی پسندیدہ غذہ بکریاں ہوتی ہیں وہ شیر ان بکریوں کو چرارہے ہیں آپ علیہ رحمہ ابھی حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ حضرت میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا نوافل سے فارغ ہوگئی اب تیسری حیرت آپ علیہ رحمہ کو اسوقت ہوئی جب بغیر آپ علیہ رحمہ کی طرف دیکھے حضرت میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا نے فرمایا کہ عبداللہ علیہ رحمہ اللہ تبارک وتعالی نے تو جنت میں ملنے کا وعدہ فرمایا تھا تم یہیں آگئے آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ ہم پہلے کبھی ملے نہیں تو پھر آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا اور بغیر میری طرف دیکھے آپ نے مجھے کیسے پہچانا تو حضرت میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا نے فرمایا کہ جس نے تمہیں رات کو میرے بارے میں بتایا اس نے مجھے بھی تمہارے بارے میں بتا دیا تھا اور دوسرا یہ کہ یہاں اس خطرناک جنگل میں میرے علاوہ کوئی نہیں آتا اس لئے میں پہچان گئی کہ یہ صرف تم ہی ہوسکتے ہو جو یہاں تک میرے پیچھے آسکتے ہو حضرت عبداللہ بن زید نے پوچھا یہ بتائو کہ تمہاری بکریوں اور شیر میں صلح کیسے ہوگئی تو حضرت میمونہ ولید رحمتہ اللہ علیہا نے فرمایا کہ میں اور تو کچھ نہیں جانتی لیکن جب سے میں نے اللہ تبارک وتعالی سے صلح کرلی ہے تو ہر کسی نے میری ہر چیز سے صلح کرلی ہے بس ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ ہے قرب الہی کا تحفہ دونوں اللہ تبارک و تعالی کے خاص اور چنے ہوئے لوگ جنہوں نے اپنی اس عارضی اور دنیاوی زندگی کو اللہ تبارک وتعالی کے قرب اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے عشق کے لئے وقف کردیا اور پھر اللہ تبارک وتعالی نے انہیں جنت میں یکجا رہنے کی خوش خبری بھی سنادی ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی اللہ تبارک وتعالی سے صلح کرلیں یعنی دوستی کرلیں اور اس عارضی دنیا کی عارضی اور مختصر زندگی کی بجائے مستقل دنیا اور مستقل زندگی کے بارے میں سوچیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہوگی ہمیں اپنا ہر کام اللہ تبارک وتعالی کی رضا کے لیئے کرنا ہوں گے کہ جب ہم اپنا ہر کام اس خالق حقیقی کی رضا کے لئے کریں گے تو وہ ضرور اپنا قرب ہمیں عطا کرے گا ہر مسلمان کی طرح ہمیں بھی خواہش ہے کہ ہم جنت میں جائیں لیکن اس کے لیئے قرب الہی اور عشق مصطفی صلی للہ علیہ والیہ وسلم کا ہونا لازم و ملزوم ہوگا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کا ہر حال میں شکر ادا کرتے رہا کریں جو اس رب العالمین نے ہمیں عطا کیا اس پر اس کا شکر اور جو تکلیف و پریشانی ہمیں ملی اس کا پر صبر کریں ہر وقت استغفار کا ورد کرتے رہیں اور اپنے جانے انجانے کیے گئے گناہوں سے توبہ کرتے رہیں اور مزید گناہ نہ کرنے کی توفیق مانگا کریں بے شک وہ رب الکائنات بڑا معاف کرنے والا ہے ۔اب ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ جب کوئی طالب علم کسی امتحان کی تیاری کرتا ہے تو وہ کتنی محنت کرتا ہے سارا سارا دن اور ساری ساری رات وہ تیاری کرتا ہے اسے یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ امتحان میں کونسا سوال کتاب کی کس جگہ سے آئے گا اس لئے وہ پوری کتاب سے تیاری کرتا ہے اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ پاس ہو بھی گیا اور اس کے سبب اسے کوئی ڈگری مل بھی گئی تو اس کا تعلق صرف اور صرف اس عارضی زندگی اور دنیا تک ہے جبکہ جو اصلی اور عبدی زندگی ہمیں اخرت میں ملنے والی ہے اس کی تیاری کے لئے ہم کیا کرتے ہیں جبکہ وہاں پوچھے جانے والے سارے سوالات کا ہمیں بہت اچھی طرح سے علم ہے اور اس کے لئے وقت بھی اتنا ہے کہ جب تک سانس ہے تیاری کرلیں لیکن ہم پھر بھی اس طرف دھیان نہیں دیتے اور پھر اللہ رب العزت سے جنت طلب کرتے ہیں بے شک اللہ تبارک وتعالی نے جنت کا قیام مسلمانوں کے لئے ہی کیا یے مشرکین اور کفاروں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے لیکن مسلمان بھی وہ جو ایمان کی سلامتی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور جنہیں اللہ تبارک وتعالی اپنا قرب عطا کرکے انہیں اپنے خاص بندوں میں شامل کرلیتا ہے اور ان سے بے پناہ محبت کرتا ہے جنت میں جانے والا ہر بندہ اللہ تبارک وتعالی کے خاص بندوں میں شمار ہوگا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اپنی زندگی کا ہر کام اللہ تبارک وتعالی کی رضا کے لئے کرنا شروع کردیں توبہ و استغفار ، صبر ، شکر اور عاجزی کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اللہ تبارک و تعالی رحیم ہے کریم ہے انشاء اللہ وہ ہمیں بھی اپنے خاص لوگوں میں شامل کرلےگا اور ہمیں بھی اپنا قرب اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا عشق عطا کردے گا اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ وہ مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو پڑھکر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین آمین بجاء النبی الکریم

 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 112 Articles with 76960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.