رحمت کی دو روشنیوں میں لپٹا ہوا رب

New Page 2
”رحمان اور رحیم ہے۔“ (سورۃ الفاتحہ: 2)
یہ الفاظ بظاہر مختصر ہیں، مگر ان کے اندر وہ گہرائی، وہ تاثیر اور وہ معنوی وسعت چھپی ہے جو انسان کو اس کے رب سے جوڑتی ہے۔ یہ دو صفاتی نام, ”رحمان“ اور ”رحیم“ صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کا تعارف نہیں، بلکہ ایک ایسا در کھولتے ہیں جہاں بندگی، دعا، محبت، خوف اور امید، سب ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔ جب بندہ ”رحمان“ اور ”رحیم“ کے الفاظ کو دل میں اُتارتا ہے، تو وہ محض ایک عقیدہ اختیار نہیں کرتا، بلکہ وہ ایک ایسا باطنی انقلاب اپنے اندر جگاتا ہے جس سے اُس کی پوری شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اُس کا رب نہ صرف حاکمِ مطلق ہے، بلکہ وہ شفقت، نرمی اور بےپایاں محبت کا منبع بھی ہے۔
جب انسان کہتا ہے کہ ”اللہ رحمان اور رحیم ہے“، تو وہ محض زبان کی حرکت نہیں کرتا، بلکہ دل کی گہرائی سے اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ اُس کی زندگی کا ہر لمحہ، ہر سہارا، ہر نجات، اسی رب کی بے پایاں رحمت پر قائم ہے۔ ”رحمان“ وہ ذات ہے جس کی رحمت بے حد، بے حساب، اور تمام مخلوق کے لیے یکساں ہے۔ کافر ہو یا مومن، فرماں بردار ہو یا نافرمان، اس کا رزق، ہوا، روشنی، جسم، عقل، وقت، سب اُسی رب کی عطا کردہ ہیں جو اپنے رحم کے دروازے سب کے لیے کھولے رکھتا ہے، بغیر اس کے کہ کوئی مانگے یا شکریہ ادا کرے۔
رحمان وہ ہے جو ہر ایک کو دیتا ہے، چاہے وہ اُس کا انکار کرے یا اُس کا انعام پا کر اُسے بھول جائے۔ وہ کافر کی زمین کو بھی زرخیز کرتا ہے، اُسے بھی ہوا دیتا ہے، روشنی، پانی، مال، صحت، سب کچھ عطا کرتا ہے۔ رحمان کی یہ صفات انسان کو سکھاتی ہیں کہ دینے میں تنگ دلی نہ ہو۔ اگر رب العالمین ہر حال میں عطا کرنے والا ہے تو بندہ، جو اُس کا عکس بننے کا مدعی ہے، وہ کیوں بخیل ہو؟ رحمان کی صفت ایک وسیع، بے کنارہ دریا کی مانند ہے، جو سب پر بہتا ہے۔ اس میں تفریق نہیں، تعطل نہیں، توقف نہیں۔ یہ رحمت انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اُس کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ رحمِ مادر میں اُس کی تشکیل، آنکھوں کا بینا ہونا، دل کا دھڑکنا، عقل کی روشنی، یہ سب اسی صفتِ رحمانیت کی روشنیاں ہیں۔ انسان جب اپنی کمزوریوں، بھٹکاؤ، خطاؤں، اور نادانیوں کے باوجود زندگی کی سہولتیں پاتا ہے، تو دراصل وہ اسی رحمان کے فیض میں سانس لے رہا ہوتا ہے۔ مگر ”رحیم“ ایک اور دروازہ ہے۔ یہ وہ خاص رحمت ہے جو ایمان والوں پر، دعا مانگنے والوں پر، سجدے میں گرنے والوں پر، آنسو بہانے والوں پر، توبہ کرنے والوں پر نازل ہوتی ہے۔ ”رحیم“ کا جلوہ اور بھی نازک اور لطیف ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو مانگنے پر اُترتی ہے۔ جو سجدے کی مٹی سے مہک اُٹھتی ہے۔ جو توبہ کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے۔ جو رات کی تنہائیوں میں اٹھنے والے ہاتھوں پر برستی ہے۔ "رحیم" ہمیں یہ شعور دیتا ہے کہ رب کی قربت نصیب کی بات نہیں، طلب کی بات ہے۔ یہ قربت انعام نہیں، جواب ہے، اُس پکار کا جو اندر کے اندھیرے میں نکلتی ہے اور آسمانوں تک پہنچتی ہے۔ ”رحیم“ وہ ہے جو بار بار رحم کرتا ہے، جو قرب چاہنے والے بندوں کو اپنی آغوش میں لیتا ہے، جو ہر بار گناہ کے بعد توبہ کو قبول کرتا ہے۔ رحیم کی صفت انسان کو ایک خاص روحانی تعلق عطا کرتی ہے۔ یہ احساس کہ میرا رب صرف پیدا کرنے والا ہی نہیں، بلکہ مجھے اپنے قریب بھی بلاتا ہے، میری پکار سنتا ہے، میرے آنسو دیکھتا ہے، میرے دل کی حالت جانتا ہے، یہ احساس دل کو ایک ایسی گہری تسلی دیتا ہے جو کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں صفات کے درمیان ایک حیران کن توازن ہے۔ ”رحمان“ کی شان یہ ہے کہ بغیر درخواست کے عطا کرتا ہے، اور ”رحیم“ کی شان یہ ہے کہ بار بار گناہ کے باوجود بخش دیتا ہے، مگر یہ بخشش تب نازل ہوتی ہے جب بندہ شرمندگی سے کہہ اُٹھے: ”یا اللہ! میں پھر لوٹ آیا ہوں، تُو وہی مہربان ہے ناں؟“ ان دو صفات کے امتزاج میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف مادی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ روحانی پیاس کو بھی بجھاتا ہے۔ ایک طرف وہ رحمان ہے، جس کے سائے تلے تمام مخلوق پلتی ہے، اور دوسری طرف وہ رحیم ہے، جس کے دَر پر بندہ خاص ہونے کا شرف پاتا ہے۔ یہ دو صفات دراصل اللہ کے عدل اور فضل کے درمیان ایک خوبصورت توازن پیدا کرتی ہیں۔ اگر وہ صرف عدل کرتا تو ہم سب ہلاک ہو جاتے، اور اگر وہ صرف فضل کرتا تو ہم غرور میں مبتلا ہو جاتے۔ مگر اُس کی رحمانیت ہمیں زندگی عطا کرتی ہے، اور اُس کی رحیمیت ہمیں معافی، سکون، اور قربت عطا کرتی ہے۔ رحمتِ خداوندی کے یہ دو پہلو، درحقیقت، بندے کے ساتھ رب کے تعلق کو سمجھنے کی کلید ہیں۔ جب انسان ”رحمان“ کو پہچانتا ہے تو وہ شکرگزار بنتا ہے؛ جب ”رحیم“ کو پہچانتا ہے تو وہ رجوع کرنے والا بنتا ہے۔ یہ شکر اور رجوع انسان کو اللہ سے ایسا جوڑ دیتے ہیں کہ وہ دنیا کی کسی طاقت، کسی دکھ، کسی تنہائی یا کسی محرومی سے خائف نہیں رہتا۔ یہ دو صفات اُس امید کی کرن ہیں جو سب سے تاریک دل میں بھی چمک سکتی ہے۔ یہ وہ آواز ہیں جو ہر ٹھکرائے ہوئے، ہر ٹوٹے ہوئے، ہر گناہ گار، ہر بھٹکے ہوئے کو واپس بلاتی ہیں، ”آؤ! رب اب بھی تمہیں چاہتا ہے، رب اب بھی تم پر مہربان ہے۔“ یہی دو صفات انسان کو اللہ سے امید باندھنے، اُس سے مانگنے، اور کبھی مایوس نہ ہونے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ جب سب در بند ہو جائیں، جب انسان خود سے بھی مایوس ہو جائے، تب یہ دو الفاظ، ”رحمان“ اور ”رحیم“، دل میں ایسا چراغ روشن کرتے ہیں جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس پر ایمان لا کر بندہ اللہ کو نہ صرف رب مانتا ہے بلکہ محبوب، مددگار، معاف کرنے والا، اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والا سمجھتا ہے۔ اور جب یہ ایمان مکمل ہو جائے تو بندے کے دل میں دنیا کی حرص، خوف، اور دکھ ماند پڑ جاتے ہیں، کیونکہ اُسے یقین ہو جاتا ہے کہ اُس کا رب، رحمان و رحیم، ہمیشہ اُس کے ساتھ ہے۔

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 42 Articles with 15032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.