انصاف کی گھڑی اور عبد کی امید

”روزِ جزا کا مالک ہے۔“ (سورۃ الفاتحہ: 3)
انسان کی زندگی سوالوں سے بنی ہے۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنے وجود، اپنی حیثیت، اپنے انجام، اور اپنے اعمال کی حقیقت کے بارے میں سوچتا ہے۔ جب وہ کسی مظلوم کو روتا دیکھتا ہے، کسی ظالم کو مسکراتے ہوئے دیکھتا ہے، کسی محنت کش کو خالی ہاتھ اور کسی چالباز کو تخت نشین پاتا ہے، تو اُس کے دل میں ایک صدا ابھرتی ہے: ”کیا کوئی دن ایسا بھی آئے گا جب حق غالب آئے گا؟ جب نیکوکاروں کو اُن کے نیکیوں کی جزا اور بدکاروں کو اُن کے بد کی سزا دی جاے گی؟“ یہی صدا، یہی پکار، یہی فطری سوال اللہ کے ان کلمات میں اپنے مکمل اور کامل جواب کے ساتھ موجود ہے: ”روزِ جزا کا مالک ہے۔“ یہ الفاظ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک زبردست روحانی اور اخلاقی نظام کی بنیاد ہیں۔ یہ اعلان ہے کہ کائنات کا خالق صرف پیدا کرنے والا ہی نہیں، بلکہ انصاف کرنے والا بھی ہے۔ وہ انسان کو چھوڑ نہیں دیتا کہ وہ جس طرح چاہے جیے، جس طرح چاہے مرے، اور پھر مٹی میں گم ہو جائے۔ نہیں۔ وہ رب، جو رحمان اور رحیم ہے، وہی ”مالکِ یومِ الدین“ بھی ہے۔ لفظ ”مالک“ اپنی وسعت میں مکمل اختیار، مکمل قبضہ، مکمل اختیارِ فیصلہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دنیا میں بادشاہ ہیں، جج ہیں، حاکم ہیں، مگر اُن کے اختیار محدود ہیں۔ اُن کے عدالتی فیصلے بھی علم کی کمی، گواہوں کی کمی، یا طاقت کی زیادتی کے باعث جھول کھا سکتے ہیں۔ مگر ”مالکِ یومِ الدین“ وہ ہے جس کے علم میں کوئی خطا نہیں، جس کے انصاف میں کوئی رعایت نہیں، اور جس کے حضور کوئی باطل دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔ جب انسان اس دنیا کے ہنگاموں میں الجھتا ہے، جب اسے نیکی کا بدلہ تکلیف اور برائی کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے، تو وہ الجھتا ہے، سوال کرتا ہے، کبھی بغاوت کے دہانے تک بھی جا پہنچتا ہے۔ مگر ”مالک یوم الدین“ کا اعلان اسے سنبھالتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ دنیا میں عدل کا نظام نامکمل ہے، اس کی اصل اور مکمل صورت یومِ الدین میں ہی ظاہر ہو گی۔
”یومِ الدین“ وہ دن ہے جب انسان کی ظاہری شکلیں، دنیاوی عہدے، رتبے، لباس، سب اُتار لیے جائیں گے۔ صرف نیتیں، اعمال، حق اور باطل کا میزان باقی رہے گا۔ وہ دن نہ کسی وکیل کو کام آئے گا، نہ کسی سفارش، نہ کسی جھوٹ کا سہارا ہوگا۔ صرف سچ بولے گا، صرف عمل گواہی دے گا، اور صرف عدل کا قلم چلے گا، اور اس سارے دن کا واحد مالک، رب العالمین ہو گا۔ یہی آیت بندے کے اندر ایک اعلیٰ اخلاقی بیداری پیدا کرتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کسی کو دھوکہ دینا، کسی کا حق دبانا، یا کسی کے ساتھ زیادتی کرنا صرف دنیاوی جرم نہیں بلکہ اخروی مواخذے کا باعث بھی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ”مالکِ یومِ الدین“ سے کچھ بھی چھپایا نہیں جا سکتا، نہ نیت، نہ جھوٹ، نہ زخم، نہ زہر۔
یہ آیت بندے کے دل میں خوف بھی بٹھاتی ہے اور امید بھی جگاتی ہے۔ خوف اس لیے کہ وہ جان لے کہ ہر چھوٹا بڑا عمل، ہر سوچ، ہر لفظ، ہر قدم ریکارڈ ہو رہا ہے، اور ایک دن سب کچھ سامنے لایا جائے گا۔ اور امید اس لیے کہ اگر وہ مظلوم ہے، اگر وہ حق پر قائم ہے، اگر وہ صبر کرتا ہے، اگر وہ گمنام نیکی کرتا ہے، تو اُس کے لیے ایسا دن آنے والا ہے جب کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا۔ یہ شعور انسان کو نکھارتا ہے۔ اُسے خود پر نگاہ رکھنے والا بناتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی عدالتیں دھوکہ کھا سکتی ہیں، لیکن اُس رب کی عدالت میں نہ جھوٹ چلے گا، نہ فریب، نہ بناوٹ۔ چنانچہ بندہ اخلاص کے راستے پر قدم رکھتا ہے۔ وہ نیکی کو شہرت سے آزاد کرتا ہے، عبادت کو رسمی پن سے نکالتا ہے، اور دل کو اندر سے صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ اعلان، ”روزِ جزا کا مالک ہے“ نہ صرف قیامت کے دن کی خبر دیتا ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی کو نظم میں لاتا ہے۔ جب بندہ جان لے کہ ایک دن اسے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے، تو وہ ہر عمل، ہر قدم، ہر لفظ کو ترازو میں رکھتا ہے۔ وہ حرام سے ڈرتا ہے، حلال کو اختیار کرتا ہے، اور دل میں یہ یقین بٹھا لیتا ہے کہ میرا کوئی عمل رائیگاں نہیں جائے گا۔ جب انسان کہتا ہے: ”روزِ جزا کا مالک ہے“، تو وہ صرف عقیدہ نہیں دہرا رہا ہوتا، وہ اپنے آپ کو جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، اپنے ہر عمل کو وزن دے رہا ہوتا ہے، اور اپنے دل میں یہ پختہ یقین پیدا کر رہا ہوتا ہے کہ زندگی بےحساب نہیں، اور وقت بےثمر نہیں۔ ایک جانب یہ آیت خوف کا پیغام ہے، ایسا خوف جو دل کو برائی سے روکتا ہے، جو رات کی تنہائی میں ضمیر کو جگاتا ہے، اور جو انسان کو مسلسل محاسبہ پر آمادہ رکھتا ہے۔ اور دوسری جانب یہ آیت امید کا چراغ ہے، ایسا چراغ جو اندھیرے میں جلتا ہے، جو اس مظلوم کو ہمت دیتا ہے جسے دنیا بھول چکی ہے، جو اس سچے دل کو سہارا دیتا ہے جس نے دکھ سہہ کر بھی رب سے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا آزمائش ہے، اور روزِ جزا اس آزمائش کا نتیجہ۔ دنیا کا وقت عارضی ہے، اور یومِ الدین کا وقت ابدی۔ دنیا میں فیصلہ انسانوں کے ہاتھ میں ہے، اور وہاں فیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا میں انصاف کی کمی، ظالم کا بڑھتا ہوا اثر، سچ بولنے والے کی تنہائی، یہ سب کچھ انسان کو ٹوٹنے پر مجبور کرتے ہیں، مگر جب وہ کہتا ہے: ”روزِ جزا کا مالک ہے“، تو وہ دراصل یہ اعلان کرتا ہے کہ ابھی کھیل باقی ہے، ابھی فیصلہ ہونا ہے، اور اس فیصلے کا رب، عدل و رحمت دونوں کا مالک ہے۔ دنیا کا کوئی بھی انصاف اتنا مکمل، اتنا شفاف، اتنا گہرا نہیں ہو سکتا جتنا ”یومِ الدین“ پر رب کا عدل ہو گا۔ نہ وہاں گواہوں کی کمی ہو گی، نہ ثبوت کی ضرورت، نہ زبان کی چالاکی کوئی فائدہ دے گی، کیونکہ وہاں ہاتھ گواہی دیں گے، پاؤں شہادت دیں گے، اور دل کی نیتیں ننگی ہوں گی۔ ”یومِ الدین“ محض سزا کا دن نہیں، بلکہ وہ دن ہے جب بندوں کے چہرے روشن ہوں گے، جب اُن کی نیکیوں کو تول کر اُن کی عزت لوٹائی جائے گی، جب اُن کی خفیہ نیکیوں پر رب کھل کر فخر کرے گا۔ وہ دن ہے جس میں چھپے ہوئے آنسو، بےنام سجدے، اور دل کے درد سب حساب میں آئیں گے۔ تو جس رب کو ہم رحمان و رحیم کہتے ہیں، وہی ہمیں بتاتا ہے کہ وہ انصاف کا دن بھی لائے گا، ایسا دن جو نہ ظالم چھوڑے گا، نہ مظلوم بھولے گا۔ ایسا دن جب حقیقی انصاف کا سورج طلوع ہو گا، اور ہر روح کو اس کے عمل کا پورا بدلہ ملے گا۔ یہی احساس بندے کو عاجزی سکھاتا ہے، انصاف سے محبت، صبر کی طاقت، اور دل کی صفائی کا ذوق عطا کرتا ہے۔ یہ آیت انسان کو رب کی عدالت کا طالب بناتی ہے، ایسی عدالت جہاں انصاف تاخیر کا شکار نہیں ہوتا، جہاں رتبے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور جہاں فیصلے صرف حق کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ عدالت ہے جہاں عبد کو مکمل امن بھی نصیب ہو گا، اگر اس نے دنیا میں رب کے وعدے پر بھروسا رکھا، رب کی رضا کو ترجیح دی، اور اپنی بندگی میں اخلاص اختیار کیا۔

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 43 Articles with 15197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.