گزشتہ سال 2022 کو ، چین کی سفارتکاری میں نئی پیش رفت کے
حوالے سے خاصی اہمیت حاصل رہی ہے۔فروری کے بیجنگ سرمائی اولمپکس سے لے کر
سال کے اواخر میں مشرق وسطیٰ کے دورے تک چینی صدر شی جن پھنگ نے نہ صرف ملک
میں نئے اور پرانے غیرملکی دوستوں کا استقبال کیا بلکہ خود بیرون ملک جا کر
چین کا موقف اجاگر کیا۔دو ہزار بائیس کے آغاز میں منعقد ہونے والے بیجنگ
سرمائی اولمپکس اور پیرالمپکس نہ صرف کھیلوں کے میدان میں شاندار لمحات رہے
بلکہ انہیں چین کی سفارتکاری کے لئے بڑی اہمیت کا حامل قرار دیا جا سکتا
ہے۔ان گیمز کے دوران 31 ملکوں سے آئے ہوئے صدور، حکومتی سربراہان، شاہی
خاندان کے ارکان اور عالمی تنظیموں کے رہنما بیجنگ تشریف لائے اور وبا سے
متاثرہ دنیا کو امید اور اعتماد کا توانا پیغام دیا۔ دو ہزار بائیس میں
دنیا میں کووڈ۔19 کی وبا کا پھیلاو ،جغرافیائی سیاسی صورتحال میں کشیدگی
اور اناج، توانائی اور سلامتی کا بحران بھی دیکھا گیا، ان مسائل کے حل میں
چین کی جانب سے تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے اہم عالمی و علاقائی پلیٹ فارمز
پر مختلف حل پیش کیے گئے۔
اپریل دو ہزار بائیس میں شی جن پھنگ نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشٹیو کے بعد
بوآئو ایشیائی فورم کے موقع پر گلوبل سکیورٹی انیشیٹو پیش کیا جوکہ عالمی
امن و امان کے قیام کے لئے چین کا فارمولہ ہے۔جون دو ہزار بائیس میں برکس
سمٹ میں شی جن پھنگ نے چین کی جانب سے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشٹیو پر عمل درآمد
کے لئے 32 اہم اقدامات کا اعلان کیا۔پھر ستمبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے
سمر قند سربراہی اجلاس کے موقع پر شی جن پھنگ نے قازقستان اور ازبکستان کا
سرکاری دورہ بھی کیا جو کووڈ وبا کے آغاز کے بعد چین کے صدر مملکت کے پہلے
غیرملکی دورے ثابت ہوئے۔چودہ نومبر کو شی جن پھنگ جی 20 سمٹ میں شرکت کےلئے
انڈونیشیا پہنچے اور پھر تھائی لینڈ میں اپیک تنظیم کے سربراہی اجلاس سے
بھی انہوں نے اہم خطاب کیا۔سات تا دس دسمبر کو شی جن پھنگ نے چین عرب سمٹ
اور پہلے چین خلیج تعاون کونسل سمٹ میں شرکت کی اور سعودی عرب کا دورہ بھی
کیا۔عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد یہ چین کی جانب سے عرب دنیا کا اعلیٰ
ترین دورہ تھا۔
دو ہزار بائیس میں چین اور روس کے صدور کی بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کے
موقع پر ملاقات سے لیکر نومبر میں جزیرہ بالی میں چین اور امریکہ کے صدور
کی آمنے سامنے بات چیت تک اور پھر چین۔ فرانس اور چین۔ جرمنی کے رہنمائوں
کے درمیان روابط، ان بڑے ممالک کے ساتھ چین کی مشاورت اور بات چیت یہ ظاہر
کرتی ہے کہ وہ موجودہ عالمی صورتحال میں اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔
جزیرہ بالی میں چین اور امریکہ کے صدور کے درمیان بات چیت کے موقع پر شی جن
پھنگ نے اس بات پر زور دیاکہ دونوں فریقوں کو ہارجیت کی سرد جنگ کی ذہنیت
ترک کرکے محاذ آرائی کے بجائے گفتگو کا اصول قائم کرنا چاہیئے۔انہوں نے کہا
کہ عالمی برادری توقع رکھتی ہے کہ چین اور امریکہ دو طرفہ تعلقات بہتر
بنائیں۔فریقین کو دوسرے ملکوں کے ساتھ ملکر عالمی امن کےلئے امید، عالمی
استحکام کے لئے اعتماد اور مشترکہ ترقی کے لئے قوت محرکہ فراہم کرنا ہو
گی۔اسی طرح دو ہزار بائیس میں شی جن پھنگ اور یورپی رہنمائوں کے درمیان بیس
سے زائد مرتبہ ٹیلی فونک رابطے ہوئے اور بیجنگ میں انہوں نے جرمن چانسلر
اور یورپی کونسل کے چیئر مین سے بات چیت کی۔
اسی طرح سال 2022 میں چینی سفارتی اداروں نے دنیا میں سامنے آنے والے سلسلہ
وار ہنگامی واقعات سے نمٹا،سیکورٹی انتباہ جاری کیا،سنگین خطرات سے دوچار
علاقوں سے چینی شہریوں کا انخلا کیا اور مغوی شہریوں کو بچانے کی بھرپور
کوششیں کی گئیں۔180 ممالک میں 46 لاکھ سے زائد چینی باشندوں کی ویکسی نیشن
کی گئی اور مختلف پہلووں سے بیرون ملک چینیوں کو بھرپور مدد فراہم کی
گئی۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین کی سفارتکاری عوام کے لیے ہے اور بیرون ملک
چینی شہریوں کا تحفظ چینی سفارتکاری کی ذمہ داری ہے۔
آج عالمی صورتحال اور بڑے چیلنجز کے تناظر میں ، چین دنیا بالخصوص بڑے
ممالک کے ساتھ پرامن بقائے باہمی پر مبنی مستحکم اور متوازن تعلقات کو آگے
بڑھانے کی کوشش کرہا ہے جوکہ موجودہ حالات میں چین کی ایک بڑے ملک کی حیثیت
سے ذمہ دارانہ رویوں کی عکاسی ہے۔ دو ہزار تیئس میں بھی چین کی سربراہی
سفارتکاری کا تسلسل جاری رہنے کی توقع ہے اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ چین
کے نئے دوستوں کی تعداد میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ پرانے دوستوں کے ساتھ
دوستی مزید مضبوط ہوگی ، جو یقیناً دنیا میں ترقی اور استحکام کا باعث ہو
گی۔
|