پاکستان تاریخ کے مشکل ترین اور پیچیدہ دور سے نبرد آزما
ہے، معاشی اور معروضی چیلنجز کی وجہ سے مملکت پاکستان کو مسائل کی دلدل سے
نکلنے کیلئے اس وقت مخلص حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بااعتماد دوستوں اور قابل
بھروسہ پڑوسیوں کی ضرورت ہے جو مشکل حالات میں پاکستان کے دست و بازو کی
طرح مسائل کی اس دلدل سے نکلنے کیلئے سہارا بنیں۔
قابل تشویش بات تو یہ ہے کہ پڑوسیوں کی بات کریں تو بھارت کے ساتھ ساتھ
افغانستان اور ایران بھی ہم سے نالاں ہیں اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ
دوست تو بدلے جاسکتے ہیں لیکن ہمسائے تبدیل نہیں کئے جاسکتے اورجب پڑوسیوں
کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوں تو اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ بیرونی چیلنجز
مزید سنگین صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے ساتھ پڑوسیوں سے تعلقات کو
معمول پر لانے کیلئے جو اعادہ کیا ہے وہ قابل ستائش اقدام ہے، وزیراعظم
پاکستان شہباز شریف کی طرف سے اپنے دیرینہ حریف بھارت کو سنجیدہ مذاکرات کی
دعوت معروضاتی اور ماحولیاتی حالات کے تناظر میں انتہائی معنی خیز ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ پیغام
بھجوایا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کیلئے تیار ہے اور
اطمینان کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے
5 اگست کے اقدام کو مذاکرات میں سر فہرست رکھا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بھارت کے ساتھ مسائل کے حل کیلئے صرف دوطرفہ کوششیں
ہی نہیں کیں بلکہ دوست ممالک کو بھی شامل کرکے دیکھ لیا لیکن بھارت اپنی ہٹ
دھرمی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے درست فرمایا کہ
پاکستان اور بھارت ایٹمی قوتیں ہیں اور ماضی میں 3 جنگیں بھی لڑچکے ہیں
لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے شملہ معاہدے میں متحدہ عرب امارات کی معاونت کا
تذکرہ کرکے انتہائی دانشمندانہ بات کی اور اس وقت خطے کی صورتحال خاص طور
پر خلیجی ریاستوں کے بھارت کے ساتھ مراسم کو دیکھتے ہوئے ایسے وقت میں جب
ہمارا انحصار سعودیہ اور دیگر عرب ریاستوں پر بڑھ چکا ہے ایسے میں دیرینہ
دوستوں کی بھی خواہش ہوسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو
معمول پر لایا جائے۔
عرب ریاستوں کے امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ساتھ بہت گہرے مراسم ہیں اور
خطے میں چین کے بڑھتے قدموں اور اثرو رسوخ کو روکنے کیلئے امریکا پس پردہ
پوری طرح کوشاں ہے اور عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں عرب ممالک بھی
پاکستان پر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے اثر انداز ہونے کی کوشش
کرسکتے ہیں، اس لئے پاکستان کو اپنے پتے بہت احتیاط اور دانشمندی سے کھیلنے
کی ضرورت ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ بھارت میں انتہا پسندی کی آگ بڑھتی جارہی ہے اور تعصب کے
شعلے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں تاہم اس کیلئے او آئی سی اور
دیگر پلیٹ فارمز موجود ہیں جبکہ او آئی سی چارٹرکا آرٹیکل 10 بہت واضح ہے
کہ اگر مسلمانوں پر کوئی کڑا وقت آن پڑے اور مسلمانوں کیخلاف وحشیانہ ظلم
و ستم ڈھائے جائیں یا مساجد شہید کی جائیں تو اسلامی تنظیم کے خصوصی اجلاس
بلائے جاسکتے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلم امہ کی جانب سے او آئی سی کے آرٹیکل 9 اور
10 کے تحت سربراہان کا خصوصی اجلاس بلانا تو دور کی بات ہے بھارت میں
مسلمانوں کے ساتھ روا وحشیانہ سلوک پر دو لفظ مذمت کے بھی سننے کو نہیں
ملے۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنی مذہبی آزادیوں کی ایک
رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا احاطہ کیا لیکن مسلمان
ممالک سے کوئی آواز نہیں آئی۔
کانگریس اوربھارت کی بعض اپنی سیاسی جماعتیں اور سنجیدہ حلقے بھارت میں
مسلمانوں کے ساتھ جاری ظلم و ستم پر ملک کے سیکولر تشخص پر سوال اٹھارہے
ہیں اور بین الاقوامی فورمز پر بھی اس حوالے سے بحث جارہی ہے لیکن آر ایس
ایس کی طاقت کے سبب بی جے پی کی حکومت کے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے ہندو
توا کی ترویج اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مودی حکومت اور آر ایس ایس کی آپس میں ہم
آہنگی ہے اور اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آر ایس ایس کے عناصر حکومتی
وسائل کا بھی استعمال کرتے ہیں لیکن حالات اس نہج پر پہنچتے دکھائی دیتے
ہیں کہ شائد بھارت کے اندر سے ہی شعلہ اٹھے گا جو ظلم کی دیوار کو تہس نہس
کردے گا۔
بقول شاعر:
ظلم و تعدی جبر و ستم
شاہی آقائی کتنے دن
جو اپنی جڑ چھوڑ چکیں
گرنا ہے ان دیواروں کو |