عالمی میڈیا اور انڈین زرائع
ابلاغ میں کئی دنوں سے کرپشن کے خلاف13 روزہ بھوک ہڑتال کرنے والے انڈین
سماجی کارکن انا ہزارے کا تذکرہ و مباحثہ زور شور سے جاری ہے۔ بھارتی سرکار
نے پہلے اناہزارے اور کارکنوں پر ریاستی طاقت کا بہیمانہ جبر کیا مگر
اناہزارے اور اسکے پیروکار نوجوانوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں
آئی۔13 ویں دن بھارتی پارلیمان اور حکومت کو سرنڈر کرنا پڑا۔انکے تینوں
مطالبات تسلیم کرلیے گئے۔بھارتی پارلیمان نے بال لاک بول بل میں اناہزارے
کے تینوں نقاط شامل کر دئیے.۔13 روزہ بھوک ہڑتال کے بعد انکا سات کلو وزن
کم ہوگیا۔اناہزارے کی تحریک نے بھارتی ایوانوں میں تھرتھلی مچادی۔بھارتی
سول سوسائٹی نے اناہزارے کی دامے درمے سخنے حمایت کی۔کیا پاکستان میں کوئی
انا ہزارے بن سکتا ہے؟ کیا پاکستان میں ایسی تحریک چل سکتی ہے جو انا ہزارے
کی طرح کرپشن کے خاتمے کے یک نکاتی ایجنڈے پر مشتعمل ہو۔یہ وہ سوال ہیں جو
نوجوانوں کے دلوں میں دھڑک رہے ہیں۔ شبلی نعمان کا جملہ ہے کسی انسان کی
صداقت مقبولیت اور عظمت کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ افسانوی کردار بن جائے۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ اناہزارے دور حاظر کا افسانوی کردار ہے۔وہ
پچھلی چار دہائیوں سے لگن اخلاص عزم صمیم سے سماجی اور معاشرتی استحصال کے
خلاف مشتاق شیر کی گھن گرج سے جنگ کررہا ہے۔یہ اسکی کرشماتی شخصیت کا خاصہ
ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے مختلف مذاہب کے ثناخواں دائیں بازو کے ہندوؤں
سے لیکر لبرل اور سیکیولر ہندووں تک مسلمانوں سے لیکر عیسائیوں تک کی حمایت
عقیدت اور ریاضت سے مالا مال ہے۔اناہزارے نے اپنی تخلیقی قابلیت اور جدوجہد
کے بل بوتے پر اپنے گاؤں کی قسمت سنوار دی۔یہ گاؤں رول ماڈل کی شکل میں
دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا اعزاز حاصل کررہا
ہے۔اناہزارے نے گاؤں والوں اور کسانوں کی سوچ بدلی تاکہ وہ حکومتی مشینری
کی بجائے اپنی قوت شاقہ سے خود کفیل ہوں۔ اناہزارے کی ترغیب پر آبپاشی کے
پانی کی کمی کو پورا کرنے کی خاطر پہاڑ سے نیچے آنے والے پانی کو سٹور کرنے
کی خاطر ڈیم بنایا جس نے زرعی خوشحالی کا ڈنکا بجادیا۔انا ہزارے نے مقامی
لوگوں سے چندہ اکٹھا کیا اور ایک بنک کی بنیاد رکھی جو کسانوں اور جوانوں
کو روزگار کی خاطرقرضے فراہم کررہا ہے۔ انا کی کاوشوں سے گاؤں میںدودھ کی
فروخت کا مربوط نظام قائم ہوا جس سے لوگوں کی آمدنی بڑھ گئی۔اپنی مدد آپکے
تحت پختہ گلیاں ہیلتھ یونٹ اور سکول قائم ہوئے۔یوں ایک ایسا گاؤں جہاں ہر
وقت غربت بھوک و ننگ کا عفریت جوبن پر ہوا کرتا تھا اب وہاں خوشحالی اور
ہریالی کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔بھارتی قوانین کی رو سے شراب اور سگرٹ نوشی
اور شراب نوشی پر پابندی نہیں۔انا ہزارے نے نوجوانوں کو ہر قسم کے نشے اور
شراب نوشی سے دور رکھنے کی مہم چلائی۔گاؤں میں نشے اور شراب کی فروخت پر
پابندی عائد کردی۔شراب افیون گانجا چرس بیچنے والوں کو متبادل روز گار
فراہم کیا۔انارے کا ماڈل ویلج دنیا کا واحد گاؤں ہے جہاں کوئی نشہ نہیں
کرتا۔گاؤں میں روزانہ چوپال اور پنچائیت کا دربار سجتا جہاں ایک طرف مسائل
کا متفقہ حل تلاش کیا جاتا تو وہاں سارے ملکر ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں
برابر کے حصہ دار بن جاتے۔گاؤں کی بیٹیوں کے جہیز کا سارا بندوبست مقامی
باشندوں کے سپرد تھا۔اناہزارے کا جذبہ میڈیا کی انکھ میں بند ہوا تو بھارت
کے کئی دیہاتوں کو اناہزارے کی تخلیق کا شاہکار بنایا گیا۔وہ چاہتا تو آزاد
حثیت میں ریاستی یا قومی اسمبلی کی نشست آسانی سے جیت سکتا تھا مگر وہ کبھی
اقتدار کا رسیا نہیں رہا۔ہزارے نے عوامی ریلیف کے لئے ریاستی قوانین میں
ترامیم منظور کروائیں۔اناہزارے نے کرپشن کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی اور
سخت احتساب بل منظور کرنے کا مطالبہ کیا۔اناہزارے کی مہم کو ملک گیر شہرت
میسر آئی۔بھارتی سماج میں نظریاتی افکار کا تسلسل آج بھی موجود ہے۔پاکستان
کی دینی جماعتیں نظریات کا واویلہ مچاتی رہتی ہیں مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ
ان میں کئی خرابات در آئے اور یوں نظریات کا اثاثہ بکھر گیا۔بھارت میں
صورتحال کچھ بہتر ہے اگرچہ کنزیورازم اور کارپوریٹ پریشرسیاست میں کافی
دخیل ہوچکے مگر گاندھی کے خواجہ سراپھر بھی نظریات کا پالنہارکرنے میں کسی
غفلت کے مرتکب نہیں ہوتے۔بنگال اور کیرالہ میں کیمونسٹ برسراقتدار رہے ہیں۔
سابق الیکشن میں انہیں شکست ہوئی مگر بنگال میں ممتا بینرجی ایسی نظریات
پرست رہنما نے اقتدار کی طنابیں تھام رکھی ہیں۔بی جے پی کی اندرونی حالت
بگڑی ہوئی ہے مگر اس میں واجپائی ایسے کلین لیڈر موجود رہے ہیں۔کانگرس میں
گاندھی کے فلسفہ تشدد کو ماننے والے موجود رہے ہیں۔مہاتما بھگت گاندھی کے
نام سے مشہور جے پر کاش نارائن نے اندرا گاندھی کے امرانہ دور میں جس دیدہ
دلیری سے سرکاری مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ ہوا اس نے بھارت کی ایک پوری نسل کو
متاثر کیا۔بھارت کے جمہوری سیٹ اپ ایجنسیوں اور میڈیا نے گاندھی کا فلسفہ
عدم تشدد کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔فلموں میڈیا اور اخباراتک کے زریعے
سرسبز و شاداب رکھنے کی مساعی جلیلہ ہوتی رہتی ہے۔بھارتی دانشور بڑی زہانت
سے گاندھی جی کے انداز سیاست کو قارئین اور ناظرین کے عقل و خرد میں راسخ
کردیتے ہیں کہ یہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا جاتا ہے۔بھارتی میڈیا
پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور مثبت افعال کا مجموعہ ہے۔ہمارا
میڈیا مقبولیت کی جانب رواں ہونے والے سیاست دانوں دانشوروں لکھاریوں اور
قد اور شخصیات کو کٹ ٹو سائز کرنے میں طاق ہے۔ میڈیا مقبول راہنماؤں کے
دامن پر کالک مل کر اسکی راہ میں روڑے اٹکاتا رہتا ہے میڈیا کی نوازش کی
بدولت آج پورے ملک میں ایک بھی غیر متنازع لیڈر مذہبی رہنما اور نیوٹرل
سیاست دان موجود نہیں۔بھارت میں پاکستان کی طرح نامور شخصیات کے خلاف میڈیا
وار نہیں چلائی جاتی۔اناہزارے کی کامیاب جدوجہد کا اہم ترین فیکٹر سول
سوسائٹی ہے۔ انڈیا میں اناہزارے اور سول سوسائٹی کی کامیابی کے لئے جس
سٹرکچر کی ضرورت ہے وہ موجود ہے جن میں مضبوط عدلیہ نظریاتی کارکن جمہوری
استحکام فعال میڈیا اور مذدوروں کی منظم ٹریڈ یونینز شامل ہیں۔بھارت نے اس
سمت برسوں پہلے سفر شروع کیا تھا۔بھارت میں کروڑوں نوجوان ایسے ہیں جو
کمپیوٹر سے چمٹے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ تبدیلی انقلاب کی ہانک مارنے کی
بجائے اداروں کو مضبوط بنانے کی شکل میں رونما ہوتی ہے۔ بھارت کی سول
سوسائٹی اور نوجوانوں اگر کمٹڈ نہ ہوتے تو بھارت میں نہ تو انڈین ہسٹری کا
سب سے بڑا سیکنڈل منظر عام پر اتا اور نہ ہی اناہزارے کی تحریک کو مطلوبہ
اہداف مہیا ہوتے۔ پاکستان میں بار بار آمریت مسلط ہوتی رہی جس نے ایک طرف
جمہوری اداروں کا حشر نشر کر ڈالا بلکہ ہماری سول سوسائٹی مریضانہ سوچ اور
زہنی خلجان میں مبتلا ہوگی۔ فوجی جرنیلوں نے قوم کو نسلی گروہی تفرقہ پرستی
اور مذہبی تضادات میں الجھادیا۔ ہم خود ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں۔ ہماری
قومی یکجہتی پاش پاش ہوچکی۔ادارے تباہی کے دہانے پر غرا رہے ہیں۔پاکستان
میں اس وقت تک نہ تو اناہزارے کا ظہور ہوسکتا ہے اور نہ ہی سول سوسائٹی کچھ
کرنے کی صلاحیت ہے جب تک سول سوسائٹی مکان و زماں کی قید سے بالاتر ہوکر
اپنی صفوں میں اتفاق اتحاد نظم وضبط پیدا کرنے کی اہلیت حاصل نہیں کرپاتی۔
جس روز ہماری سول سوسائٹی انتشار کی زد سے نکل کر ایک قوم کا روپ نہیں
دھارلیتی۔جس روز یہ انہونی ہوگئی تو فطرت یذداں ہمیں ایک کی بجائے ہزاروں
اناہزارے عطا کردے گی۔ |