الیکشن کی کرشمہ سازی٬
مبغوض مسلم بستیاں ہو جاتی ہیں محبوب
یوپی میں بچھنے لگی ہے سیاسی بساط ۔ ہرپارٹی اپنی اپنی ڈفلی اوراپنے اپنے
راگ کے ساتھ گزشتہ پانچ سالہ خواب خرگوش سے بیدا رہورہی ہے۔ زمانہ الیکشن
کے قریب آتے ہی دھما چوکڑی اورہڑ بونگ سے فضا مکدر ہونے لگی ہے ۔ پارٹیوں
کی تجوریوں کے بند منہ کھلنے لگتے ہے ۔ نوازشوں ، عنا یتوں اور کرم
فرمائیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوتاہے جس کی مثال گزشتہ پانچ برسوں میں دور دور
تک نہیں تک نہیں ملتی ہے ۔شہر کیا ،دیہی علاقوں کی گلیوں تک کا اربابِ
سیاست طواف کرتے نظرآتے ہیں ۔ حریف پارٹیوں کو نیچا دکھانے کے لئے ہر چوک
چوراہے پر پروگرام منعقد کرکے عوام کا سرمایہ پانی کی طرح بہاتے ہیں ۔
ووٹروں کو لبھانے کے لئے دلکش تقریروں اوردلنواز وعدوں کا بازار گرم ہوجاتا
ہے ۔ان کے سامنے اپنے عوامی خدمات کے داعیہ وجذبات کے وہ کرشمہ دکھاتے ہیں
کہ پتھر دل بھی موم ہوجائے اوران کے بھولے پن پر جاں نثار کردے ۔ یوپی میں
بھی بس یہ موسم آیا ہی چاہتاہے یا یو ں کہہ لیجئے کہ آہی گیا ہے ۔ پارٹیاں
ابھی سے جوڑ توڑ کی سیاست میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔ معمولی معمولی خدمات کی
یا د دہانی کرواکے ووٹرو ں کے دلوں کو ملتفت کرنے کی مہم شروع ہوچکی ہے ۔
سب سے زیادہ اس پر تعجب خیز حیرت ہوتی ہے کہ سیاسی لیڈران کی آمد و رفت
مسلم بستیوں میںتیز ترہوجاتی ہے ، جبکہ عام خیال یہ ہوتاہے کہ وہاںصفائی
ستھرائی کا صحیح انتظام نہیں ہوتاہے ، تعلیم وتعلم کا معقول نظم ہوتاہے اور
نہ ہی بجلی اوربینکنگ سہولت ہوتی ہے ۔ باوجود ان تمام خرابیوں کے مسلم
بستیاں زمانہ الیکشن میں ارباب ِسیاست کو کیوں محبوب ہوجاتی ہیں ؟کیوں وہ
اس زمانہ میں ان بستیوں کو اپنا مطمح نظر سمجھتے ہیں ؟ سب سے بڑا سوال یہ
ہوتاہے کہ یہ محبوب بستیاں الیکشن کے بعد کیوں انہیں اس درجہ مبغوض نظرآتی
ہیں کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے تئیں بھی خاموش رہتے ہیں ۔
آئیے ! آپ کو ایک ایسے مسلم محلہ لے چلتے ہیں ،جہاں کے باشندگان بنیادی
سہولتوں سے یکسر ہی محروم ہیں ۔ اربابِ سیاست صرف اور صرف زمانہ الیکشن میں
ہی ان کے پاس آتے ہیں اوروعدوں کے سبز باغ دکھاکر اپنا الو سیدھا کرجاتے
ہیں ۔ سب سے تعجب کی بات تویہ ہے کہ یہ محلہ کسی دیہی علاقے کا نہیں ، بلکہ
اترپردیش کی راجدھانی لکھنو شہر سے کوئی دس پندرہ کلو میٹر کے فاصلہ پر
’کیمپل روڈ محلہ حاجی ٹولہ ‘واقع ہے ۔ راجدھانی سے اتنا قریب ہونے کے
باوجود یہ محلہ حکومت کی سر د مہری کا شکارہے ، تعصب وتنگ نظری کے جال میں
پھنسا ہواہے ، بنیادی سہولتوںسے محروم ہے تو دیہی علاقوں کی کیا صورتحال
ہوگی ؟ وہاں کی مسلم بستیوں میں بنیا دی وسائل کا کس قدر فقدان ہوگا ؟ وہاں
کے باشندے کس کسمپرسی اوربدحالی میں زندگی گزار رہے ہوں گے ،اس کا اندازہ
بھی محا ل ہے ۔ کیمپل روڈٹولہ حاجی محلہ میں تقریباًٍ سات آٹھ سو ایسی
جھونپڑیاں ہیں جن کے باشندوں کی معاش کا تمام تر انحصار ”بندرنچانے ،
انگوٹھی کے نگینے کی خرید و فروخت اور آڑی زردوزی “ پر ہی ہے ۔یہ تینوں
ایسے ذریعہ معاش ہیں جن میں کوئی ”مستقبل “ تو کجا دو وقت کی روٹی پرآفت
ہوتی ہے ۔ جہانتک بندرنچانے والو ں کا تعلق ہے تو اکثر صبح سے شام تک
اتنابھی کما نہیں پاتے ہیں کہ ایک دن کامکمل خرچ چل سکے ۔ اسی طرح آڑی
زردوزی کے فنکار ، آٹھ دس گھنٹے کی نفری میںبہت کمایاتو کل 70,80روپئے ۔
انگوٹھی کے نگینے فروخت کرنے والوں کاتو بس اللہ ہی حافظ کہ کبھی کمایاتو
کبھی پورے دن کی محنت رائےگاں ۔ لکھنو ،جو کہ اترپردیش کی راجدھانی ہے،کے
بیشتر باشندگان کی معاش کا انحصار آری زردوزی ، پتنگ کے دھاگے اورانگوٹھیوں
کے نگینوں کے خرید و فروخت پر ہی ہے ۔
اربابِ سیاست کی نظر کے مبغوض اس محلہ حاجی ٹولہ کے ایک زردوزی کے فنکار
کہتے ہیں :”گزشتہ کئی ماہ سے ہمارے کام کی صورتحال انتہائی خراب ہے ، چالیس
پچاس روپئے پیدا کرنا بھی محال ہے ۔ 2010میں حکومت کی جانب سے ہم فنکاروں
کو کارڈدئے گئے اور حسین وعدے بھی ہوئے ،مگر اس سے اب تک کچھ کامطلب کچھ
بھی نہیں ہواہے “۔
اس محلہ میں رہائش کی جگہ کی کتنی قلت ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ
کوئی تین چار ماہ قبل راقم کے کسی شناشا نے اس محلہ میں جاکر کرایہ کی جھگی
کے بابت دریافت کیا تو ایک فردآب دیدہ سے ہوکر خاموش ہوگئے ۔
راقم نے وہاں جاکر چندافراد سے ملاقاتیں کی اور صورتحال کا جائزہ لیاتو
متعددپریشانیاں سامنے آئیں ،جوکہ بنیادی ضروریات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جن
میں سے تعلیم وتعلم ،صفائی ستھرائی اور جگہ کی قلت سرفہرست ہے ۔ انگوٹھیوں
کے نگینے فروخت کرنے والے ننھے شاہ کہتے ہیں ”بہت سی پریشانیوں میں ’نالی
کی صفائی ‘کا مسئلہ بڑی پریشانی ہے ۔ صفائی ملازمین کو ئی آٹھ دس دنوں میں
ایک بار آکر خانہ پری کرتے ہیں ، ہم لوگوں کے لاکھ کہنے پروہ نہیں مانتے
ہیں ۔ نالی کی گندگی کی وجہ سے آئے ہم نت نئے بیماریوں کے شکار رہتے ہیں
،اشیائی خوردونوش کی بڑھتی قیمت کے ساتھ ساتھ علاج ومعالجہ ہمارے لئے جوئے
شیر لانے کے مترادف ہی ہے “۔ جب دوسرے صاحب سے مخاطب ہوکر راقم نے بات کرنے
کی کوشش کی تو وہ کہنے لگے: ”ہم سے کیا پوچھتے ہیں اورپوچھ کرہی کیاکریں گے
، یہاں توآ پ جیسے آتے جاتے رہتے ہیں ، ہم سے مسائل دریافت کرتے ہیں ،تصفیہ
کا وعدہ کرتے ہیں ،مگر کبھی ہوتا کچھ نہیں تو اب کیاہوگا “۔
تعلیم و تعلم کے موضوع پر مشترکہ طورپر گفت وشنید کی تو یہ پتہ چلا: ”تعلیم
کے لئے کوئی خاص جگہ ہے اورنہ ہی مخصو ص ٹیچر ۔ تعلیم جو بھی ہوتی ہے وہ
”وقفہ وقفہ“سے ، وقفہ وقفہ ہونے کی دراصل دو وجہیں ہیں ، (۱)کوئی تعلیم گاہ
ہے اورنہ ہی کوئی ٹیچر (۲)جب کبھی تعلیمی سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ٹیچر کی
آمد ورفت میں تساہلی۔ تعلیم جو وقفہ سے ہوتی ہے اس میں وگیان فاﺅنڈیشن
اورلندن کی کمپنی واٹاریٹ کی بڑی امداد ہوتی ہے ۔ کیونکہ یہ فاﺅنڈیشن
مذکورہ کمپنی سے حاصل شدہ رقم سے کوئی چارپانچ ماہ کے لئے ٹیچر رکھتاہے
اورجب مالی تعاون کاسلسلہ تھم جاتاہے تو لامحالہ ٹیچر کی چھٹی کرنا ہی پڑتی
ہے ۔ اوریہ بھی واضح رہے کہ کسی کرایہ کے مکان پر ٹیچر کو رکھ کر تعلیمی
سرگرمی شروع کی جاتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے تعلیم کے نام پرکوئی انتظام
کبھی بھی نہیں ہوتاہے “۔
ان جھونپڑی باشندگان کے لئے بنے مشترکہ بیت الخلا ءکے بابت دریافت کرنے پر
ان کے قائدگلزاراحمد نے بتایا:”ان تمام بیت الخلا ءکی تعمیر پر ہم باشندگان
سے صرف350روپئے لئے گئے اور مزدوری کے علاہ بقیہ اخراجات کی ذمہ داری
واٹاریٹ کمپنی نے لی ۔ مگر زمانہ الیکشن میں آنے جانے والے سیاستدانوں نے
سرکاری فنڈ اوراسکیموں سے فائدے اٹھانے کا کبھی موقع ہی نہیں دیا “۔ بندر
نچانے والے ایک فرد کاکہنا ہے ”بھالو نچانے کا کام ہم کئی پشتوں سے کرتے
چلے آرہے تھے ، مگر آگرہ اورکئی شہروں سے مینکاگاندھی نے اسے چھینوا کر
گویا ہمیں معاشی اعتبار سے اپاہچ کردیا ہے ، بندر نچانے سے کہیں زیادہ بہتر
ہمارے لئے بھالو نچا ناتھا ،انصاف کی بات تو یہ تھی کہ ہمارے پیشہ پر لات
مارنے والوں کو ہمیں ملازمت دینی چاہئے ، تاکہ ہم اپنی زندگی کسی طرح گزار
لیں “۔
جی ! یہ ہے اترپردیش کا کڑوا سچ ، یہ ہے یہاں کی موجود ہ حکومت کے نعرہ
”سروجن ہتائے اورسروجن سکھائے “پر بد نما داغ ، یہ ہے اترپردیش حکومت کی
مسلم دوستی پر سوالیہ نشان ، یہ ہے یہاں کی حکمراں جماعت کی اسکیموں پر
کلنک ۔ یہاں کی موجودہ حکومت کی سربراہ مایاوتی نے نہ جانے کتنی نامور
ہستیوں سے منسوب اسکیمیں بنائی ہیں ،تاکہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے
والوں کی مدد کی جاسکے ،ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کی جاسکیں ،ان کے دکھ
درد میںسہارا بنا جاسکے ، یہ چنداسکیمیں مندرجہ ذیل ہیں ، اگر ان اسکیموں
سے واقعی انہیں فائدہ پہونچانا مقصو ہوتا تو راجدھانی سے اتنے قریب محلہ کی
یہ صورتحال نہ ہوتی ۔
(۱)ڈاکٹر امبیڈکر گرام سبھا ترقی اسکیم
(۲)ساوتری بائی پھلے بالیکا تعلیمی مدد
(۳)مہامایا غریب بالیکا آشیرواد اسکیم سروجن ہتائے
(۴)شہری غریب مکان(سلم ایریا )مالکانہ حق اسکیم
(۵)مانیور شری کا نشی رام جی شہر ی غریب آواس اسکیم
(۶)مہامایا آواس اسکیم
(۷)مہامایا سروجن آواس اسکیم
(۸)نجی ٹیو ویلوں کی بجلی لگانے کی نئی اسکیم
(۹)ڈاکٹر امبیڈکر مفت بو رنگ اسکیم
(۰۱)اتر پردیش وزیر اعلی مہا مایا غریب مالی مدد اسکیم
(۱۱)ڈاکٹر امبیڈکر زراعت بجلی سدھا ر اسکیم
(۲۱)اتر پر دیش مفاد گارنٹی قانون
یہ بات تو انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ان اسکیموں کی تشہیر کے لئے ریاست کی
وزیر اعلیٰ کی جانب سے کروڑ ہا کروڑ روپئے خر چ کئے گئے ،ہر موقعہ تیج و
تہوار اورجشن پر ان کی تشہیر روزنامے ، ٹیوی اور ہورڈنگس کے ذریعہ خوب
ہوئی۔ اگر واقعی بشاشت قلبی سے اشتہار کے ان سرمایوں سے ان جیسے محلوں کے
مسائل کے تصفیہ کے لئے اقدامات کئے جاتے تو یہ مفلوک الحال بخوشی زندگی
گزارتے ، انہیں رہائش کے لئے مکان مل جاتے ، تعلیم و تعلم کا صحیح انتظام
ہوجاتا ، صفائی ستھرائی منظم طریقہ سے ہوتی ،مگر ہائے !!!
فی الواقع اربابِ سیاست کی مسلم بستیوں سے زمانہ الیکشن کے علاوہ بے
اعتنائی قابل گرفت ہے ، اگر یہ افراد گاہِ بہ گاہِ ان محلوںمیںآکر مفلوک
الحال عوام سے گفت وشنید کریں اوران کے مسائل ایوان اقتدار تک پہونچاکر صدق
دلی سے ان کے تصفیہ کے لئے اقدام کریں تو مسلم علاقوں کے نظارے کچھ اورہی
ہوں گے ۔ ہے نا ایسا جائیں گے نا اب سنیں گے نااب ان کی باتیں خدارا سن
لیجئے ، جی سن لیجئے !! |