کچھ افراد نشہ کرتے ہوں اور آپ اُن کے ساتھ رہنا شروع کر
دیں۔ یا ایسے لوگ جو کام چور ہوں اور آپ کا زیادہ تر وقت اُنہی کے ساتھ
گزرتا ہو۔ ایسے حضرات جو مکار یا عیار ہوں اور آپ کو اُن کی صحبت میں رہنے
کا اتفاق ہو۔ اگر آپ جگت بازوں کے ساتھ رہیں تو کیا ہو گا؟اچھا اس طرح کہہ
لیتے ہیں کہ اگر آپ کا بہت ہی تخلیقی ذہن کے لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا
ہو۔ یا آپ ایسے لوگوں کی کمپنی میں رہتے ہوں جو خیر خواہی اور خدا ترسی میں
اپنی مثال نا رکھتے ہوں۔ فرض کریں آپ کو ایسے لوگوں کی صحبت ملتی ہے جو ہر
وقت مسکراتے، ہنستے اور خوش رہتے ہیں۔ اگر آپ کا زیادہ تر وقت شاعروں کے
ساتھ گزرنے لگے، سنجیدہ لوگوں کی صحبت، صابر شاکر اور ناشکرے لوگوں کی
کمپنی، احمقوں اور عقل مندوں میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ ہر آزمائش کا جرأت
اور بہادری سے مقابلہ کرنے والے اور ہر مشکل کی گھڑی میں پسپائی اختیار
کرنے والے، آرام پسند، سہل پسندی پر مرنے مٹنے والے یا محنتی اور جفا کشی
کے جذبے سے سرشار، آرٹسٹ، لکھاری، ماہر معاشیات، دانشور، وکیل، آرمی آفیسر،
کسان، استاد یا ہم نے دیگر شعبوں میں جانا ہے۔ یہ مقام جگہ اور اُس عہدہ کا
تعین اکثر اوقات وہ کمپنی یا صحبت کرتی، جس میں ہم اکثر وقت گزارتے ہیں۔
دراصل اچھی صحبت میں رہنے والوں میں بہت سی اچھی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ جب
آپ زندگی میں کوئی کمال کرتے ہیں تو وہ اُن لوگوں کی سوچ، ذہانت اور خلوص
کا کمال ہے، جن کے ساتھ آپ نے وقت گزارا ہے۔
خوشاب کی تحصیل نور پور تھل کی گود میں ایک گاؤں ہے جسے پیلو وینس کہا جاتا
ہے۔ یہ عجیب کرشماتی گاؤں ہے کہ بنیادی سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود یہ
تعلیم یافتہ افراد کی ایک کھیپ تیار کر رہا ہے۔ پاکستان کے اس عجیب و غریب
گاؤں میں سبھی لوگ تعلیم کے بھوکے ہیں۔ کھانے کو کچھ نہ ملے، پینے کو کچھ
نہ ہو مگر تعلیم ضرور حاصل کرنی ہے۔ پڑھنا ضرور ہے۔ یہاں کی مائیں اپنے
بچوں کو عجیب مثالیں دیتی ہیں۔ وہ دیکھا تم نے حاجی بشیر کا بیٹا جج بن گیا
ہے۔ ماسٹر طفیل کا بیٹا سی ایس پی افسر بن گیا ہے۔ سکینہ کا چھوٹا بیٹا ایف
بی آر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ امین کا بڑا بھائی لاہور میں بہت بڑا وکیل
ہے۔ ماسی اللہ وسائی کے تینوں بیٹے مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔
حیرت ہے!
کون لوگ ہیں یہ؟ کیا چاہتے ہیں یہ؟ کس نے انہیں بتا دیا کہ تعلیم لائف لائن
ہے۔ کون انہیں اعلیٰ تعلیم پر اُکسا رہا ہے؟ کیسے انہیں پتہ چل گیا کہ
تعلیم کامیابی کی کنجی ہے؟ یہ کیسے جان گئے کہ جس تعلیم کے گھوڑے پر یہ
سوار ہو نگے، وہ سیدھا انہیں اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر جا بٹھائے گا۔ اِس
بھید کو کس نے اِن پر کھولا کہ تعلیم کے ذریعے ملنے والی کامیابی آسائشوں
اور زندگی کی اَن گنت نعمتوں سے مالا مال کر دے گی۔ یہ وحی اِن دیہاتیوں پر
کیسے نازل ہوئی کہ جہالت زحمت اور تعلیم رحمت ہے۔
یہ پیلو وینس گاؤں کے خبطی استاد ہیں۔ یہ یہاں کی وکھری مائیں ہیں۔ یہ اس
گاؤں کے محنتی باپ ہیں جو خود تو کاشت کاری کرتے ہیں مگر اپنے بچوں کو
کھیتوں میں کام کرنے کی بجائے سکولوں میں بھیجتے ہیں۔ یہاں کے لوگ روایتی
پیشوں سے وابستہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے روائتی انداز میں
سوچنے کے قائل نہیں ہیں۔ اِنہیں تعلیم کی ضرورت کا ادراک ہے۔یہ اپنے بچوں
کو صاف ستھرا ماحول ہی نہیں بلکہ اِنہیں ایسے شعبوں اور ایسے عہدوں پر فائز
دیکھنا چاہتے ہیں جہاں سے یہ اپنے ملک کی قیادت کر سکیں۔ پاکستان کی ترقی
میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ پیلو وینس گاؤں کے آج دو درجن سے زائد بیٹے پاکستان
کی مختلف عدالتوں میں ججز کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ 80سے زیادہ
وکلاء اور درجنوں نوجوان مقابلے کے امتحانات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
یہ گاؤں ایک چھوٹی سی مثال ہے ہم سب کیلئے۔ تمام صوبوں، شہروں، قصبوں اور
دیہاتوں کیلئے منفرد اور انوکھی مثال۔ اگر پاکستان کے اس گاؤں میں شرح
خواندگی سو فیصد ہو سکتی ہے تو باقی تمام ملک میں کیوں نہیں ہو سکتی؟ جہالت
کو پچھاڑنے کا کارنامہ یہ گاؤں سر انجام دے سکتا ہے تو دوسرے گاؤں اِس کی
پیروی کیوں نہیں کرتے،ہاں اس پیروی کیلئے ہمیں تسلیم کر نا ہوگا کہ ہم نے
اپنی تعلیمی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتی ہے۔ والدین نے، اساتذہ نے،تعلیمی
وزارتوں نے سب کو سب نے مل جل کر چونا لگایا۔ کبھی پڑھا لکھا پنجاب، کبھی
تعلیم سب کیلئے، کبھی تعلیم ضروری ہے اور اس جیسے جانے کتنے ہی تشہیری
کھوکھلے نعروں پر کروڑوں روپے تو خرچ کردئیے، لیکن اُن کروڑوں اربوں سے
تعلیم کے شعبے میں اصلاحات نہ لا سکے۔ خوشاب کے اس عظیم گاؤں نے تو تعلیمی
اصلاحات کے بغیر ہی تاریخ رقم کر دی ہے۔
حضور والا بچے تو کمسن ہیں، لاپرواہ ہیں، غیر ذمہ دار اور معصوم ہیں۔ بچوں
کو راستہ ہم نے دکھانا ہے۔ اُن کے دلوں میں پڑھائی کا شوق ہم نے پیدا کرنا
ہے۔ اُن کے سینو ں میں تعلیم کی شمع ہم نے روشن کرنی ہے۔ اُنہیں تعلیم کا
ماحول ہم نے فراہم کرنا ہے۔ بچوں کو مقابلے میں ڈالیں گے تو وہ مقابلہ کریں
گے۔ بچوں کے سامنے کوئی عزم، گول، ٹارگٹ یا منزل ہی نہ ہو تو ایسے طالب
علموں کی کوئی سمت نہیں، کوئی منزل نہیں۔
آئیں ان فقروں سے جان چھڑا ئیں۔ میرا بچہ پڑھ نہیں سکا۔ میرے رشید کی قسمت
ہی ماٹھی تھی۔ بچوں کی پڑھائی میں ڈنڈی ہم مار رہے ہیں ورنہ پاکستان کی
ہزاروں مائیں سلائی مشین پر کپڑے سی کر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو کمشنر اور
جج بناتی ہیں۔
ہماری قوم حادثوں اور سانحوں سے دوچار رہی ہے۔ بہت سے اہم معاملات پر ہماری
غیر سنجیدہ جدوجہد ہماری سوچ کے زاویوں پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ ہم سب نے مل
کر ہی ہی ہا ہا ہو ہو کر کے اس قوم کا بہت وقت ضائع کر دیا۔ پچھلی نسلوں کے
مجرم توہیں ہی ہم۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ نسلوں کی تباہی اور بربادی کی
ذمہ داری بھی ہمارے کندھوں پر آن پڑے۔ باقی یہ شعر ہماری روداد کا عکاس ہے۔
یہ حادثہ ہے بتادے کوئی زمانے کو
کہ ہم نے آگ لگائی ہے آشیانے کو |