دنیا کے بہت سے ممالک جمہوریت اور اُس کی افادیت سے براہ
راست مستفید نہیں ہو سکے۔ اچھی اور توانا جمہوریت ایک نعمت ہے اور بُری
جمہوریت بھی بہر حال ایک نعمت ہی ہے۔ ایسے ممالک جہاں کمیونسٹ حکومتیں ہیں
وہاں اگر ترقی اور خوشحالی کا پہیہ چلتا رہے تو حالات قدرے بہتر رہتے ہیں۔
جہاں معیشت کو ذرا سا بھی بخار ہوا، وہاں عوام کا ہاتھ ہوگا اور کمیونسٹ
حکومت کا گریبان۔
کیوبا میں آج کل مارا ماری چل رہی ہے۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں۔ یہ کیوبا
کے شہر ہوانا میں ہونے والا بہت بڑا احتجاج ہے جس کی اتنی شدید نوعیت کی
شدت اور حرارت عشروں بعد دیکھی گئی ہے۔ کیوبن صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے سر
براہ میگوئل ڈیازکینل نے سڑکوں پر بپھرے ہوئے مظاہرین سے درخواست کی ہے کہ
وہ احتجاج بند کریں وگرنہ ایسا نہ ہو کہ ہم سڑکوں پر لڑ رہے ہیں۔
کیوبا آج کل معاشی بحران سے گزررہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے معاشی بحران
دراصل دوسرے ملکوں کیلئے تجربہ اور سبق ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے
چونکہ ایسے مسائل نہیں ہوتے لہٰذا ترقی پذیر ملکوں کیلئے ایسے بحران ٹیسٹ
ڈرائیو ہوتے ہیں۔ جن سے وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کیوبا کو 2021میں جہاں
بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے وہاں کورونا وائرس کے سنجیدہ معاملات، ٹرمپ
انتظامیہ کی جانب سے عائد امریکی پابندیاں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری
غرض کہ ایسے بہت سے نازک معاملات میں کیوبا جیسے کمیونسٹ ملک میں بھی
شہریوں کو انقلاب کا نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا۔ سڑکوں پر ایسے انقلابی
شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جس پر کیوبا کے صدر نے مجبو ر ہو کر کیوبن
شہریوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ کیوبن صدر میگوئل نے اپنے
ملک سے خطاب میں امریکی صدر جو بائیڈن پر الزام لگایا کہ امریکی حکومت
ہمارے ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے، جس کے نتائج اچھے نہیں
ہونگے۔
کیوبا کی سیاسی تاریخ نے کئی ادوار اور اُتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ فیڈل کاسترو
کیوبا کے اہم ترین رہنماؤں میں سے تھا۔ کیوبا میں 1959سے کمیونسٹ کسی نہ
کسی صورت میں برسر اقتدار رہی ہے۔ اس دوران کئی فوجی بغاوتوں، مسلح حملوں،
گوریلا وار، انقلابی تحریکوں کے پھلنے پھولنے اور قتل و غارت کا سلسلہ بھی
جاری رہا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 1959سے 1987تک سرکاری طور پر سزائے
موت پانے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جبکہ غیر سرکاری اعدادو شمار کے
مطابق یہی تعداد ہزاروں میں تھی۔ پھانسی پر لٹکائے جانے والے ان باغیوں میں
زیادہ تر لوگ پولیس اہلکار، سیاست دان اور حکومت کے مخالفین یا مخبر تھے۔
1959میں کمیونسٹ پارٹی کے انقلاب کو امریکہ نے ابتدائی طور پر وہاں کے عوام
اور ملک کیلئے مثبت قرار دیا اور اِسے لاطینی امریکہ میں جمہوریت لانے کی
ایک تحریک کے طور پر دیکھا۔ اس وقت کا ستروکی کمیونسٹ پارٹی کو قانونی
حیثیت بھی دے دی گئی۔ مارچ 1960میں امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن نے کیوبا کے
مہاجرین کے ایک گروپ کوکا سترو حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے تربیت اور اسلحہ
فراہم کرنے کیلئے سی آئی اے کے ایک منصوبے کو اپنی منظوری دی تھی۔ 1400مسلح
جلاوطنیوں پر مشتمل اس گروپ نے کیوبا میں کاسترو کو ختم کرنے کی کوشش کی
لیکن اُنہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
امریکہ اور کیوبا کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ دونوں ممالک کے سفارتی
تعلقات منقطع ہو گئے جس کی واضح وجہ کیوبا کی حکومت کو گرانے کی کوشش میں
دہشت گردی کے واقعات اور خفیہ کاروائیاں شامل تھیں۔ فیڈل کاسترو ان دنوں
اپنی سیاسی طاقت کے عروج پر تھا۔ وہ نہ صرف لاطینی امریکی ممالک بلکہ
افریقہ میں بھی کمیونزم پھیلانے کی کوششیں کر رہا تھا جو امریکہ کو قطعی نا
منظور تھیں۔ فیڈل کاسترو نے تقریباً 50سال کیوبا پر حکمرانی کی۔ امریکی
خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کاسترو کو مارنے کیلئے اُس پر کئی بار حملے
کروائے۔ ایک بار سی آئی اے نے کاسترو کی سگار میں دھماکہ خیز مواد بھر کر
اُسے اُڑانے کی کوشش کی۔ کاسترو آئسکریم کا دلدادہ تھا۔ اُس کی آئسکریم میں
زہر ملا کر اُسے مارنے کی کوشش کی گئی۔ کاسترو کے سمندر میں تیرنے سے قبل
سمندر میں سیپیوں میں دھماکہ خیز مواد بھرے گئے جو پھٹ نہ سکے۔ دلچسپ بات
یہ ہے کہ امریکی صدر کینڈی، جانسن، نیکسن، کارٹر، ریگن جارج بش سینئر اور
حتیٰ کہ کلنٹن صدر کے دور میں بھی کاسترو کو مارنے کیلئے سینکڑوں جان لیوا
حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی، لیکن فیڈل کاسترو 50سال تک کیوبا پر حکمرانی
کرتا رہا اور جب اُسے موت آئی تو طبعی موت آئی۔
فیڈل کاسترو 1959سے 1976تک کیوبا کا وزیراعظم رہا، 1979سے 2008تک کاسترو نے
کیوبا کے صدر کے طور پر ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2008میں کاسترو نے ملک کی بھاگ
دوڑ اپنے بھائی راؤل کا سترو کے سپرد کر دی تھی۔ کاسترو جب تک ایوان اقتدار
میں رہا کیوبا اور امریکہ کے تعلقات خراب اور تناؤ زدہ رہے۔ تاہم کا سترو
کے اقتدار چھوڑنے کے چند ہی ہفتوں بعد امریکہ اور کیوبا کے سفارتی تعلقات
بحال ہوگئے۔
کاسترو نے جیل کاٹی، جلا وطن رہا، وہ بیس بال کا شوقین تھا۔ اُسے کیوبا کے
لوگوں نے آمر بھی کہا، لیکن وہ جب تک زندہ رہا امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر زندہ رہا۔ آج کاسترو گھرانے کا کوئی فرد ایوان اقتدار میں موجود
نہیں ہے۔ ملک کے حالیہ صدر میگوئل اس وقت ملک میں برسر اقتدار کمیونسٹ
پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، کیوبا آج بھی ون اسٹیٹ، ون پارٹی کے فارمولے پر
گامزن ہے۔ ایسے نظام میں جمہوریت کا پودہ سر سبز ہوتا ہے نہ عوام اقتدار کا
حصہ ہوتی ہے۔ ایسے نظام میں خامیاں بھی ہیں اور شائد خوبیاں بھی،سرِ دست
کیوبا کے عوام سڑکوں پر ہیں۔ وہ آمریت کا خاتمہ چاہتے ہیں وہ ایک اسٹیٹ،
ایک پارٹی سے اُکتا چکے ہیں۔ وہ آزادی کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ وہ 62سالہ
آمریت کے بدلے میں خوراک، روزگار، ووٹ کا حق، جمہوریت کے ثمرات، ادویات کی
فراہمی اور زندہ رہنے کا حق مانگ رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں
نکلے ہوئے یہ مظاہرین نعرے لگار ہے ہیں۔ ہم خوف زدہ نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں
کا کہنا ہے کہ کیوبا میں ہونے والے یہ مظاہرے غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔
آزادی! آزادی! پکارتے کیوبا کے یہ انقلابی مظاہرین کیا کیوبا کی ایک نئی
تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ |