ایک بار سکندر اعظم نے کہا تھا کہ میں ایسی شیروں کی فوج
سے نہیں ڈرتا جس کی قیادت کوئی بھیڑ کر رہی ہو۔ بلکہ میں ایسی بھیڑوں کی
فوج سے ڈرتا ہوں جس کی قیادت کوئی شیر کر رہا ہو۔
سکندر اعظم کے اس قول سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی قوم کیلئے رہنما کی
کیا حیثیت ہوتی ہے۔ افراد، رعایا یا عوام اپنے رہنما میں کن چیزوں کو تلاش
کرتی ہے؟ اُن کی نظر میں لیڈر شپ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یا وہ اپنے لیڈر کو
کس طرح کا دیکھنا چاہتے ہیں؟ یہ بہت اہم پہلو ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار وں کا
ماننا ہے کہ لیڈر پیدا نہیں ہوتے بلکہ حالات اور واقعات اُنہیں لیڈر بناتے
ہیں۔
لیڈر کی خصوصیات میں صداقت، خود اعتمادی، وژن، حقیقت پسندی، اپنی طاقت اور
کمزوری کا ادراک، نظریات اور سوچ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت، بصیرت، ہمدردی،
کام کو پورا کرنے اور رکاوٹ پر قابو پانے کی اہلیت، ایمانداری کا وصف،
دوسروں کو قائل کرنے کا مادہ، اصولوں پر کھڑے اور ڈٹے رہنے کی خوبی، اہداف
کے حصول کی قابلیت، غلطیوں سے سیکھنے اور ماننے کا حوصلہ، اپنے ملک اور
عوام سے وفاداری کا جذبہ، پیچیدہ مسائل اور معاملات کو سمجھنے کا تجربہ اور
اِن سب سے بھی بڑھ کر لیڈر کا باکردار ہونا ضروری ہے۔
دنیا نے ایسی خوبیوں اور صلاحیتوں والی بہت سی عظیم شخصیات کو دیکھا ہے۔
جنہوں نے اپنی دانائی سے بہت سے غیر معمولی اہداف حاصل کیے اور اپنی
قائدانہ حکمت عملی اور عظمت سے اپنے پیچھے بہت سی کہانیاں چھوڑ
گئے۔ہندوستان کی تقسیم اور آزادی سے قبل گجرات کے ایک عام سے ہندوستانی
گھرانے میں پیدا ہونے والے موہنداس کرم چند گاندھی ہندوستان کی آزادی کا
سرخیل اور باغی لیڈر مانا گیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کیلئے سول نافرمانی،
ڈنڈی مارچ (نمک مارچ) اور بھارت چھوڑو جیسی زور دار تحریکیں چلائی تھیں۔ یہ
منفرد اور اچھوتے خیالات گاندھی کے ذہن و فطین دماغ کی پیداوار تھیں۔
قائداعظم جنہیں عالمی میڈیا یا سیاسی اور تاریخی مورخین جان بوجھ کر نظر
انداز کرتے ہیں یا دنیا کی اُن عظیم شخصیات میں شامل نہیں کرتے جنہوں نے
اپنے فکری نظریات سے دنیا بدل ڈالی۔ قائداعظم سیاسی تاریخ کی وہ شخصیت ہیں
جنہوں نے ایک نیا ملک بنانے کا عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا۔
ونسٹن چرچل برطانوی تاریخ کا وہ لیڈر ہے۔ جسے دنیا میں جمہوریت کا نجات
دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ نازیوں سے برطانیہ کی فتح کے پیچھے اُسی کا ذہن تھا۔
برطانیہ کے اس عظیم رہنمانے نہ صرف ادب کا نوبل انعام جیتا بلکہ دوبار
برطانیہ کا وزیراعظم بھی رہا۔
اگر ہم امریکی تاریخ کی بات کریں تو آج امریکہ کی روشن خیالی کے پیچھے
ابراہم لنکن جیسے انقلابی رہنما کا ہاتھ ہے۔ پہلے وکالت اور پھر سیاست،
جمہوریت، آزادی، مساوی حقوق امریکہ میں جب اِن امور کا تذکرہ ہوگا ابراہم
لنکن کو امریکی قوم کی روح قرار دیا جائے گا۔
میں آیا، میں نے دیکھا اور میں نے فتح کر لیا۔
جب اس قول کا تذکرہ ہوتا ہے تو جولیس سیزر کا نام سامنے آتا ہے۔ دنیا جولیس
سیزر کو ایک عظیم لیڈر مانتی ہے۔ جبکہ خود جولیس سیزر سکندر اعظم سے متاثر
تھا۔ وہ سکندر اعظم کی طرح دنیا فتح کر نا چاہتا تھا۔ سکندر اعظم اور جولیس
سیزر میں حیرت انگیز حد تک مرگی کے مرض کی مماثلت تھی۔ سیزر مرگی کے دورے
میں بے ہوش ہو جاتا تھا۔ جولائی کے مہینے کا نام بھی اُسی عظیم لیڈر کے نام
پر رکھا گیا تھا۔ جو مرنے سے قبل اپنی رومی سلطنت افریقہ سے یورپ تک پھیلا
چکا تھا۔
دنیا کے عظیم رہنماؤں میں اشوکا کانام بھی شامل کیا جاتا ہے، جو چندر گپت
مور یہ سلطنت کا آخری شہنشاہ تھا۔ اشوکا ایک شریف اور عوامی لیڈر تھا۔ اُس
نے آخری جنگ ہندوستان کے مشرقی ساحل پر واقع کلنگار ریاست سے لڑی تھی۔ یہ
ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ تھی، جس میں دو لاکھ پچاس ہزار جانیں
ضائع ہو ئیں۔ ان جانوں کے ضائع ہونے کا اشوکا کو بہت صدمہ پہنچا۔ یوں اُس
نے اپنی بادشاہت اور تمام دولت ترک کر کے بدھ مت قبول کر لیااور باقی زندگی
بدھ مت کی تبلیغ میں گزار دی۔
فرینکلن ڈی روز ویلٹ وہ امریکی سیاسی رہنما ہیں جن کی قیادت کی خوبیوں اور
صلاحیتوں کو 80سال کا عرصہ گزرنے کے باوجودآج بھی امریکہ میں سیاست اور
بزنس کے طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے۔ 29سال کی عمر میں پولیو کی وجہ سے دونوں
ٹانگوں سے معذور ہونے والا یہ امریکی صدر 1933سے 1945تک مسلسل چار بار صدر
منتخب ہوا۔ روز ویلٹ نے دوسری جنگ عظیم میں امریکی فوج کی قیادت کی اور
اپنی جسمانی کمزوری یا معذوری کو کبھی بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے آگے
دیوار نہیں بننے دیا۔
دنیا کے بہترین اور عظیم رہنماؤں میں ڈاکٹر زتھ فاؤ، عبدالستار ایدھی اور
مدر ٹریسا جیسی شخصیات کو بھی شامل کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔جنہوں نے
تلوار یا بندوق اٹھائے بغیرخون کا ایک قطرہ بھی بہائے بغیر کروڑوں انسانوں
کے دلوں کو فتح کیا۔
دنیا کے بہترین حکمرانوں جرنیلوں اور سپاہ سالاروں کیطرح یہ اور اِن جیسی
دوسری بہت سی سماجی شخصیات عظیم رہنماؤں کی فہرست میں اونچے مقام اور رتبے
پر فائز ہیں۔ یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے غربا، مساکین، یتیموں، بے سہاروں
اور مریضوں کے سروں پر دست شفقت رکھا۔ یہ وہ تمام لوگ تھے جن کے مارٹن
لوتھرکنگ کی طرح کچھ خواب تھے۔جو گاندھی کی طرح سوچتے تھے۔ جو نیلسن منڈیلا
کی طرح انسان دوست تھے۔ یہ وہ دنیا کی دلربا شخصیات تھے جنہوں نے خدمت اور
پارسائی سے اہنمائی کی، کیونکہ رہنمائی سے پارسائی کی جانب سفر کٹھن اور
مشکل ہے جبکہ آپ ایک بار پارسا بن جائیں تو لوگ آپ کو رہنما بنانے میں دیر
نہیں کرتے۔
|