قومی ترانے کا مقام اور منصب

پاکستان کے قومی ترانے کے حوالے سے یہ بات تو تقریباً سبھی پاکستانی جانتے ہیں کہ قومی ترانہ حفیظ جالندھری صاحب نے لکھا۔ لیکن پاکستان کے قومی ترانے سے منسلک اور بہت سی معلومات شائد بہت کم لوگوں کے پاس ہو۔ قیام پاکستان کے بعد تقریباً 7سال تک ہمارے پاس کوئی قومی ترانہ نہیں تھا۔ کچھ کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ قومی ترانے کی پہلے دھن ترتیب دی گئی تھی اور اس قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد غلام علی چھاگلہ تھے۔ اس دھن سے قبل بھی چند ترانوں کی دھنیں مختلف سرکاری تقریبات پر گائی یا بجائی جاتی رہی ہیں۔ احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن جب ریڈیو پاکستان کے اُس وقت کے ڈائریکٹر زیڈ اے بخاری نے سُنی تو اُنہوں نے اس دُھن کو باقاعدہ موسیقی میں ڈھالا۔ اس دُھن پر بول لکھوانے کیلئے ملک کے شعراء کو مدعو کیا گیا۔ اس دُھن کیلئے حفیظ جالندھری سمیت دیگر شاعروں کے لکھے ترانے موصول ہوئے۔ جس میں سے حفیظ جالندھری کے ترانے کو چُنا گیا۔ 1954میں کابینہ نے حفیظ جالندھری کے ترانے کو منظور کر لیا۔ پاکستانی قومی ترانے کے تمام الفاظ فارسی کے ہیں ماسوائے کا۔ سرکاری سطح پر قومی ترانے کو 1954سے باقاعدہ سرکاری تقریبات کا حصہ بنا دیا گیا۔ قومی ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف سنگیت کاروں نے گایا، جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آزاد، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث شامل تھے۔

پاکستان کے قومی ترانے کے حوالے سے ایک عرصہ تک تنازعہ چلتا رہا جو اس دعویٰ پر مشتمل تھا کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ قائداعظم نے جگن ناتھ آزاد سے لکھوایا تھا۔ لوگ اس دعوے پر یقین بھی کرتے رہے حالانکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ جگن ناتھ آزاد صاحب کا اردو میں لکھا ہوا ترانہ موجود ہے مگر اُسے کبھی بھی قومی ترانے کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی۔ محقق اور معروف مصنف عقیل عباس جعفری نے اپنی کتاب میں حقائق پیش کئے ہیں۔

پاکستان کے قومی ترانے سے ہٹ کر اگر ہم قومی ترانوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو برطانوی (سونگ) گیت ”گاڈ سیو دی کنگ“God. Save the Kingکو کسی بھی ملک کا پہلا قومی ترانہ مانا جاتا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک کا اپنا ایک قومی ترانہ ہوتا ہے۔ جو سرکاری یا منظور شدہ زبانوں میں لکھا جاتا ہے۔ یہ قومی ترانے ان ممالک کے تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتے ہیں۔ یورپی ملک آسڑیا ایک ایسا ملک ہے جس کا کوئی قومی ترانہ نہیں ہے۔ یونان کا قومی ترانہ دنیا کے تمام ملکوں کے قومی ترانوں سے لمبا ہے۔ جسے پڑھنے کیلئے تقریباً چھے منٹ لگتے ہیں، جبکہ جاپان کا قومی ترانہ جسے دنیا کے قدیم ترین ترانوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، سب سے چھوٹا ترانہ ہے۔ امریکہ کے پانچ قومی ترانے ہیں، جو مختلف ادوار میں تحریر کئے گئے۔

قومی ترانے ملکوں کا وقار اور فخر ہوتے ہیں۔ یہ بچپن سے سنے اور گائے جانے والے وہ گیت ہیں، جو ہمیں نہ صرف جذباتی کرتے ہیں بلکہ یہ ہمیں متحد رکھنے کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں قومی ترانوں کی ایک دلچسپ تاریخ ہے۔ میکسیکو کے قومی ترانے کے موسیقار کو اُس کی محبوبہ نے ایک کمرے میں بند کر دیا تھا اور کمرے کا دروازہ اُس وقت تک نہیں کھولا گیا جب اُس موسیقار نے قومی ترانے کی دُھن تیار نہیں کر لی۔ جمہوری چیک رپبلک اور سلووا کیا کا قومی ترانہ چونکہ ایک تھا، لیکن جب یہ دونوں ملک تقسیم ہوئے تو قومی ترانے کا پہلا آدھا حصہ چیک رپبلک کو دے دیا گیا اور باقی آدھا حصہ سلووا کیا کا قومی ترانہ بن گیا۔ کوسٹار یکا کے قومی ترانے کے موسیقار کو صدر کے حکم سے جیل میں ڈال دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ملک کا قومی ترانہ کمپوز کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اسپین کے قومی ترانے میں کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ درحقیقت فوجی مارچ کی دُھن تھی جسے اسپین نے اپنا قومی ترانہ بنا لیا ہے۔

یوکرائن کا قومی ترانہ ”یو کرائن ابھی مر انہیں ہے“سے شروع ہوتا ہے۔ سائپرس کا کوئی قومی ترانہ نہیں ہے۔ سائپرس کو جب بھی قومی ترانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ ترکی اور یونان کے قومی ترانے چلا کر اپنی ضرورت پوری کرتا ہے۔حالانکہ یہ بہت عجیب بات اور منطق ہے کہ کسی ملک کا اپنا قومی ترانہ ہی نہ ہو اور وہ پڑوسی ملکوں کے ترانوں پر اکتفا کرے۔

نیدر لینڈ کا قومی ترانہ ایسی پندرہ سطروں پر مشتمل ہے جو اُس کے انقلابی قومی ہیرو ولیم وان نسووف کے نام کے ہر حرف سے شروع ہوتی ہیں۔ قومی ترانوں کے حوالے سے بہت سے ممالک نے بہت جرات مندانہ فیصلے کیے۔ جیسے جنوبی افریقہ کا قومی ترانہ پانچ زبانوں پر مشتمل ہے۔ جس میں افریقہ کی مقامی زبانیں اور انگریزی شامل ہے۔ ایسٹو نیا اور فن لینڈ کے قومی ترانے ایک جیسے ہیں۔ جی ہاں دونوں ملکوں کی موسیقی ایک جیسی جبکہ دھنیں مختلف ہیں۔ فرانس کے قومی ترانے میں تشدد، خون، دشمن، فتح، جنگ اور شان و شوکت کی باتیں سنائی دیتی ہیں۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے قومی ترانے ربیندر ناتھ ٹیگور کے تحریر کردہ ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سر ی لنکا کا قومی ترانہ بھی ٹیگور صاحب کا لکھا ہوا ہے۔

صدیوں سے دنیا میں گونجنے والے قومی ترانوں میں شاعروں نے جنگ کی تعریفیں اور لڑائیوں میں فتوحات کا جشن منایا۔ ملکوں کی تہذیبوں کی کہانیاں سناتے یہ قومی ترانے، قوموں کی فکری اور نظریاتی سوچوں کے عکاس ہیں۔ یہ ترانے ہمیں انصاف پسندی، حق پرستی، ایمانداری، محنت اور جدو جہد کا درس دیتے ہیں۔ اِنہیں صرف کھیلوں کے میدان یا سرکاری تقریبات تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں قومی ترانے کے حوالے سے نئے امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ قومیں سوچ کے دروازے کھولنے اور فکری ارتقا سے آگے بڑھتی ہیں۔ درسی کتابوں کی پشت پر لکھے قومی ترانے کا مقام اور منصب اور استعمال اس سے کہیں بہتر ہو سکتا ہے۔
سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 24095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.