آج دل نے ایک فضول سی خواہش سوچی تھی کہ ایک غیر روایتی
سا کالم لکھا جائے۔ دل کی خواہش پر حامی بھری، قلم اٹھایا اور سوچنے لگا کہ
وہ غیر روایتی چیز کیا ہو سکتی ہے۔ دل سے آواز آئی او بھائی کنفیوژ کیو ں
ہو رہے ہو، کسی بحث میں مت پڑو، کوئی انہونی داستان، کوئی عجیب و غریب
حادثہ، کسی تلخ حقیقت، کسی نا قابل برداشت رویے، کسی بادشاہ یا شہزادے کی
تاریخی فتوحات، کسی معاشرے کی بربادی یا کسی سماج کو راہ راست پر لانے کے
بھاشن دینے کی بجائے یا کوئی جھوٹی کہانی گھڑنے کی بجائے سیدھے اور شفاف
لفظوں میں پاکستانیوں سے مخاطب ہوا جائے۔ لہٰذا میں آج اُن عزیز ہم وطنوں
سے مخاطب ہوں جنہیں اکثر پاکستان کو کوسنے کا بخار چڑھا رہتا ہے۔ میں اپنے
اُن ہم وطنوں سے بھی ہم کلام ہوں جو پاکستان کو کوس کر بُرا بھلا کہہ کر
خود کو دانشور یا ترقی پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے مخاطب
پاکستان کے وہ نوجوان بھی ہیں جو اِ س دھرتی سے پوری طرح آشنا نہیں ہوئے۔
میں اُن تمام پاکستانی خواتین و حضرات سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں جو تنقید
برائے مقصد پر نہیں بلکہ تنقید برائے تنقید پر یقین رکھتے ہیں۔ میں اُن
ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے بھی اپنے جذبات شیئر کرنا چاہتا ہوں جن کے ذمہ
موجودہ اور آنے والی نسلوں کی پرورش ہے۔
بات یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں نے ایک کلچر یا مزاج سابنا لیا ہے کہ ہم بات
بات پر پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ پاکستان میں نقص ڈھونڈنا، خامیاں
تلاش کرنا ہماری عادت سی بن چکی ہے۔ ہم بات بات پر اپنے ملک کا مذاق اڑاتے
ہیں۔ طرح طرح کے فلسفے جھاڑتے ہیں۔ اپنے ملک کیلئے تعریفی کلمات توشائد ہی
کسی محفل میں سننے کو ملیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہماری اپنی ذاتی خامیاں،
کمزوریاں، کام چوریاں، نا اہلیاں، ذہنی فتور تو ہمیں کبھی نظر نہیں آتے، ہم
اِن کے اسباب کبھی تلاش نہیں کرتے۔ اُن کا سدباب نہیں کرتے، ہاں اگر کچھ
بُرا ہے تو پاکستان!
ہمیں عجیب سی آسودگی اور خوشی ملتی ہے اپنی ناکامیوں کو ملک کے کھاتے میں
ڈالنے کی عادت سے۔ ہمارا اکثر دوستوں کی محفلوں میں سوال ہوتا ہے۔ اس ملک
نے ہمارے لیے کیا کِیا ہے؟ہم دوستوں کی محفلوں میں بیٹھ کر خود سے یا
دوستوں سے یہ سوال نہیں پوچھتے کہ انہوں نے پاکستان کیلئے کیا کِیا ہے؟
ہمارے ذہن میں یہ بات نہیں، کون ہمیں یہ پہلو سمجھائے گا کہ ایک کامیاب
شخص، خود کو اپنے اہل خانہ کو ہی نہیں بلکہ معاشرے اور ملک کو بھی کامیاب
بناتا ہے، ترقی سے ہمکنار کرتا ہے۔
سال کے 365دن تاجر گاہکوں کو لوٹتے ہیں۔ نجی ہسپتالوں میں غریب مریضوں کی
مالی حیثیت اور استعداد دیکھے بغیر سٹی سکین اور ایم آر آئی لکھ دی جاتی
ہیں۔ عدالتوں میں جو کیس والدین دائر کرتے ہیں، اُن کے فیصلے اُن کی
اولادوں کے بڑے ہونے تک نہیں ہوتے۔ کرپشن حکمران کریں، بُراہم ملک کو کہیں۔
ملاوٹ دکاندار کریں، ذلالت ملک کے مقدر میں آئے۔ کیا میں یہ پوچھنے کی
جسارت کر سکتا ہوں کہ جس گھر سے اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جائے، اُس کے ذمے
دار گھر کے مکین ہونگے یا آس پاس کے پڑوسی؟
پاکستان ہمارا وطن ہے۔ یہ وہ پاک سر زمین ہے جس کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے
آباؤ اجداد نے بے شمار قربانیاں دیں۔ اس سرزمین کو بُرا کہنے والے اس دھرتی
سے بے وفائی کا گناہ مت کریں۔ حکومتوں کے انتشار اور زوال کے کھیل میں ہم
سب مضطرب ہو کر بلک اُٹھتے ہیں۔ اس ملک میں کچھ نہیں رکھا۔ اس ملک نے ہمیں
کچھ نہیں دیا۔ اس ملک نے ہمیں رسوائی دی۔ نہیں! ایسا ہر گزنہیں ہے۔ اس ملک
نے ہمیں رسوائی نہیں دی بلکہ ہم اپنے غلط روئیوں سے اس ملک کو رسوا اور
بدنام کر رہے ہیں۔ اس اہم ترین نقطے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کے محکمے
کا ایک ایس ایچ او اپنے پولیس ڈیپارٹمنٹ کیلئے نیک نامی کا باعث بھی بن
سکتا ہے اور بدنامی کا باعث بھی۔ یہ ایک فکر انگیز بحث ہے۔ اس موضوع پر
سیمینار کی ضرورت ہے۔ مقالے لکھے جانے چاہئیں۔ لیکچرز ہونے چاہئیں، فلمیں
اور ڈرامے بننے چاہئیں،پاکستان کو اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اس
ملک کو (OWN)کرنا ہے۔ وکلا ء ججز، دانشور، اساتذہ، لکھاری، سرکاری افسران،
انجینئر، ڈاکٹرز صاحبان، خیراتی ادارے چلانے والے، سیاستدان، عوامی نمائندے
سبزی فروش، دکاندار، پھیری والا، ٹھیکیدار یا دیگر افراد اگر ان سب کے
کرتوت اچھے نہیں تو قصور اس ملک کا نہیں۔ گلہ شکوہ تو افراد کا نہیں بلکہ
اس ملک کا بنتا ہے جو یہ کہے کہ مجھے لوٹ لوٹ کر تم سب اب بھی نہیں تھکے۔
سرکاری اور نجی محکموں میں خیانت کر کے تمہارا دل اب بھی نہیں بھرا۔ شکایت
تو اس وطن عزیز کی بنتی ہے کہ جو یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ اس ملک کو
درست سمت پر ڈالنے کی بجائے سب تجربے کرتے رہے۔
محرومیوں کا شکار پاکستان اپنے بچوں کو دیکھ کر سسک رہا ہے کہ اس کی اولاد
غفلتوں اور کوتاہیوں پر کوتاہیاں کئے جا رہی ہے۔ کب سنبھلیں گے اس ملک کے
بچے، کب دیکھ پائیں گے اس ملک کے زخموں اور آبلوں کو۔ کب ہمارا اسلوب بدلے
گا؟ کب ہمیں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ترقی کا شعور آئے گا؟
خدارا! اس ملک کی پکار سننے کی ضرورت ہے۔ ایک باپ اپنے بچوں کو ایک دوسرے
سے لڑتے، جھگڑتے، ایک دوسرے کا گریبان پھاڑتے دیکھے گا تو اُس کے دل پر کیا
گزرے گی۔
آئیں ایک لمحے کیلئے رک کر، جھک کر اپنے پاکستان کی آہوں سسکیوں کو سنیں۔
آپ کو شش تو کریں۔ یقین جا نیے، میں نے سنیں ہیں دل چیر دیتی ہیں۔
یہ دیکھیں، سنیں، ابھی ابھی سنائی دی ! کوئی کہہ رہا ہے، سنبھل جاؤ میرے
بچوں کہ دیر ہو جائے!!
|