تاریخ تحریک پاکستان : مسخ شدہ حقائق

تحریک پاکستان اور مسلم لیگ شروع میں دو علیحدہ اور متضاد حقیقتیں تھیں ۔ تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز چوہدری رحمت نے ٢٨ جنوری ١٩٣٣ء کو پاکستان ڈکلیریشن سے کیا جبکہ مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کو ١٩٤٠ء کے بعد اپنایا

تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز پاکستان ڈکلیریشن سے ہوا

اکثرلوگ جب تحریک پاکستان کا ذکر کرتے ہیں تو صرف مسلم لیگ کو ہی تحریک پاکستان سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ تاریخی لحاظ سے یہ انتہائی بددیانتی ہے جس کی وجہ سے تحریک پاکستان کے کئی اہم گوشے مسخ ہو کر تاریخ کے طالب علموں اور عوام کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔ کسی نے کہا تھا سیاست کے سینے میں دل میں نہیں ہوتا ۔جمہوری سیاست میں ایک روایت ہے کہ ہر سیاسی جماعت اہم تاریخی واقعات پر اپنی تختی لگانا لازم سمجھتی ہے ۔ جیسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ ہربڑی سیاسی پارٹی خود لینا چاہتی ہے جبکہ تاریخی حقائق کچھ اورکہہ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کی بے رحمی نے یہی حال’ ’تاریخ تحریک پاکستان‘‘ کا بھی کیا۔ حالانکہ مسلم لیگ خالصتاً ایک سیاسی جماعت تھی اور اس کی اپنی سیاسی جدوجہد تھی جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا جبکہ تحریک پاکستان اپنی ابتداء میں بالکل ایک الگ تحریک تھی ۔ مسلم لیگ ابتداء میں تحریک پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کرتی رہی اگرچہ بعدازاں اسی تحریک پاکستان کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ کو اس تحریک کواپنا نا پڑا جس کی وہ شروع میں مخالف تھی ۔

تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز پاکستان ڈکلیریشن سے ہوا تھا جب 28جنوری 1933ء کو چوہدری رحمت علیؒ نے اپنی مشہور اشاعت Now Or Never کے ذریعے مسلمانان ِ برصغیر کے لیے نہ صرف علیحدہ وطن کا باقاعدہ مطالبہ پیش کیا بلکہ پاکستان کا نام اور نقشہ بھی پیش کیا ۔ اسی سال چوہدری رحمت علیؒ نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا تھا ۔ اس سے قبل گول میز کانفرنسز کے دور ان چوہدری رحمت علیؒ نے مسلم لیگ کے قائدین سے مل کر علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ کرنے پر زور دیا تھا جبکہ گول میز کانفرنسز کا واحد ایجنڈا انڈین فیڈریشن ( متحدہ وفاق) کے لیے آئین کی تشکیل تھا جس سے مسلم لیگی مندوبین بھی اتفاق کر رہے تھے ۔ حسین زبیری تحریر کرتے ہیں : ’’چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسز کے دوران مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان پر یہ بات واضح کی کہ انڈین فیڈریشن قبول کر لینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہو جائے گی اور آپ اللہ اور رسول ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں ۔‘‘ لیکن جب کسی بھی مسلم رہنما نے مطالبہ ٔ پاکستان کو تسلیم نہ کیا تو بالآخر چودھری رحمت علیؒ نے خود آگے بڑھ کر تاریخی پاکستان ڈکلیئریشن Now or Neverکے ذریعے مسلمانان برصغیر کو یہ باور کرایا کہ اب اگر ہم نے اپنی آزادی کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ نہ کیا تو شاید کبھی نہ کر سکیں گے ۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس وقت ہر کسی نے آپ کی مخالفت کی ۔ یہاں تک کہ یکم اگست 1933ء کو جوائنٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے چودھری رحمت علیؒ کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستان وفد کے مسلم اراکین سے سوالات کیے تو جواباً سر ظفر اللہ، عبداللہ یوسف علی اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ نے کہا کہ: ’’ یہ صرف چند طلبہ کی سرگرمیاں ہیں، کسی سنجیدہ شخصیت کا مطالبہ نہیں جس پر توجہ دی جائے۔‘‘

مسلم لیگ ڈٹ کر مطالبہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی مخالفت کرتی رہی لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا ۔ چوہدری رحمت علیؒ کی’’ پاکستان نیشنل موومنٹ ‘‘سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ چوہدری رحمت علی نے مسلسل محنت اور جدوجہد سے لفظ پاکستان اور تحریک پاکستان کو عام کر دیا تھا ۔ اس ضمن میں چوہدری رحمت علیؒ نے مختلف ملکوں کے دورے کرکے وہاں کے سیاسی رہنماؤں ، صحافیوں اور سفارتکاروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں دلائل و براہین سے قائل کیا کہ ہندو ازم کے بڑھتے ہوئے سنگین خطرات کے پیش نظر ہندوستان کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن ضروری ہے ۔ انہوںنے مختلف ممالک کے سیاسی ، سماجی ، انقلابی رہنماؤں اور صحافی حضرات کو خطوط بھی لکھے اور دوسری طرف پاکستان کی ضرورت اور اہمیت پر مسلسل اشاعت بھی جاری رکھی جس سے لفظ پاکستان اور تحریک پاکستان بہت جلد منظر عام پر آگئی ۔ مسلمانان برصغیر میں چوہدری رحمت علیؒ کی تحریروں اور مسلسل اشاعتی مواد سے تحریک پاکستان کے حوالے سے جو ش و جذبہ بڑھ رہا تھا ۔ یہاں تک کہ پاکستان کا تصور اور پاکستان کا نام مسلمانان ہند کے دلوں میں رچ بس گیا ۔یہاں تک کہ ہندوستان کی فضائیں پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اُٹھیں ۔ لیکن اس وقت تک مسلم لیگ تحریک پاکستان سے بالکل لا تعلق رہی بلکہ اس کی مخالفت کرتی رہی ۔

جب 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی تو اس کے بعد مسلم لیگ کے پاس مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کرلینے کے سوا چارہ نہ رہا ۔چونکہ اس وقت تک تحریک پاکستان نے مسلمانان ہند کے دلوں میں اپنا مقام حاصل کر لیا تھا لہٰذا مسلم لیگ کہ پاس اب واحد راستہ یہی تھا کہ وہ مسلمانان ہند کی تحریک پاکستان سے محبت اور جذباتی لگاؤ کو نگریس پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرے ۔ نواب سر محمد یامین خان جو قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سینیئر رہنما تھے ان کی کتاب نامۂ اعمال میں لکھا ہے کہ :
"یکم مارچ 1939ء کو ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھے، مسٹر جناح، مسٹر ظفراللہ خان، سید محمد حسین کو الہ آباد بلایا۔ دوپہر کے کھانے پر سید محمد حسین نے چیخ چیخ کر، جیسے ان کی عادت ہے، کہنا شروع کر دیا کہ چوہدری رحمت علی کی سکیم کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کر دیے جائیں۔ ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف سے افغانیہ یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا اخیر ہے۔ چونکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے اس لیے مسٹرظفر اللہ خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔ مسٹر ظفر اللہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مسٹر جناح دونوں کے دلائل غور سے سنتے رہے اور پھر مجھ سے بولے کہ کیوں نہ ہم اس کو اپنا لیں اور اس کو مسلم لیگ کا نعرہ بنا لیں۔ ابھی تک ہماری عوام میں کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو اٹھائیں تو ہماری کانگریس سے مصالحت ہو سکے گی ورنہ وہ نہیں مانیں گے۔ "

اس اہم میٹنگ نے مسلم لیگ کے آئندہ سالانہ اجلاس 23مارچ 1940ء کے خدو خال پہلے سے طے کر دیے تھے جس میں مشہور قرارداد پیش کی گئی ۔ تحریک پاکستان کی مقبولیت کی وجہ سے انڈین میڈیا نے اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا ۔ اس قرارداد کا مسودہ ابتدائی طور پر پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات خان نے تیار کیا ۔ یونینسٹ پارٹی تقسیم ہند کے سخت خلاف تھی اور اب تک مسلم لیگ کی اتحادی تھی اور سکندر حیات خان مسلم لیگ پنجاب کے صدر بھی تھے ۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ مسلم لیگ ابھی تک علیحدہ وطن کی حامی ہر گز نہیں تھی ورنہ سرسکندر حیات خان اور یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے میں دیر نہ لگاتے ۔ ایک اور اہم بات نوٹ کیجئے ۔ اس اجلاس میں پہلے چوہدری رحمت علی ؒ کو بھی مدعو کیا گیا اور وہ شرکت کے لیے آرہے تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان نے انہیں آنے سے روک دیا اور جواز خاکسار تحریک کے متوقع ہنگاموں کو بنایا ۔ سوال یہ ہے کہ خاکسار تحریک (جو تقسیم ہند کی مخالف تھی) سے صرف چوہدری رحمت علی ؒ کو ہی خطر ہ کیوں تھا ؟ قائداعظم سمیت جتنے رہنما اجلاس میں شریک ہوئے ان کو خطرہ نہیں تھا ؟اصل بات یہ تھی کہ چوہدری رحمت علیؒ کی پاکستان اسکیم واضح تھی ۔اگر وہ شرکت کر تے تو مبہم قرارداد لاہور واضح قرارداد ِ پاکستان میں بدل جاتی۔ جبکہ تقسیم اس وقت تک نہ تو مسلم لیگ کا ایجنڈا تھا اور نہ ہی یونینسٹ وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات اس کو برداشت کرسکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سر سکندر حیات خان نے قرارداد کا جو مسودہ تیار کیا اس میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب قرارد اد لاہور کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ بعض لوگ اس قرارداد کو تقسیم ہند کا رنگ دے رہے ہیں تو اس پر سرسکندر حیات خان سخت ناراض ہوئے اور اسی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے 11 مارچ 1941ء کو پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ: ’’میں ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہوں اور ہم (یونینسٹ پارٹی ) ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے‘‘۔

قرارداد لاہور میں مسلم لیگ نے چوہدری رحمت علیؒ کی پاکستان اسکیم کو گانگریس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا ورنہ عملی طور پر تقسیم ہند مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ قرارداد لاہور میں پاکستان کا نام ، نقشہ اور ذکر تک شامل نہ تھا ۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ اپنی کتاب فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ میں بھی لکھتی ہیں کہ ’’اکثر مسلمانوں کے نزدیک پاکستان ایک تصور تھا حقیقت نہ تھی۔ بڑے بڑے مسلمان لیڈروں کا بھی یہ خیال تھا کہ کسی قسم کا باہمی سمجھوتہ ہو جائے گا اور وہ متحدہ ہندوستان کے اندر اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں گے۔ قائد اعظم کا بھی یہی خیال تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار اکتوبر1941ء میں ان سے ملی تو انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا آئین ہمارے لیے مسائل کا بہترین حل ہے۔ قرار داد پاکستان کے سات سال بعد تک ایک طرف برطانوی حکومت اور دوسری طرف کانگریس سے وہ باہمی سمجھوتے کی بات کرتے رہے اور اس دوران میں ایک سے زائد بار تقریباً سمجھوتہ ہو بھی گیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دو ٹوک بٹوارہ نہیں چاہتے تھے۔ باہمی سمجھوتے میں ناکامی ہوئی تو اس کی ذمہ داری قائد اعظم پر نہیں کانگریسی لیڈروں کی تنگ دلی اور تعصب پر تھی۔‘‘

مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی دونوں اگر 1941ء تک بھی تقسیم ہند کے حق میں نہ تھیں تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ علامہ اقبال کے 1930ء کے خطبہ الہٰ آباد کو کس طرح تصور پاکستان سے جوڑا جاتاہے حالانکہ علامہ اقبال ان دنوں پنجاب کونسل میں یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے جو مسلم لیگ کی حمایتی تھی لیکن جیسا کہ یونینسٹ پارٹی تقسیم ہند کے سخت خلاف تھی تو پھر اس کے ایک رکن کونسلر کی حیثیت سے علامہ اقبال علیحدہ مسلم ریاست کا تصور کیونکر پیش کر سکتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خطبہ الہ آباد کے حوالے سے بھی قیام پاکستان کے بعد حقائق کو مسخ کیا گیا اور اس کا مقصد بھی مسلم لیگ کو ہی تحریک پاکستان کی واحد جدوجہد ثابت کرنے کی ایک کوشش تھی ۔ حالانکہ علامہ اقبال نے برطانوی اخبار دی ٹائمز کو خط لکھ کر واضح کر دیا تھا کہ انہوں نے خطہ آلہ آباد میں کسی علیحدہ مسلم ریاست کاتصور ہرگز نہیں دیا تھا بلکہ وہ صوبوں کی تجویز تھی اور اقبال کا یہ خط 12 اکتوبر 1931ء کو North-west India, Muslim Provinces کے عنوان سے ہی شائع ہوا ۔ یہی موقف علامہ اقبال نے 4 مارچ 1934ء کو ایڈورڈ تھامپسن اور 6مارچ 1934ء کو علامہ راغب احسن اور اسٹارآف انڈیا کے نام لکھے خطوط میں بھی اپنا یا جس میں واضح طور پرعلامہ اقبال نے پاکستان اسکیم کو چوہدری رحمت علیؒ کی اسکیم اور الہ آباد کی تجویز کو صوبوں کی تجویز قرار دیا ۔ پھر یہ کہ تیسری گول میز کانفرنس میں متحدہ ہندوستان کے آئین پر بحث ہوئی جس میں علامہ اقبال بھی شریک تھے ۔ اس کانفرنس میں مسلم رہنماؤں سمیت تمام اقلیتوں کایہ مطالبہ مان لیا گیا کہ متحدہ ہندوستان کے آئین میں تمام اقلیتوں کو آئینی تحفظات دیے جائیں گے ۔ اس کانفرنس کے اختتام پر علامہ اقبال نے وطن واپس آکر 27 فروری 1933ء کو ’’ مسلم نیوز سروس ’’ کے نمائندے کو کانفرنس کے فیصلوںکے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا :
’’ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس آئین کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گی جو گول میز کانفرنس میں وضع کیا گیا ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے یہی بہترین راستہ ہے جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو انتخابات کے لیے منظم کریں اور اپنی جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دیں ۔ ‘‘

اس قدر واضح حقائق کے بعد بھی علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کو تصور پاکستان سے جوڑنا بذات خود علامہ کی شخصیت کے ساتھ ناانصافی ہے کیونکہ علامہ جیسے سچے اور کھرے مسلمان لیڈر اور صوفی شاعر کی تاریخی شخصیت کسی صورت اس قدر دہرے تضاد کی حامل نہیں ہوسکتی کہ 1930ء میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کرنے کے بعد دوبارہ متحدہ ہندوستان کے لیے وفاقی آئین کی منظوری کے عمل میں گول میز کانفرنس میں شریک بھی ہو اور پھر تمام سیاسی جماعتوں سے متحدہ ہندوستان کے آئین کو کامیاب بنانے کی اپیل بھی کرے ۔ حقیقت میں تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کو خلط ملط کردینے کی وجہ سے یہ سارے ابہام پیدا ہوئے ۔ ورنہ تاریخ پاکستان بالکل واضح تھی ۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کی وفات پر مسلم لیگ کا جو تعزیتی اجلاس دسمبر 1938ء میں منعقد ہوا اوراس اجلاس میں جن تاریخی الفاظ میں علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا گیا ان میں بھی مصور پاکستان کا ذکر تک نہیں ہے ۔ قرارداد کے الفاظ پر غور کیجئے :
’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس سرمحمد اقبال مرحوم کے اسلام کا ایک فلسفی صوفی و قومی شاعر ھونے کی حیثیت سے ان کی خدمات کی تحسین کرتا ہے۔ مسلمانوں کو انہوں نے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ اپنے ماضی کی روایات سے اپنے مستقبل کو بنائیں۔‘‘

اگر خطبہ الہٰ آباد میں علامہ نے پاکستان کا تصور دیا ہوتا تو اس کا ذکر کم ازکم مسلم لیگ کی اس تعزیتی قرارداد میں ضرور ہوتا ۔یہ پھر کہ علامہ اقبا ل کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال جو کہ خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں اس بات کی کئی بار تصدیق کر چکے ہیں کہ علامہ اقبال نے الہ آباد کے خطبے میں انڈین کنفیڈریشن کے اندر مسلم صوبوں کی تجویز پیش کی تھی ، کسی علیحدہ وطن کا تصور ہرگز نہیں دیا تھا ۔
یہ تمام تاریخی حقائق ثا بت کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک علیحدہ وطن مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھا ۔لیکن اللہ کو منظور تھا کہ پاکستان قائم ہو کر رہے گا لہٰذا جنگ عظیم دوم کے اختتام تک برطانیہ اور امریکہ کو روس کا خطرہ لاحق ہوگیا تو انہیں پاکستان کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور اس طرح 7اپریل 1946ء کو دہلی کے تین روزہ کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبیننٹ مشن کے سامنے پاکستان کا نقشہ پہلی بار مسلم لیگ نے قرارداد کی صورت میں پیش کیاجس میں پنجاب ، سرحد ، سندھ ، بلوچستان ، بنگال اور آسام شامل تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس میں کشمیر شامل نہ تھا ۔ حالانکہ چوہدری رحمت علیؒ کی سکیم میں کشمیر شامل تھا ۔ اسی طرح چوہدری رحمت علی کی پاکستان سکیم میں بنگال اور پاکستان کو علیحدہ مملکتیں شمار کیا گیا تھا جو برطانوی ہند سے ایک ساتھ آزاد ہوں اور ہندو کے مقابلے میں اپنا اتحاد قائم کریں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ شروع میں دوبالکل علیحدہ بلکہ متضاد حقیقتیں تھیں ۔ تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز چوہدری رحمت علیؒ کے پاکستان ڈکلیئریشن Now or Never اور پاکستان نیشنل موومنٹ سے ہوا جس کی مخالفت مسلم لیگ سمیت تمام بڑی جماعتوں نے کی۔ لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود اس تحریک نے مسلمانان ہند کے دلوں میں ایک مقام حاصل کر لیا ۔ اسی تحریک کو مسلم لیگ نے 1937ء کے انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور قرارداد لاہور پیش کی جس کو میڈیا نے قرارداد پاکستان قرار دیا ۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد اسی تحریک پاکستان کوروس کے خوف سے مجبور ًامریکہ اور برطانیہ کو قبول کرنا پڑا ۔ اللہ کو منظور تھا کہ پاکستان بنے اور اس نے اس کے لیے حالات سازگار کر دیے اور جس پاکستان اسکیم کے بارے میں مسلم لیگ نے شروع میں کہا تھا کہ یہ چند طالب علموں کی غیر سنجیدہ اسکیم ہے آخر کار اسی اسکیم کو مسلم لیگ کی کامیابی اور ناموری کا ذریعہ بنا دیا ۔ دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے کسی گوشے کو مسخ نہ کیا جائے اور تحریک پاکستان کے کسی بھی کردار سے ناانصافی نہ کی جائے۔ پاکستان سب کا ہے ، کسی ایک پارٹی ، طبقہ یا گروہ کا نہیں ہے ۔ عدل و انصاف کی بات کی جائے ۔ عدل اللہ کو پسند ہے اور اسلام کا کیچ ورلڈ عدل ہے ۔ تاریخ کے ساتھ بھی انصاف کیاجائے اور تاریخ کے طالب علموں کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے ۔
 

رفیق چوہدری
About the Author: رفیق چوہدری Read More Articles by رفیق چوہدری: 38 Articles with 52270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.