پاکستان اپنی تاریخ کے ایسے موڑ پر آچکا ہے جہاں حکمرانوں کے
علاوہ عوام اور خواص سب کی زندگیاں مہنگائی کے طوفان کی زد میں آچکی ہیں
اور قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ حالات انتہائی دشوار گزار راستے پر پہنچنے
کے باوجود حکمران حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان کی معیشت اس وقت انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے،پاکستان کے پاس
ایک ماہ کی درآمدات کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں، ایک طرف شنید یہ ہے کہ
امریکی ڈالر 260 روپے کی حد بھی عبور کرپہنچ چکا ہے لیکن حقیقت میں 300
روپے میں بھی مارکیٹ میں ڈالر دستیاب نہیں ہے اور ڈالر مہنگا ہونے کے بعد
ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا نظام امریکی ڈالر سے ہی چلتا ہے،آپ کے
پاس کتنا بھی پیسہ کیوں نہ ہو لیکن جب تک آپ کے پاس ڈالر نہیں ہے تب تک
آپ دنیا سے کچھ بھی نہیں خرید سکتے، یہاں تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان
کے پاس ڈالرز ختم ہورہے ہیں ۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس صرف چند دنوں کے
زرمبادلہ کے ذخائر ہیں ، اس کے بعد کیا ہوگا یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
حکومت نے ڈولتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے عوام کا خون مزید نچوڑنا شروع
کردیا ہے اور پیٹرولیم قیمتوں میں یکمشت 35 روپے کا اضافہ کرکے غربت کی چکی
میں پستے عوام کی جینے کی آس کو مزید کمزور کردیا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ
کہ منگل کو آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستانیوں کیلئے کوئی خوشی کی خبر
لے کر نہیں آرہا بلکہ عالمی مالیاتی ادارے کے مشن کے مطالبات پورے کرنے
کیلئے عوام کے اندر موجود لہو کے آخری قطرے بھی مہنگائی کی صورت میں نچوڑنے
کی تیاریاں کرلی گئی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا حال یہ ہے کہ ہمارا سارا دار ومدار قرضوں اور امداد پر
ہوتا ہے،اس لئے ہم قرض دینے والوں کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کے پابند
ہوتے ہیں اور پاکستان میں ہولناک مہنگائی کی وجہ بھی قرضے ہی ہیں اور اب
حالات یہ ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرنے کے علاوہ
کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ خزانہ خالی ہوچکا ہے اور مجھ سمیت ماہرین کی
ترسیلات زر میں فوری اضافے کیلئے تجاویز کے باوجود کوئی عملی پیش رفت سامنے
نہیں آئی۔
حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار
سنبھالنے کے 9 ماہ بعد بھی آپ گزشتہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے
ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اتنے وقت میں کوئی روڈ میپ بنایا جاتا اور
عوام کو کٹھن حالات سے بچانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جاتے لیکن افسوس کہ
حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے ۔ دوست ممالک کی طرف سے امداد
اور سرمایہ کاری کی امید پر ملک کا نظم و نسق چلانے کے خواب دیکھنے
والوں کو شائد زمینی حقائق کا اندازا نہیں ہے۔
اگر بالفرض جنیوا کانفرنس کے وعدوں کو مان بھی لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ
اعلان کی گئی رقم کا 50 فیصد بھی ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے
لیکن آفرین ہے ہمارے حکمرانوں پر جو اس رقم پر اکتفا کرکے بیٹھ گئے جس کا
وجود ابھی صرف باتوں کی حد تک محدود ہے اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں اور
سست روی کی وجہ سے آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف
اور دیگر قرض دہندگان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑ رہے ہیں۔
جہاں تک سیاسی درجہ حرارت کا تعلق ہے تو مریم نواز کی واپسی اس وقت زیادہ
سود مند ثابت ہوتی نظر نہیں آتی، یہ حقیقت ہوسکتی ہے کہ جلسوں میں
لوگوں کو لانے کی حد تک تو مریم نواز بہتر ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس وقت
لوگوں کیلئے روٹی سب سے بڑا سوال ہے اور حکومت میں ہونے کے باوجود شائد
مریم نواز لوگوں کی امیدوں پر عملی طور پر پورا نہ اتر سکیں۔
مریم نواز کے بعد نواز شریف کی بھی وطن واپسی کی صدائیں سننے میں آرہی
ہیں اور نوازشریف عملی سیاست میں ضرور حصہ لیں گے، نوازشریف کے کیسز ختم
ہونے کے بعد ماحول تیار ہوچکا ہے اور نوازشریف کی واپسی کے بعد انتخابات
حصہ نہ لینا خارج از امکان ہے لیکن اس وقت آپ کو سیاست کے بجائے اپنے دو
وقت کی روٹی کی زیادہ فکر ہے۔
حالات آج جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس میں حکمرانوں کو اگر یہ لگتا ہے کہ اس
ڈوبتی کشتی میں سے صرف عوام ڈوبیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہوسکتی ہے
کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور بھوک، بدحالی، بیروزگاری
کا وبال عوام کی زندگیاں چھین رہا ہے اور اگر حالات میں بہتری نہ آئی تو
اس سفینےکے ساتھ حکمرانوں کے تخت و تاج کو ڈوبنے سے بھی کوئی نہیں روک سکے
گا۔
|