مہنگائی اور ریاست کے ستون کو کھوکھلا کرتی دیمک

جودوست سوشل میڈیاپرنٹ میڈیایاالیکٹرانک میڈیاسے وابسطہ ہیں انہیں توعلم ہوگامگرجنہیں کبھی کبھارواسطہ پڑتاہے توانہیں بتاناچاہتاہوں کہ کچھ دن پہلے حکومتی اداروں کی طرف خبرپھیلائی گئی کہ اوگرا نے حکومت کو پٹرول کی قیمتوں میں 83 روپے فی لٹر اضافے کی تجویز دی ہے۔ اس طرح پٹرول کی قیمت تقریباً 310 روپے فی لٹرتک چلی جاتی اس خبرنے گویا سوشل میڈیاپرایک طوفان سابرپاکردیااورمافیازتیل ذخیرہ کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے ادھر پٹرول پمپ مالکان نے فروخت کم کر دی، پٹرول پمپوں پر لمبی لمبی قطاریں لگنے لگیں اورکئی جگہوں پر پٹرول نایاب ہو گیا۔کئی ماہرین کاخیال ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تو دو چار دن پہلے ہی بڑھانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا مگر درمیان میں مریم نواز کی وطن واپسی آ گئی اگر ان کی واپسی سے پہلے پٹرول و ڈیزل مہنگے ہو جاتے تو عوام استقبال کے بجائے احتجاج کرنے پہنچتی اس لئے اس اضافے کو مو?خر کیا گیا اور جب وہ لاہور لینڈ کرتوعوام کوان کی آمدکاگفٹ بھی مل گیااورقیمتیں بڑھادی گئیں اب سوشل میڈیا پر تو یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ یکم فروری کو مزید اضافہ ہو سکتا ہے،مجھے نہیں لگتااب اسحاق ڈاردوباردودن بعدپھراپناڈراؤناچہرہ دکھائیں گے کیونکہ ان کے ٹی وی پر آتے ہی عوام کی رہی سہی جان بھی نکل جاتی ہے کہنے کو اضافہ صرف 35 روپے کا ہوا ہیلیکن اس اضافہ نے20,000سیلری والے ملازم کی زندگی میں کتناقہربرپاکردیاہے یہ محلوں میں رہنے والے اندازہ نہیں لگاسکتے کیونکہ پیٹرول کے اثرات مختلف اشیاء میں منتقل ہو کر کیا قیامت ڈھاتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ڈیزل کی قیمت بڑھی ہے تو ٹرانسپورٹ نے دیرنہیں کرنی اورکرائے بڑھادینے ہیں تاجربرادری جوعوام کو اپناہمدردبتاتی ہے پہلے ڈالر مہنگا ہونے کا بہانہ بنا کر قیمتوں میں دن رات اضافہ کر رہا ہے اب پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہوتے ہی ان کی چاندی ہے۔ سبزیاں، پھل، آٹا، چینی، دالیں، گھی، انڈے، مرغی، بجلی، گیس غرض سب کچھ اب مزید مہنگا ہو جائے گا۔ 35 روپے بڑھے ہیں تو کہیں کروڑوں روپے کا فائدہ اٹھایاجائے گا اسی طرح مختلف اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے دکانداروں کے بھی وارے نیارے ہو جاتے ہیں پستا وہی ہے جس کی محدود آمدنی ہے اور جو اپنا بوجھ آگے منتقل نہیں کر سکتا ان میں فکس تنخواہ دار طبقہ اور دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں اس پہلو پر سوچنے کی کسی کے پاس فرصت نہیں، اس وقت واضح طور پر عوام اور خواص کی سوچ میں ایک گہرا تفاوت موجود ہے عوام کو روٹی دال اور روزگار کی پڑی ہے اور خواص اس لہر میں ہیں کہ سیاست کیسے کرنی ہے عوام پر اپنا قبضہ کیسے برقرار رکھنا ہے ملک کا مستقبل کیا ہے کسی کو کوئی فکر نہیں کوئی روڈ میپ ہے اور نہ منصوبہ کہ جس پر عملدرآمد کر کے ہم اس بحران سے نکل سکیں جس کا اس وقت شکار ہیں سیاسی روڈ میپ نظر آتا ہے اور نہ اقتصادی، پس چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے والی کیفیت ہے حکومت یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے، معاہدہ ہوگا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے حکومت جو ہتھیار ڈال چکی ہے ان کے اثرات سے عوام کو نکالنے کے لئے ہی کئی سال چاہئیں ہوں گے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کیسے آئے گا اس طرف تو کسی کی توجہ ہی نہیں کہنے کو یہ الیکشن کا سال ہے مگر حکومت کے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ الیکشن میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، الیکشن نہیں ہوں گے تو بے یقینی کیسے ختم ہو گی، بے یقینی ختم نہ ہوئی تو سیاسی استحکام کیسے آئے گا سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کیسے بہتر ہو گی؟ گویا سب کچھ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے لیکن سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے متحارب کھڑی ہیں ان میں رابطے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ بہت ہی معذرت کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ اتنی مشکلوں سے قائد اعظم نے یہ ملک حاصل کیا تھاتاکہ میری قوم آزادانہ زندگی بسر کرے۔ کسی کی روک ٹوک نہ ہو تاکہ وہ اس ملک میں سر اونچا کر کے زندگی گزاریں لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ مہنگائی کا گراف اور دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ آئیروز خووکشیوں کے حادثے رونما ہو رہیں، ہمارے صاحب اقتدار کو سوائے اپنے مفاد کے کوئی اور فکر نہیں۔ایسے حالات دیکھ کرکئی لوگ ملک چھوڑرہے ہیں باہر کے ملکوں میں بڑی سہولتیں ہیں مگر آپ کی کوئی پہچان نہیں۔اس لیے ہماری حکومت کو اپنے معاملات ایک طرف رکھ کر ملک کے بارے میں غور و خوص کرنا چاہیے کہ ہمارا ملک کس ڈگر پر چل رہا ہے۔اگریہاں پراپنے میڈیاپربات نہ کروں توقلم کے ساتھ زیادتی ہوگی جب پیٹرول کی قیمت بڑھی توکچھ دیرخبریں چلنے کے بعدفوادچوہدری کی گرفتاری اوروہی سیاسی رسہ کشی توکسی چینل نے مریم صاحبہ کے پروٹوکول میں گھنٹوں لگادیے توکسی نے زمان پارک کے باسیوں پررپورٹیں چلانی شروع کردیں اسے دیکھ کربہت افسوس ہواکہ میڈیاعوام کی آواز کے بجائے صرف اپنی ریٹنگ کے پیچھے پڑاہواہے جس سے یقین ہوگیاہے ریاست کاستون سیاست توپہلے ہی کھوکھلاہوچکاتھااب میڈیاجیسے مضبوط ستون کو بھی دیمک نے چاٹناشروع کردیاہے۔

 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 30879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.