اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے چند سطور) |
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098, [email protected]
پانچ فروری کو ہر سال یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم یکجہتی کشمیر قریب ہے ۔لیکن قوم کے ایک بڑے حصے کو یہ تشویش لاحق ہے کہ 5 فروری کو اتوار ہے لہذا کوئی اضافی تعطیل ان کے حصے میں نہیں آئی ۔ راقم کی نظر میں یہ لوگ یکجہتی کے زیادہ مستحق ہیں ۔اگر اس بار یہ دن ان لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پہ منایاجائے تو بہتر ہوگا۔ 1990 میں پہلی بار یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ پوری قوم کشمیر کو آزادی دلوانے کے لیے پرعزم ہے اور ایک بپھرے ہوئے شیر کی مانند دشمن کے ہاتھ سے اپنی شہرگ کو آزاد کرا لے گی ۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ جوش سرد پڑتا محسوس ہوتا ہے ۔ آج 2023 ہے اور 5 فروری کی آمد آمد ہے لیکن چہار جانب دیکھا جائے تو سرد مہری کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ ہر کوئی اس دن کو چھٹی سمجھ کر اپنی مصروفیات کا تعین کرتا ہے ایک کثیر تعداد ہم وطنوں کی ایسی بھی ہے جو اس دن خود کو فارغ جان کر اپنا وقت ہندوستانی فلمیں دیکھنے میں گزار دیتی ہے ۔ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے سرگرمیاں مذہبی جماعتوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔ حکومت پاکستان نے شاہراہوں پہ کشمیری شہروں کے سنگ میل آویزاں کر نے اور شاہرات کے نام کشمیر کے شہروں کے نام سے منسوب کر نے پر اکتفا کر لیا ہے ۔ چند جذباتی تقاریر کر کے یہ حکمران شم بخ شو ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ بھارتی قبضے میں شہ رگ پاکستان(کشمیر) میں لگی آگ ہے، جا بجا کرفیو ہے ، بھارتی فوجوں کی جانب سے کشمیری عوام کا قتل عام ہے ، گرفتاریاں ہیں ، خواتین کی عصمت دری ہے ، آزادی کا مطالبہ کرنے والوں پہ فائرنگ ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہے، ہر قریہ ہر گاؤں ظلم کی داستانیں ہیں اور عالمی ضمیر کی بے حسی ہے ۔ یکجہتی کی روایت کوئی نئی نہیں ہے یہ قیام پاکستان سے بھی قدیم ہے۔ 13 جولائی 1931 ء کو جب 22 فرزندان توحید نے سری نگر میں آذان کی تکمیل میں جام شہادت نوش کیا تو اس وقت علامہ محمد اقبال کی اپیل پر پورے ہندوستان میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا تھا ۔ پہلی بار یوم یکجہتی کشمیر 14 اگست 1931 کو منایا گیا ۔اسلامیان کشمیر پاکستان اور 14 اگست سے اپنا تعلق بھول نہیں سکتے ۔
اہل ِکشمیر نے اسی یکجہتی کی خاطر اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کیا ۔عملی طور پہ میدان عمل میں کودے ، بڑی طاقتوں سے ٹکرائے ۔ اسی کی پاداش میں 1947 میں ریاست جموں و کشمیر میں قتل ِعام کیا گیا اور جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ۔ یہ قتل عام اتنا سنگین تھا کہ اس نے جموں کی آبادی کا تناسب ہی بدل ڈالا ۔ مسلم اکثریت کو مسلم اقلیت میں بدل ڈالا گیا ۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی ۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن عالمی ضمیر بےپروائی کی چادر تانے خواب خرگوش کے مزے لوٹتا رہا ۔ 1947 سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں ۔ ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کی گئی ، ہزاروں بے گھر ہوئے، بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی ، مسلح مزاحمت ہوئی لیکن عالمی ضمیر بیدار نہ ہوا۔وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیر میں ہونے والے قتل عام کو اقوام عالم کے رو برو پیش کرتے وقت ہمارے وکلاء اور نمائندوں نے اسے انسانی المیے کے طور پر پیش ہی نہیں کیا ۔ بلکہ حق خود ارادیت کا مقدمہ بنا کر پیش کیا گیا جسے تسلیم تو کر لیا گیا لیکن یہ حق دیا نہیں گیا ۔ جو انسانیت کی کم سے کم حد کو بھی پامال کرچکے ہوں اُن سے کس حق کی ادائیگی کی توقع کی جا سکتی تھی ۔ بقول نسیم حجازی مرحوم " بھیڑ کے بچے کی ممناہٹ سے بھیڑیا متاثر نہیں ہوتا لیکن شیر کے طاقتور پنجے کا وہ احترام کرتا ہے"۔
عالمی برادری کے کردار کو ایک طرف رکھیں تو دوسری جانب کشمیر کےمقدمے کو شاید ہم نے لڑنے میں ہی غلطی سے کام لیا ہے ۔ اسے ہم نے اقوام عالم کے سامنے صحیح انداز میں پیش ہی نہیں کیا ۔کشمیر پہ ہمارے موقف نے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعہ ہے ۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اور علاقے کو استصواب تک متنازعہ مانا گیا لیکن اسکے بعد دونوں ملکوں نے باہم مذاکرات کر کے ریاست کے بارے میں اصولی موقف کو کمزور کیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ دونوں اطراف سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی خلاف ورزی کی گئی ۔ مسئلہ کشمیر کی مسلم اکثریت کی بقا کا ہے اسے نہ تو صحیح معنوںمیں اٹھایاگیا نہ اپنے ہی موقف پہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا گیا۔کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لیے استصواب رائے پہ اتفاق ہوا تھا لیکن دو طرفہ مذاکرات کر کے ان کی امنگوں کے بر خلاف فیصلے کیے گئے ۔دوسری جانب اس مسئلے کو بزور قوت حل کرنے کے بھی کئی مواقع ہمیں قدرت نے عنایت کیے لیکن ہم نے گرم لوہے پہ ضرب کاری لگانے کے بجائے وہ قیمتی مواقع بھی ضائع کر دیے ۔
ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ محض دو ممالک کے درمیان سرحدی تنازعے کا نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کی بقا اور سالمیت کا ہے۔دنیا کے دیگر خطوں میں اکثریت نے اقلیتوں کو دبانے کی کوشش کی ہے لیکن کشمیر کے معاملے میں کہانی کچھ الٹ ہے۔ اس وقت کی ڈوگرہ حکومت جو کشمیر کی اقلیت کی نمائندہ حکومت تھی نے جبر اور استبداد کے بل پر مسلم اکثریت کو نہ صرف دبانے بلکہ اسے ختم کرنے کی کوشش کی اور اس کے ان ناپاک عزائم کو بھارت سرکار آگے بڑھا رہی ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ کشمیر کی اکثریت کیا چاہتی ہے ۔ ریاست کے آزاد حصے پہ نگاہ دوڑائیں تو آزاد کشمیر کے دس اضلاع ہیں جو سو فیصد مسلم آبادی کے حامل ہیں ۔ گلگت بلتستان کے دس اضلاع کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے ۔ مقبوضہ وادی کے دس اضلاع 95 فیصد مسلم آبادی رکھتے ہیں ، جموں کے دس اضلاع میں سے پانچ مسلم اکثریت کے ہیں جبکہ پانچ ہندو اکثریت کے حامل ہیں ۔ لداخ میں دو اضلاع ہیں جن میں سے کارگل مسلم اکثریت جبکہ لیہ بدھمت کی اکثریت کا حامل ہے ۔ محض پانچ اضلاع کی اکثریت پوری ریاست کا فیصلہ نہیں کر سکتی ۔لہذا یہ ضروری ہے کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں ڈھالاجائے ۔ اس کا ایک طریقہ کار تو قتل عام ہے اور دوسرا یہ کہ دیگر علاقوں سے غیر مسلم لا کریہاں بسائے جائیں۔ قتل عام کی اجازت تو کوئی قانون نہیں دیتا لہذا بھارت نے ہندو آبادکاری کی راہ ہموار کرنے کے لیے آئینی ترامیم کیں ۔ 2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے کی گئی قانون سازی نے کشمیر میں ہندو انتہاء پسندی کو قانونی جواز دے کر قتل عام کا راستہ ہموار کر دیا ہے ۔اس نازک موڑ پر امت مسلمہ کے کردار کی اشد ضرورت ہے لیکن ایک طرف تو امت خوابیدہ شیر کی مانند ہے اور دوسری جانب امت کےمقتدر طبقے نے امت کا درد محسوس ہی کب کیا ہے۔امت کے ایک بڑے حصے نے کشمیر کو تر نوالے کی طرح بھارتی بھیڑیوں کے سپرد کر دیا ہے اور خود تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ امت کی خاموشی از خود ایک بڑا جرم ہے لیکن یہی نہیں کچھ مسلم ممالک کی جانب سےبھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں چڑھانا کشمیری عوام کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہے۔پاکستانی حکومتوں کی جانب سے سرد مہری کے اس رویے نے بھارتی تسلط کو مضبوط اور توانا کیا ہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2022 میں بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر سری نگر کے لال چوک میں بھارتی ترنگا لہرا دیا گیا جو اس سے قبل کبھی نہیں لہرایا گیا۔اس عمل سے گویا بھارت نے اپنی فتح کا اعلان کر دیا ہے ۔
یوں لگتا ہے جیسے حکومت پاکستان عملی طور پر کشمیر کے مقدمے سے دستبردار ہو چکی ہے ۔گزشتہ حکمرانوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کے لیے جو زور آزمائی کی وہ بھارتی آئینی ترامیم کو تقویت دینے کا باعث ہیں ۔اسی طرح آزاد حکومت ریاست کشمیر کے معاملات میں مداخلت اور آزاد حکومت کے خلاف پاکستانی حکمرانوں کے جارحانی رویے نے بھی کشمیری عوام کو مایوس کیا ہے اور بھارت کو پاکستان کے خلاف زہر فشانی کا موقع ملا ہے ۔ حکمرانوں کی بے حسی اور عوام میں سرد ہوتی یکجہتی کو دیکھتے ہوئے ایک اور منظرنامہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے جو کئی گنا بھیانک ہے۔ آخری فوجی اور آخری گولی کا دلاسہ تو دیا گیا لیکن نہ ہی پہلا فوجی نظر آیا نہ ہی پہلی گولی کی آواز آئی ۔ اس سرد مہری سے کشمیر کے عوام مایوس تو ہو رہے ہیں لیکن انہوں نے آزادی کا راستہ دیکھ لیا ہے ۔ وہ اپنی آزادی کے لیے بھارت سے ضرور ٹکرائیں گے۔ لیکن اس بار شاید وہ پاکستان کی جانب نہ دیکھیں ۔ عالمی طاقتیں اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور وہ اس تاک میں ہیں کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں ۔ دنیا میں موجود سکھوں نے آزاد وطن کے مطالبے میں اضافہ کیا ہے ۔ اگر سکھ علیحدگی پسند کسی تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو یہ تحریک آزادی کشمیر کو ایک مہمیز دے گی ۔ اس صورتحال کا فائدہ لازمی طور پر وہ قوتیں اٹھائیں گی جو قومیت کی بنیاد پر کشمیر کو آزاد کرانا چاہتی ہیں ۔ اس وقت دنیا میں بھر میں موجود قادیانی لابی بھی اس صورتھال سے فائدہ اٹھائے گی ۔ لبرل ازم کی بنیاد پہ اٹھائی جانے والی اس تحریک کو عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو گی ۔ یوں یہ ساری صورتحال ایک خودمختار کشمیر کی جانب جاتے ہوئے نظر آتی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ آزاد مملکت بھارت نواز اور پاکستان دشمن ہو گی ۔ کشمیر کے چوکوں اور چوراہوں میں پھانسی گھاٹ سجائے جائیں گے اور ان لوگوں کو تختہ مشق بنایا جائے گا جو تحریک آزادی کشمیر کے صف اول میں لڑتے رہے ہیں۔وہاں پاکستان کے حمائتی طبقے کو غدار کہہ کر پکارا جائے گا اور یہاں پوری کشمیری ملت کو بے وفا قرار دیا جائے گا ۔حالانکہ بے وفائی کی گھٹائیں اسلام آباد سے اٹھ رہی ہیں ۔ سرد موسم میں خون بھی یہیں منجمد ہو رہا ہے ۔ خوب امیدیں بندھیں لیکن ہوئیں حرماں نصیب بدلیاں اٹھیں مگر بجلیاں گرانے لے لیے حکومت کو چاہیے کہ اس نازک وقت میں خواب غفلت سے بیدار ہو کر آگاہی مہم چلائے ، عوام کی تربیت کرے اور تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرے اور اپنی تمام تر توانائیاں کشمیر کی آزادی پہ صرف کرے ۔ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو تمام اہل کشمیر کی حکومت قرار دیا جائے اور انہیں کشمیر کی ترجمانی اور نمائندگی کا فریضہ سونپا جائے۔ آزاد حکومت پہ اعتماد کرتے ہوئے انہیں خارجہ امور میں آزادانہ حصہ دیا جائے ۔تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مختلف ممالک میں سفارتی مشن سونپے جائیں تاکہ وہ رائے عامہ کو ہموار کر سکیں اور اس مشن کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کریں ۔اسی طرح ریٹائرڈ سول و ملٹری افسران کو بھی اسی نوعیت کی ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ اقوام عالم کے سامنے اس مسئلے کو انسانی المیے کے طور پر پیش کیا جائے ۔بلاد عالم میں سکونت پزیر پاکستانیوں کو مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے تیار و آمادہ کیا جائے اور ان کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ سفارتی اور عسکری دونوں سطحوں پہ خود کو مضبوط کیا جائے۔عوامی سطح پر ملک بھر میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور بھارتی میڈیا اور اس سے پیوستہ بھارتی ثقافی یلغار کا کو بند کیا جائے ۔ٹرانسپورٹ، کیبل آپریٹر اور تاجر یونینوں سے بات چیت کر کے ہندوستانی ، مصنوعات ، موسیقی اور فلموں کا بائیکاٹ کرایا جائے ۔
عملی طور پر آزادی کشمیر کے لیے تیاری کی جائے اور کمر کس لی جائے ۔فوری طور پہ شہری دفاع کی تربیت کا بندوبست کیا جائے خصوصا آزادکشمیر میں ۔ اسی طرح سرحدی علاقوں میں دفاع کی غرض سے اسلحہ بھی پہنچایاجائے۔ سکول ، کالج ، یونیورسٹی اور مدارس کے طلباء سے مضامین بھی لکھوائے جائیں اور ان سے موثر اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں ، بڑے صحافتی اور نشریاتی اداروں ، اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کو خطوط لکھوائے جائیں ۔ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے ۔فیس بک ، ٹویٹر ،، ٹک ٹاک ، یو ٹیوب کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کیا جائے ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کردار ادا کرنے کا کہا جائے ۔ اقوام عالم کی ہر طرح سے ذہن کشائی کی جائے اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ ہمیں اپنے ہر قول اور ہر فعل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے کمر بستہ ہیں ۔ اگر ہم اجتماعی طور پہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اپنی منزل مراد کو پہنچ سکتے ہیں ۔ کشمیر میں بہایا گیا خونِ مسلم ان شاء اللہ رائیگاں نہ جائے گا ۔شہداء کے خون کی سرخی سے ہی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
اگرچہ بقول قائد اعظم ؒ ریل ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے تاہم اب بھی ہم نے راست اقدام نہ اٹھایا تو بعید نہیں کہ سقوط ِ غرناطہ اور سقوط ِ بغداد اور سقوط ڈھاکا کی تاریخ دہرائی جائے اور ہمیں بھی ایک ایک کر کے گاجرمولی کی طرح کاٹ دیا جائے ۔ کشمیر کے پھانسی گھاٹوں پہ اسلامیان وطن کی لاشیں جھول رہی ہوں اور ہم ان کے لیے احتجاج بھی نہ کر سکیں ۔ ہمارا نام ہڑپہ اور مو ئنجوڈارو کی تہذیبوں کے ساتھ لیا جائے اور ہمارے کھنڈرات پہ لگے نوشتہ دیوار میں یہ تحریر لکھی ہو کہ یہ وہ بدبخت قوم تھی جو اپنی قوت کو پہچان نہ سکی اور بقا کا سامان ہوتے ہوئے بھی فنا ہوگئی ۔
|