چانکیہ مگدھ (بہار) کے راجہ چندر گپت کا اتالیق تھا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے سب سے وفادار اتالیق امیت شاہ کو ان کی عیاری و
مکاری کے سبب بھگتوں نے چانکیہ کے خطاب سے نواز دیا ۔ گجرات کے اس چانکیہ
کا ڈنکا یوں تو سارے ملک میں بجتا ہے لیکن جب اس کا سابقہ بہار کے چانکیہ
نتیش کمار سے پیش آتا ہے تو اصلی اور نقلی کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے۔ پچھلے
دنوں بی جے پی کے رکن پارلیمان پردیپ کمار سنگھ نےیہ پیشنگوئی کی کہ بہار
میں بھی مہاراشٹر کی طرح کا کھیل ہوگا اور حکومت بدل جائے گی ۔ پردیپ کمار
کے خیال میں ریاستی ارکان اسمبلی اور پارلیمان کا نتیش کمار سے اعتماد اٹھ
چکا ہے اور وہ بہت جلد بی جے پی میں شامل ہونے والےہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ
یہ ایم ایل اے اور ایم پی غلط پارٹی میں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر
ایساسمجھنے والے پردیپ کمار کون ہوتے ہیں؟ انہیں نتیش کمار کے اس اعلان سے
بھی پریشانی ہے کہ تیجسوی یادو بہار کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ ان کے
مطابق کوئی بھی ایم پی اور ایم ایل اے تیجسوی کو وزیر اعلی نہیں مانے
گالیکن کیوں نہیں مانے گا ؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
وطن عزیز میں ہر کسی کو شیخ چلی کی مانند خواب دیکھنے کی آزادی ہے اور اس
کا فائدہ اٹھاکر پردیپ سنگھ جیسے بی جے پی والوں نے بہار کے وزیر تعلیم
چندر شیکھر یادو کے رام چرت مانس پر بیان کے بعد مونگیری لال کے حسین سپنے
بننا شروع کردئیے جبکہ بی جے پی اس کو بھول بھال خاموش ہوگئی۔ یہ حسنِ
اتفاق ہے کہ پردیپ سنگھ کے خواب سے بیدار ہونے سے قبل بہار میں نتیش کمار
نے کھیلا کردیا ۔ انہوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق نائب صدر راجیو رنجن کو
ان کے حامیوں سمیت جنتا دل یونائیٹڈ میں شامل کرلیا ۔ جے ڈی یو کے قومی صدر
للن سنگھ اور ریاستی صدر امیش سنگھ کشواہا کی موجودگی میں سابق رکن اسمبلی
راجیو رنجن نے گھر واپسی کی اوراس کے بعد وہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملنے
ان کی رہائش گاہ پرچلے گئے۔اس موقع پر للن سنگھ نے کہا کہ وہ کچھ دنوں کے
لیے بھٹک کر بڑکا جھوٹا پارٹی(بی جے پی) میں چلے گئے تھے، لیکن اپنا گھر
اپنا ہی گھر ہوتا ہے، چاہے اس میں کچھ دقت ہی کیوں نہ ہو۔
نتیش کمار نے وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے بی جے پی سے
رشتہ توڑا ہے اس لیے للن سنگھ نے ان کا موازنہ نریندر مودی کے منصوبوں سے
کیا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار تمام طبقات اور ذاتوں کے ساتھ
انصاف کے ساتھ مسلسل ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے مطابق مرکزی حکومت نے
بہار سرکار کےمنصوبوں کی نقل کی ہے۔ للن سنگھ نے پوچھا کہ ہر گھر میں بجلی،
ہر گھر میں نل کا پانی، سائیکل اور ڈریس اسکیم کس نے شروع کی؟ اپنے سوال کے
جواب میں وہ بولےوزیراعلیٰ نتیش کمار نے 2015 میں ہر گھر نل کا جل منصوبے
کا آغاز کیا جبکہ مرکز نے 2019 میں اسے شروع کیا۔ سال 2018 میں نتیش کمار
نے ریاست کے ہر گھر کو بجلی فراہم کردی ۔جے ڈی یو کے قومی صدر نے کہا کہ فی
الحال ریاست میں 22 سے 24 گھنٹے بجلی مل رہی ہے اب وزیر اعظم نریندر مودی
بتا ئیں کہ کیا ان کی کوئی اسکیم پایۂ تکمیل کو پہنچی ہے ؟ اس کے ساتھ للن
سنگھ نے 2014 کے ہر سال دو کروڑ نوکریاں اور سب کے کھاتے میں 15-15 لاکھ
روپے دینے کا جو وعدہ یادلاکر اجولا اور آیوشمان منصوبے کا حال پوچھا۔وہ
بولے جو گیس 400 روپے فی سلنڈر ملتی تھی اب 1200 روپے میں مل رہی ہے، غریب
کیسے گیس خریدے گا؟
نتیش کمار کو اس بات کا علم ہوگیا ہے کہ عمر کے لحاظ سے ان کا سیاسی سفر اب
قریب الختم ہے اس لیے قومی سطح پر اگر کچھ کرنا ہے تو ابھی نہیں یا کبھی
نہیں کی صورتحال ہے۔ انہوں نے بہار کی باگ ڈور تیجسوی یادو کے حوالے کرکے
قومی سطح پر اہم سیاسی کردار ادا کرنے کا من بنالیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ
اگر 2024 میں بی جے پی کا جہاز اپنے کالے کرتوتوں کے سبب ڈوب جائے اور
علاقائی جماعتوں کو کانگریس کے برابر یا اس سے زیادہ نشستوں پر کامیابی مل
جائے تو ایچ ڈی دیوے گوڑا کی مانند ان کی قسمت کھل سکتی ہے کیونکہ وہ وسیع
تجربہ اور تعلقات کے حامل ہیں۔ اپنے خوابوں کو شرمندہؐ تعبیر کرنے کی خاطر
نتیش کمار کے لیے بہار میں ایک زبردست کامیابی درج کرانا نہایت ضروری ہے۔
اس لیےانہوں نے 4جنوری کو مغربی چمپارن ضلع کے والمیکی نگر سے اپنی
’سمادھان یاترا‘ کا آغاز کیا۔ سمادھان یاترا کے دوران وہ مختلف ترقیاتی
اسکیموں پر غور کرکے عہدیداروں کو ہدایات دے رہےہیں۔ وزیر اعلیٰ نے دیہی
علاقوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو دیکھ کر مسرت کا اظہار بھی کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی سمادھان یاترا کامقصد بتاتے ہوئے کہا کہ وہ
اس کے ذریعہ حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے کام کی پیش رفت کا بذاتِ
خود معائنہ یا جائزہ لینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی کی
بھارت جوڑو یاترا نے برسرِ اقتدار رہنما وں کوبھی اپنے محلوں سے نکل سڑک پر
اترنے کے لیے مجبور کردیاہے ۔ یہ یاترا بھی عوام سے رابطہ قائم کرکے اور ان
کا اعتماد حاصل کرنے کی ایک سعی ہے لیکن اس کے ذریعہ انتظامیہ چاک و چوبند
ہورہا اور عوامی فلاح و بہبود کے جو کام کچھوے کی رفتار سے چلتے تھے وہ
خرگوش کی مانند اچھل کود کر بھاگنے لگیں گے۔ نتیش کمار کی اس مہم نےخواب
خرگوش میں مبتلا انتظامیہ کو بیدار کردیا ہے۔ نتیش کمار کا دعویٰ ہے کہ وہ
پہلے بھی کام میں کمی معلومات حاصل کرنے مسائل کا پتہ لگانے کے لیے دورے
کرتے رہے ہیں ۔ وہ مختلف سرکاری اسکیموں میں تاخیروجہ معلوم کرکے رکاوٹ دور
کرنے کے احکامات جاری کررہے ہیں اور انہوں نے بہار کے بچوں کی پڑھائی دیکھ
کر خوشی کا اظہار کیا۔ پندرہ سال اقتدار میں رہنے کے بعد اگر وہ خود مطمئن
نہ ہوں تب تو عوام کی ناراضی اور مایوسی مزید بڑھ جائے گی ۔ اس لیے ہر جگہ
خوشی اور اطمینان ظاہر کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار چاہے جو کہیں میڈیا جانتا ہے کہ ان نگاہیں اور نشانہ
کہاں ہے؟ اس لیے سمادھان یاترا کے دوران ان سے بار بار سوال کیا جاتا ہے کہ
وہ ملک کے دورے پر کب نکلیں گے؟ اس بابت انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میری دوڑ
دھوپ صرف بہار کی حدتک محدود رہے گی بلکہ بولے پہلے اپنے علاقے اور ریاست
میں ہونے والے کام کو دیکھ لیں اور اگر کچھ رہ گیا ہے تو کر لیں۔ اسمبلی کے
اجلاس تک وہ اس یاترا کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد آگے کی حکمت
عملی بنائیں گے۔ یعنی صوبے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے بعد وہ ملک کی
یاترا پر روانہ ہونے کے بارے میں سوچیں گے۔ یہ ایک فطری ترتیب اور سوچا
سمجھا منصوبہ ہے۔ فی زمانہ ہر سیاستداں کے لیے اس طرح کی سرگرمیاں لازمی
ہیں ورنہ بند کمرے میں سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے اور ان کی دولت سے
میڈیا کے ذریعہ عوام کو ورغلانے کا کھیل کب تک چلے گا ؟ جلد یا بہ دیر لوگ
اس فریب سے نکلیں گے اور پھر حکمرانوں کو اسی عبرتناک انجام سے دوچار کریں
گے جومصنوعی مقبولیت کے حامل ہٹلر اور مسولینی کا ہوا تھا۔
سمادھان یاترا کے علاوہ نتیش کمار کا ماسٹر اسٹروک ذات پات کی بنیاد پر
مردم شماری ہے۔ اس کارڈ میں بی جے پی کوجڑ سے اکھاڑنے کی سکت ہے۔1980میں
منڈل کمیشن نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ملک میں او بی سی 52فیصد ہیں ۔ پچھلے
چالیس سالوں میں ان کی آبادی کا تناسب یقیناً بڑھا ہوگا کیونکہ نام نہاد
اونچی ذاتوں کے اندر بچوں کی شرح کم ہے۔اس تناظر میں بی ایس پی کے مؤسس
کانشی رام کا یہ نعرہ اہم ہوجاتا ہے کہ ’جس کی جتنی سنکھیا(تعداد) بھاری اس
کی اتنی حصے داری ‘ فی الحال یہ نعرہ زبان زدِ عام ہوچکا ہے اور سنگھ
پریوار کے لیے سوہانِ جان بنا ہواہے۔ پسماندہ طبقات کا مطالبہ ہے کہ جب
آبادی میں تناسب طے ہوجائیگا تو سرکاری اسکیمات وغیرہ میں بھی حصہ داری سے
ان طبقات کو فائدہ ہوسکےگا ۔ اس مردم شماری سے اگر یہ حقیقت کھل کر سامنے
آجائے کہ پسماندہ طبقات کی آبادی کے تناسب سے سرکاری ملازمتوں کے علاوہ
تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں حصہ داری نہیں ہے تو لازماً وہ ناراض ہوجائیں
گے اور اس کا اثر بی جے پی کے سیاسی اور انتخابی امکانات پر پڑے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ پسماندہ ذاتوں پر مشتمل علاقائی جماعتیں ذات کی بنیاد پر
مردم شماری پر اصرار کرتی رہی ہیں۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے ذریعہ
زور و شور سے یہ مطالبہ کیا جا رہاہےدیگر علاقائی جماعتیں بھی اس مطالبہ کی
حامی ہیں کیونکہ پسماندہ طبقات میں ان کا اچھا خاصا اثر و رسوخ یعنی اور
ووٹ بینک پایا جاتا ہے ۔ علاقائی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر
پسماندہ طبقات کے مطالبہ کو آگے بڑھاتی ہیں لیکن بی جے پی حکومت اس مطالبہ
کو پورا کرنے سے گریز کررہی ہے ۔ بہار میں بی جے پی نے ذات کی بنیاد پر
مردم شماری کے حوالے سے جو موقف اختیار کرلیا ہے اس سے دیگر ریاستوں میں
بھی یہ مطالبہ ہوگا۔اتر پردیش اور مہاراشٹر میں یہ آگ پھیل رہی ہے ۔ بی جے
پی کے کمل کی خاطر اس کی تپش کا مقابلہ کرنا بے حد مشکل ہے۔ وہ اس مشکل کو
آسان کرنے کی خاطر کون سا شوشہ چھوڑتی ہے اوراس مقصد میں کس قدر کامیاب
ہوتی ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن یہ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال نتیش کمار بی
جے پی کی آنکھ کا کانٹا بنے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے پھر سے منڈل کو
کمنڈل کے سامنے کھڑا کرکے نام نہاد چانکیہ کی نیند اڑا دی ہے۔
|