آر ایس ایس کے صدر دفتر میں شروع دن سے وجئے دشمی یعنی
دسہرا کا تہوار بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا رہا ہے لیکن اس کو یوم
آزادی اور یوم جمہوریہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی ۔یہ ایک
تاریخی حقیقت ہے کہ آر ایس ایس کو مرکزی دفتر پر ترنگا لہرانے کے لیے
مجبور کرنے کی خاطر لوگوں کو تحریک چلانی پڑی اور گرفتاریاں بھی ہوئیں ۔
پچھلے سال پہلی بار یوم جمہوریہ کے موقع پر ناگپور میں واقع سنگھ کے صدر
دفتر ریشم باغ کے اندر ترنگا لہرایا گیا۔ حکومت کے ایماء پر گزشتہ سال جب
آزادی کی 75ویں سالگرہ کا جشن منایا جارہا تھا ، گھر گھر ترنگا لہرایا
جارہا تھا تو 16؍ اگست کو سنگھ کے مرکزی دفتر پر بھی پہلی بات ترنگا لہرا
کر یوم آزادی کی تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ امسال پھر مرکزی دفتر پر اس
تقریب کا اہتمام تو ہوا مگر سر سنگھ چالک وہاں موجود نہیں تھے بلکہ وہ جئے
پور میں بی جے پی کے اوپر لگائے جانے والے کانگریس کے الزامات کا بلا واسطہ
جواب دے رہے تھے۔
بی جے پی کو انتخابی کامیابی دلانے کی خاطر سنگھ کے کارکنان کا میدان میں
اتر کر کام کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے مگر خود سر سنگھ چالک کا خطاب کرکے
کانگریس کو جواب دینے کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ کا نگریس کے صوبائی صدر
گووند سنگھ ڈوٹسارا نےیوم جمہوریہ کے موقع پر مرکز کی مودی سرکار پر تنقید
کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جنگ میں کانگریس نے اہم کردار ادا کیا لیکن بی
جے پی سرکار کی وجہ سے آئینی اداروں پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔مرکزی حکومت ای
ڈی اور انکم ٹیکس کا غلط استعمال کررہی ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بول کر عوام کو
گمراہ کیا جارہاہے ۔ ملک میں مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ عام لوگوں سے
بولنے کی آزادی چھینی جارہی ہے۔ سب لوگوں کو مل کر اس رحجان کو روکنا
چاہیے۔ سرکار کے ذریعہ عام لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کیا جارہاہے۔ بھائی
کو بھائی سے لڑا کر ملک میں خوف کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ عوام کے دل سے
ڈر ختم کرنے کے لیے راہل گاندھی ملک بھر میں بھارت جوڑو یاترا نکال رہے ہیں
۔
کانگریس کے ان اعتراضات کے جواب میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے
اسی شہر میں پہلے تو ترنگے کی دلچسپ تعریف کی۔ اس پر موجود نارنگی رنگ کے
بارے میں تو انہوں نے کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ پٹھان کے نغمہ ’بے
شرم رنگ‘ کی مخالفت نے ساری دنیا کو اس کا مطلب سمجھا دیا ہے اور فلم کی
زبردست کامیابی سے ہندوتوا نواز بائیکاٹ گینگ کی حیثیت بھی ظاہر ہوگئی
ہے۔بھاگوت کے مطابق قومی پرچم میں سفید رنگ پاکی اور سبز لکشمی اور خوشحالی
کی علامت ہے۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے جھنڈے
سے یہ دونوں رنگ غائب کیوں ہیں؟ کیا اس کا پاکی اور خوشحالی سے کوئی بیر
ہے؟ ویسے اپنی اس نئی تعریف میں انہوں نے بڑی چالاکی سے قومی پرچم کے اندر
سے امن اور مسلمان کو غائب کردیا ۔ اس طرح کے شوشے چھوڑ کر عوام کو ورغلانہ
سنگھ کی شعار بن گیا ہے۔
موہن بھاگوت نے آگے چل کر اپنے خطاب میں بلا واسطہ راہل گاندھی کےسُرسے
سُر ملاتے ہوئے کہا وہ شخص سبھی کو اپنا مانتا ہے جو سچے دل سے آگے بڑھتا
ہے۔ فی الحال سچے دل سے آگے بڑھنا اور سب کو اپنا ماننے کی اصطلاحات بھارت
جوڑو یاترا کی شناخت بن گئی ہیں۔ سر سنگھ چالک کے مطابق عام طور پر جس ملک
میں آزادی ہوتی وہاں مساوات نہیں ہوتی اس لیے’’ ہمیں آپس میں بھائی چارہ
بڑھانا ہوگا ۔ ایک ہونا ہوگا ۔ اس کے بعد حقیقی آزادی اور مساوات آئے
گی‘‘۔ویسے توموہن بھاگوت نے یہ باتیں نریندر مودی کی مانند پگڑی باندھ کر
کہیں مگر اس میں راہل گاندھی کے حالیہ تقاریرکی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سر
سنگھ چالک کی زبان سے سچے دل سے آگے بڑھ کر سبھی کو اپنا سمجھنے اوت بھائی
چارہ کو فروغ دے کر حقیقی آزادی اور مساوات کے حصول کی باتیں کانوں میں
بھلی لگتی ہیں مگر زمینی حقائق اس سے متضاد ہیں ۔ اس لیے یہ چکنے چپڑے بول
اور کھوکھلے اور بے معنیٰ لگتے ہیں ۔
انڈین ایکسپریس میں گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی خبر کے مطابق دہلی میں
منعقدہ آل انڈیا ڈائریکٹر جنرل اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کانفرنس میں، کچھ
پولیس افسران نے ملک میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی پر تشویش کا اظہار کیا۔اس
نشست میں شریک عہدیداروں نے دستاویزات کی مدد سے اسلامی تنظیموں کے ساتھ
ساتھ ہندو تنظیموں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ہندو انتہا پسندوں کی
سرگرمیوں کو متوازن کرنے کے لیے اسلامی تنظیموں کو ہدف بنانا سرکاری
ملازمین کی پرانی عادت ہے لیکن بی جے پی سرکار کے چلتے ہندو تنظیموں پر
انگشت نمائی بڑی بات ہے۔ مذکورہ نشست میں پیش کردہ
یہ دستاویزات کو مرکزی حکومت برداشت نہیں کرسکی اور بہت جلد اسے کانفرنس کی
ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔20 سے 22 جنوری تک جاری رہنے والی اس اہم کانفرنس
میں وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی شرکت کی
تھی ۔ان دستاویزات میں سے ایک میں سنگھ پریوار کا اہم حصہ سمجھی جانے والی
وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو بنیاد پرست تنظیمیں قرار دیا گیا تھا۔
عوامی خطاب میں میٹھی میٹھی باتیں کرکے ایسی دہشت گرد تنظیموں کی نہ صرف
پرورش کرنا بلکہ اان کو تحفظ عطا کرنا بدترین دوغلا پن ہے۔
اس اہم کانفرنس میں ایک ایسی دستاویز بھی پیش ہوئی جس میں میں کہا گیا کہ
بابری مسجد کا انہدام، ہندو قوم پرستی میں اضافہ، گائے کے گوشت پر ہجومی
قتل اور گھر واپسی کی تحریک کو اسلامی بنیاد پرستی اور پاپولر فرنٹ کے
ذریعے نوجوانوں کی بنیاد پرستی کے لیے افزائش گاہوں کے طور پر استعمال کیا
جا رہا ہے۔ اس بات کو اگر درست مان لیا جائے تو اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ
اگر اسلامی بنیاد پرستی ہے بھی تو وہ ردعمل ہے ۔ حکومت اگر ان عوامل کو
قابو میں کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اس کو فروغ دے یا جواز
فراہم کرے تو اس کے خلاف ہونے والے ردعمل کے لیے وہ خود ذمہ دار ہوگی۔ اس
موقع پر کئی عہدیداروں نے مسلمانوں میں انتہا پسندی کو کم کرنے کے لیے
انہیں ریزرویشن دینے کے علاوہ سیاسی نظام میں ان کی نمائندگی بڑھانے کی
سفارش کی لیکن موجودہ حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے ۔ کا یہ حال
ہے کہ اس میں اقلیتی امور کی وزارت بھی سمرتی ایرانی کے پاس ہے اور وہ آئے
اقلیتوں کو حاصل مراعات پر آئے دن بلڈوزر چلاتی رہتی ہیں ۔ ایسے میں ان
افسران کی باتوں پر کون کان دھرے گا؟
ملک میں نظم و نسق قائم رکھنا مقننہ کی نہیں بلکہ انتظامیہ کی ذمہ داری
ہوتی ہے۔ اس لیے پولس کے افسران زمینی حقائق کی بہتر معلومات سے لیس ہوتے
ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ دائیں بازو کے افراد یا تنظیمیں( ان میں سے
بیشتر سنگھ پریوار کی پروردہ ہیں) قوم کے بارے میں انتہائی خود مختار نظریہ
رکھتی ہیں،۔ یہ لوگ اقلیتوں کی منفرد شناخت کے قائل نہیں ہیں ۔ ان کے مطابق
ملک اور اس میں رہنے والے لوگ بنیادی طور پر شناخت کی سطح پر ایک جیسے ہیں
اور انہیں ایک ہی وجود میں ضم کر دیا جانا چاہیے۔ یہ افسران اس بات کو
تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان ایک تکثیری معاشرہ ہے لیکن انہیں اس بات پر
تشویش ہے کہ یہ معاشرہ اکثریت پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال کے لیے
آنند مارگ، وشو ہندو پریشد اور ہندو سینا جیسی تنظیموں کو نام بنام ذمہ دار
ٹھہرایا گیا۔ ویسے وہاں سنگھ کے ہمنوا بھی موجودتھے۔ ان میں سے ایک افسر نے
اسلامی بنیاد پرستی کوبھی ایک بڑا خطرہ قرار دے کر PFI اور دعوت اسلامی،
توحید، کیرالہ ندوۃ المجاہدین وغیرہ پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری جانب سر سنگھ چالک جئے پور اور کولکاتہ کے
عوامی جلسوں میں گول مول باتیں کرکے عوام کو گمراہ کررہے ہیں لیکن ایسا
کرنے سے بات نہیں بنتی ۔ آر ایس ایس 23 جنوری کو نیتا جی سبھاش چندر بوس
کایوم پیدائش منانے کا اعلان کیا تو نیتا جی کی بیٹی انیتا بوس نے اس
پروگرام کی مخالفت میں بڑا بیان دے دیا ۔ انیتا بوس نے صاف کہا کہ ان کے
والد سنگھی نظریات کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ ایک عقیدت مند ہندو تو تھے لیکن
تمام مذاہب کا احترام بھی کرتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ سب مل جل کر رہ
سکتے ہیں لیکن انہیں ( یعنی انیتا کو) نہیں لگتا کہ آر ایس ایس اس پر یقین
رکھتی ہے۔انہوں نے کہا، ”اگر آر ایس ایس نیتا جی کے نظریے کو اپنانا شروع
کردے تو یہ ہندوستان کے لیے اچھا ہوگالیکن نیتا جی تو سیکولرازم میں یقین
رکھتے تھے اورانہیں نہیں لگتا کہ آر ایس ایس اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ انیتا نے
صاف کہا کہ آر ایس ایس جس ہندو قوم پرست نظریات کی تبلیغ کرتی ہے وہ نیتا
جی کے نظریے سے میل نہیں کھاتے۔ اس مقصد کے لیے نیتا جی کا استعمال مذموم
حرکت ہے ۔ یہ بیان شاہد ہے کہ ملک کا باشعور طبقہ سنگھ پریوار کے دوغلے پن
سے واقف ہے اور اس دورِ استبداد میں بھی اس کا برملا اظہار ایک خوش آئند
بات ہے لیکن سنگھ کے ساتھ عام لوگوں کی سادگی پر افضل خان کا یہ شعر صادق
آتا ہے؎
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
|