سائنسی سوچ سے آراستہ معاشرہ

ابھی چند روز قبل ہی چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت انسٹی ٹیوٹ آف سائنٹیفک اینڈ ٹیکنیکل انفارمیشن نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ چین کے سائنس اور ٹیکنالوجی جرائد کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے اور ان میں سے زیادہ تر جرائد اب اہم عالمی تحقیقی نظام میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2021 میں مجموعی طور پر 235 چینی سائنس ٹیک جرنلز کو سائنس سائٹیشن انڈیکس (ایس سی آئی) اور 274 کو انجینئرنگ انڈیکس (ای آئی) میں شامل کیا گیا ہے۔یہ دستاویز مزید بتاتی ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی جرنلز کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بدولت،چینی محقیقین کی جانب سے ایک بڑی تعداد میں اہم سائنسی مطالعہ کے نتائج سائنسی و تکنیکی جرائد میں شائع ہو رہے ہیں ،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں ، چینی سائنسی اور تکنیکی مقالات اور حوالہ جات ڈیٹا بیس میں 1،976 چینی اور 150 انگریزی سائنس ٹیک جرنل شامل تھے۔

یہاں چین سے سیکھنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ اُس نے ملک میں سائنسی رویوں کو پروان چڑھانے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں اور سائنس دوست اقدامات کی ایک سیریز کو عملی جامہ پہنایا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ 2025 تک اپنی آبادی کے کم از کم 15 فیصد میں سائنسی خواندگی کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ یہاں، سائنسی خواندگی سے مراد سائنس کی اصل روح کا ادراک، بنیادی سائنس اور سائنسی طریقوں کا علم، اور سائنس کو تجزیے اور مسائل کے حل پر لاگو کرنے کی صلاحیت ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں سائنسی خواندگی کو حالیہ عرصے میں مسلسل فروغ ملا ہے۔ سائنسی طور پر خواندہ چینی شہریوں کا تناسب 2020 میں 10.56 فیصد تک پہنچ چکا تھا، جو ملک کے 13ویں پانچ سالہ منصوبہ کی مدت (2016تا2020) میں مقرر کردہ 10 فیصد ہدف سے زیادہ رہا ہے۔یوں چینی آبادی سائنسی طور پر مزید خواندہ ہوتی جا رہی ہے، زیادہ سے زیادہ لوگ سائنس کو سمجھنے اور زندگی اور کام سے وابستہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنسی رویّوں کے اطلاق کو وسعت دے رہے ہیں۔ شہروں کی بات کی جائے تو شنگھائی، بیجنگ اور تھین جین کو سرفہرست تین شہروں کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، جہاں سائنسی طور پر خواندہ افراد کا تناسب دیگر شہروں کی نسبت قدرے بلند ہے۔

سائنسی خواندگی کے فروغ میں نمایاں کامیابیوں کے باوجود چینی حکام ملک کی شہری اور دیہی آبادی کے درمیان سائنسی خواندگی میں عدم مساوات، مرد و خواتین کی ڈیمو گرافکس اور معیاری تعلیم تک غیر متوازن رسائی، کو بدستور بڑے چیلنجز شمار کرتے ہیں اور سائنسی خواندگی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں قرار دیتے ہیں جن کا دور کیا جانا ضروری ہے۔ اس سے قبل چین کی جانب سے عام لوگوں کی ڈیجیٹل خواندگی اور مہارتوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی ایک مہم کامیابی سے لانچ کی جا چکی جس میں فورمز، نمائشوں اور ڈیجیٹل مہارتوں اور تعلیم پر لیکچرز وغیرہ سے شہریوں کو تکنیکی آگاہی دی گئی اور ڈیجیٹل وسائل کی فراہمی کو بڑھانے اور ڈیجیٹل تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی گئی۔

دوسری جانب دنیا بھر میں اس بات کا ادراک بڑھ رہا ہے کہ عوامی سائنسی خواندگی طویل مدتی سماجی اور اقتصادی ترقی کا بنیادی جزو ہے۔ مشی گن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں تقریباً 28 فیصد امریکی بالغ افراد سائنسی طور پر خواندہ کہلانے کے اہل ہیں، جو کہ برطانیہ اور جاپان جیسی دیگر ترقی یافتہ اقوام کی عام بالغ آبادی کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے۔ چین نے اس ضمن میں عوامی سائنسی خواندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی پالیسیوں اور قانونی ڈھانچے کو بہتر کیا ہے۔ 2002 میں، ملک کی جانب سے سائنسی خواندگی کو فروغ دینے کے لیے مخصوص قوانین تشکیل دیے گئے۔ چار سال بعد، ریاستی کونسل نے ایک دستاویز جاری کی، جس کا مقصد 2020 تک ملک کی 10 فیصد آبادی کو سائنسی طور پر خواندہ بنانا اور سائنس کو قومی پالیسی کے طور پر مقبول بنانا شامل تھا۔ ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے کہ آج ملک میں پیشہ ورانہ اور سائنس کو مقبول بنانے والے جز وقتی کارکنوں کی تعداد 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ، چین بھر میں اعلیٰ معیاری سائنس اور ٹیکنالوجی عجائب گھر، موبائل سائنس اور ٹیکنالوجی عجائب گھر، سائنس کی مقبولیت کے کاروان اور دیہی سائنس کی مقبولیت کے مراکز کا جال بچھایا گیا ہے۔ یوں، چین کی کوشش ہے کہ ملک میں سائنسی رویوں کو بھرپور انداز سے پروان چڑھایا اور ملک کی اقتصادی سماجی ترقی کی کوششوں میں سائنسی طور پر خواندہ افراد کی شمولیت کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ان کوششوں میں چین کے سائنس و ٹیکنالوجی جرائد نہ صرف ملکی سطح پر سائنسی سوچ کو فروغ دینے میں مددگار ہیں بلکہ عالمی سائنسی و تحقیقی نظام کو بھی چینی دانش اور چینی حل سے روشناس کروانے میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 410705 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More