قابل تجدید توانائی کا ناگزیر رجحان

دنیا میں قابل تجدید توانائی کے شعبے کو ترقی دینے کی بات کی جائے تو چین اس میں سرفہرست ہے جو نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے بلکہ آبادی کے اعتبار سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے متعارف کردہ اقدامات کے اثرات عالمی سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ چین نے وقت کے بدلتے تقاضوں کی روشنی میں اپنے قابل تجدید توانائی کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے اور ایسےنئے گرین تصورات اپنائے ہیں جو نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ لائق تقلید بھی ہیں۔ملک میں جیسے جیسے بڑے پیمانے پر پن بجلی ،شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار میں تیزی آتی جا رہی ہے،اُسی قدر چین کے نیو انرجی سیکٹر میں "دوہرے کاربن" اہداف حاصل کرنے کی کوششوں میں بھی روانی آ رہی ہے اور اس شعبے کی نمایاں صلاحیت کھل کر سامنے آئی ہے۔
چین کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے کٹھن چیلنج سے نمٹنے کے لیے توانائی کے شعبے میں جدت لازم ہے اور ماحول دوستی کے تصور کے تحت ہی کاربن اخراج میں کمی کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں روایتی توانائی ذرائع کے بجائے شفاف توانائی یا قابل تجدید توانائی کے وسائل کی ترقی ایک ناگزیر رجحان بن چکا ہے ۔ چین کا ماننا ہے کہ اگر پائیدار ترقی کی جستجو کرنی ہے تو اسے خود کو گرین تصورات سے ہم آہنگ کرنا ہو گا جس میں شفاف توانائی کلیدی عنصر ہے۔

چین کی ان کوششوں کا عالمی سطح پر بھی بھرپور اعتراف کیا گیا ہے۔فچ ریٹنگز نے ابھی حال ہی میں اپنی تازہ ترین پیش گوئی میں بتایا ہے کہ چین 2023 میں قابل تجدید توانائی کی تنصیب میں اضافہ جاری رکھے گا جس کے بنیادی اسباب میں مضبوط طلب اور خام مال کی کم لاگت اور ہوا سے بجلی کی پیداوار پر کم اثرات وغیرہ شامل ہیں۔فچ ریٹنگز کے مطابق ملک میں بجلی پیدا کرنے والی بڑی سرکاری کمپنیاں توانائی کی منتقلی کی قومی حکمت عملی پر مضبوطی سے کاربند ہیں اور قابل تجدید توانائی کی ترقی میں سب سے بڑی سرمایہ کار ہیں ۔ فچ ریٹنگز نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2022 میں 87 گیگاواٹ صلاحیت کے حامل کل 446 ونڈ پاور منصوبوں سے متعلق آلات کی بولی کا مرحلہ مکمل کیا گیا جبکہ 2021 میں یہ تناسب 60 گیگاواٹ تھا، اسی طرح چین کی نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے مطابق ہوا اور شمسی توانائی کی نئی تنصیب شدہ صلاحیت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

دنیا کو معلوم ہے کہ چین نے 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کو عروج پر پہنچانے اور 2060 تک کاربن نیوٹرل حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ شفاف توانائی کے حوالے سے چین کی اعلیٰ قیادت کا وژن بھی قابل ستائش ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں سیشن سے اپنے خطاب میں دنیا پر زور دیا تھا کہ ایک "سبز انقلاب" کی جستجو کی جائے ، ترقی اور زندگی کے لیے سرسبز راہ کا انتخاب کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ چین 2025 تک ہوا سے بجلی کی پیداوار اور شمسی توانائی کو 11 فیصد سے 16.5 فیصد تک بڑھانے کا خواہاں ہے۔ چین کا عزم ہے کہ پیرس موسمیاتی معاہدے کی روشنی میں سال 2030 تک ملک میں قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو 800گیگا واٹس سے1000گیگا واٹس تک بڑھایا جائے جو امریکہ جیسے بڑے ملک کی بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے مساوی ہے۔چین نے گھریلو سطح پر کوئلے پر انحصار کم کرنے کے لیے بھی مختلف پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔

چین کی کوشش ہے کہ ملک میں سبز توانائی کی فراہمی کا جامع نظام بنایا جائے جو سبز کم کاربن صنعتی نظام کو فروغ دینے کی کلید ہے۔اس مقصد کی خاطر فوسل توانائی کے استعمال کے تناسب کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے اور گرین ہائیڈروجن، قابل تجدید توانائی اور دیگر سبز توانائی کے استعمال کے تناسب کو بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چینی حکام کی کوشش ہے کہ توانائی کی بچت والی ٹیکنالوجیز کی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے، ساتھ ہی ساتھ اہم تکنیکی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وسائل کو متحرک کیا جائے۔ چین کے نزدیک اہم ترجیح یہ بھی ہے کہ سبز کم کاربن ترقی کو فروغ دینے کے لیے خصوصی تکنیکی آلات کی سطح کو بہتر بنایا جائے تاکہ حقیقی معنوں میں ماحول دوست گرین ترقی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 412378 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More