قومی بجٹ وہ سرکاری فریب ہے جس سے بہلا پھسلا کر عام
لوگوں کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔2016تک یہ کام فروری کی آخری تاریخ کو
ہواکرتا تھا لیکن عوام الناس کو اپریل فول بنانے کے لیے اسے یکم فروری کو
کردیا گیا۔ جمہوری سیاست میں جو کہا جاتا ہے وہ کیا نہیں جاتا اور جو کرنا
ہوتا ہے وہ کہا نہیں جاتا۔ اس بار وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی زبان پھسلی
تومن کی بات بیان ہوگئی مگر بعد میں پلٹ کر کچھ اور بات بنا دی گئی۔ انہوں
نے کہا میں اس بجٹ میں سیاسی سواری کو مسترد کرتی ہوں اور پھر معذرت چاہ کر
بولیں میں آلودہ کرنے والی سواری کو مسترد کرتی ہوں ۔ اس طرح انہوں نے
موجودہ بجٹ کے خالصتاً سیاسی ہونے کا اعتراف کرلیاکیونکہ فی الحال مرکزی
سرکار کی تین بڑی مجبوریاں ہیں ۔ پہلی اس سال 9 ریاستوں میں اسمبلی
انتخابات کا انعقاد ہوگا اور آئندہ برس قومی انتخابات ہونے ہیں یعنی س
میقات کا یہ آخری مکمل بجٹ ہے ۔
قومی انتخاب سے قبل سرکار کے لیےرائے دہندگان کی مایوسی کو دور
کرنااوراحسان جتانا لازمی ہوگیا ہے۔اس لیے وزیر مملکت( خزانہ) بھاگوت کرشنا
نے پہلے ہی اعلان فرما دیا کہ یہ بجٹ سب کی امیدوں پر پورا اترے گا۔ بجٹ کی
صبح منصور نقوی نے دلچسپ کارٹون بنایا ۔ اس میں ایک دروازے پر 2024لکھا ہے
اور سامنے غریب باشندہ کنجی سمیت پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے ۔ نرملا سیتا
رمن اس کی خدمت میں بجٹ کے تحفہ کا ڈبہ پیش کررہی ہیں اور مودی جی مسکرا
رہےہیں۔ اس کارٹون نے چوبیس گھنٹے انتخاب کے لیے فکرمند رہنے والی پارٹی کے
من کی بات بیان کردی گئی ہے۔ بی جے پی کا سب سے زیادہ بھروسہ مند ووٹر
متوسط طبقہ ہےمگر اس کو پچھلے 8 سالوں سے بجٹ میں نظر انداز کیا جاتا رہا۔
مہنگائی، بیروزگاری، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی وغیرہ اسی کو پریشان کرتی رہی
مگرکمل والے اسے مسلم دشمنی کا چورن دے کر بہلاتے رہے۔ اب اس شراب کا خمار
اترنے لگا ہے۔ سرکار کو اندیشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں یہ ووٹ بنک کھسک نہ
جائے اس لیے ان کی جانب خصوصی توجہ کی گئی۔
ملک میں فی الحال تقریبا 8 کروڑ سے زیادہ ٹیکس دہندگان ہیں۔ ان لوگوں کے
لیے مودی جی نے 2014 میں ٹیکس کی حد بڑھا کر5 لاکھ کر دی اور پھر انہیں
بھول گئے۔ 2023-24 میں عام انتخابات کے پیشِ نظر نرملا سیتا رمن نے متوسط
طبقہ کو راحت دے کر پانچ کے بجائے سات لاکھ تک کی آمدنی پر ٹیکس معاف
کردیا۔ 7 لاکھ روپئے سے زیادہ آمدنی والوں کو 5 فیصد ٹیکس ، 6 سے 9 لاکھ
روپے تک کی آمدنی پر 10 فیصد، 9 سے 12 لاکھ روپے والوں پر 15 فیصد، 12 سے
15 لاکھ روپے والے 20 فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا۔ 15 لاکھ روپے سے زیادہ کی
آمدنی پر 30 فیصد انکم ٹیکس ا داکرنا ہوگا۔ نئے بجٹ میں متوسط طبقے کی
چھوٹ کا چرچا تو بہت ہے لیکن امیر ترین لوگوں کو ان سے زیادہ سہولت ملی ہے
کیونکہ نااہل لوگوں کو بنا کارکردگی اشتہار بازی کے ذریعہ انتخاب جیتنے کے
لیے ووٹ کے ساتھ نوٹ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
مہنگائی سے پریشان لوگ کے ہاتھ مایوسی آئی ہے۔ گیس سلنڈر کی قیمت گھٹنے کی
توقع پوری نہیں ہوئی۔ منریگا کے لیے اضافی راقم کی امید بھی دھری رہ گئی۔ ۔
انفراسٹرکچر بجٹ میں اضافہ سے روزگار کے امکانات بڑھیں گے۔ ہر سال دو کروڈ
نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والوں نے گزشتہ سال 50.85 لاکھ نوکریوں کا ہدف
رکھا جو چار گنا کم تھا۔ حکومت کا دعوی ہے کہ 70 لاکھ نوکریاں دی گئیںجو
بہت کم ہے۔ حکومت نتتعلیم پر بجٹ نہیں بڑھایا ۔ ملک میں 2014 پہلے سے 157
طبی تعلیم کے ادارےتھے اب ان کے اندر نرسنگ کالج نتھی کردیئے گئے اس میں
کون سی بڑی بات ہے؟ اس سے طبی سہولیات قبائلی لوگوں تک کیسے پہنچیں گی ؟ یہ
کوئی نہیں جانتا۔ موجودہ حکومت تعلیم کے شعبے کو نجی ہاتھوں میں دے کر
چاہتی ہے کہ صرف امیر کبیر لوگوں کے بچے علم کی دولت سے مالا مال ہوں اور
غریب ان کی غلامی کرے۔ ان سے ووٹ لینے کے بہت سارے حربے بی جے پی کے پاس
ہیں۔
اس بجٹ نے بچوں اور نوعمروں کو مایوس کیا لیکن ان کی بھی کیا غلطی انہیں
ووٹ دینے کا جو حق نہیں ہے۔ نوجوان چاہتے تھے کہ موبائل فون پر ڈیوٹی کم کر
کے اسے سستا کیا جائے۔ موبائل پر جی ایس ٹی 18 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد
کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا نیز ائرفون جیسی الیکٹرانک اشیاء پر کسٹم
ڈیوٹی کی کمی کی توقع تھی مگر انہیں قومی ڈیجیٹل لائبریری قائم کرنے کا
وعدہ کرکے ٹرخا دیا گیا۔ عوام چاہتے تھے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمت کم ہو
مگر حکومت نے اسے ضروری نہیں سمجھاالٹا فوڈ سبسڈی گھٹا دی اس سے راشن پر
اناج لینے والوں کا نقصان ہوگا۔ملک میں غریب ترین طبقات کے لیے پردھان
منتری غریب کلیان اَن یوجنا کے تحت 2 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرکے نہایت غریبوں
کو مفت اناج کی فراہمی مزید ایک سال جاری رہے گی تاکہ وہ احسان مان کر ووٹ
دیں اور اس کے بعد ان کی قسمت زندہ رہیں یا پرلوک سدھاریں۔
اس بجٹ میں کسانوں کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہے۔ اگلے تین سالوں تک ایک
کروڈ کسانوں کو نیچرل فارمنگ میں مدد دی جائے گی یعنی روایتی زراعت کو اسی
طرح رام بھروسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ عوامی فلاح وبہبود کے لیے مختص کی جانے
والی رقم عام طور پر خرچ نہیں ہوتی اس کا بھی یہی حشر ہوگا اور جو دس ہزار
بایو ان پٹ ریسورس سینٹر قائم کیے جائیں گے ان سے کسانوں کا کوئی بھلا نہیں
ہوگا۔ زرعی قرضہ جات کا ہدف 20 لاکھ کروڑ روپے تک بڑھایا تو گیا لیکن اس سے
مویشی پالنے والے، ڈیری اور ماہی گیر مستفید ہوں گے۔ ہندوستان کو عالمی فوڈ
ہب بنانے کے لیے حیدرآباد میں مرکز بنانے کا جومنصوبہ ہے اس سے عام کسان کے
بجائے سرمایہ دار مستفید ہوں گے۔ زراعت میں اسٹارٹ اپ کو فروغ دینے کی خاطر
جو ایگریکلچر فنڈ بنایا گیا ہے وہ بھی زراعتی کالج سے نکلنے والے طلبا کا
بھلا کرے گا۔ سوال یہ ہے مودی جی نے جو کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا
وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ مودی سرکار اگر اس میں ناکام ہوگئی ہے تو کسان
انہیں پھر سے منتخب کیوں کریں؟ کسانوں کو تو یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ دوبارہ
انتخاب جیت کراگر انہوں نے اپنے دوست اڈانی کو مشکل سے نکالنے کی خاطر کسان
قانون پھر سےلاگوکردیا تو بڑی مصیبت آجائے گی۔باغبانی کی اسکیموں کے لیے
رکھے گئے 2200 کروڑ روپے بہت کم ہیں ۔ وزیر اعظم کے ہوائی جہاز کی قیمت
آٹھ ہزار کروڈ ہے۔
وزیر خزانہ نے وزیر اعظم رہائش اسکیم کے لئے فنڈ میں66 فیصد کا اضافہ کیا
ہے۔اب یہ بجٹ 69 ہزار کروڈ ہوگیا ہے جو اچھی بات ہے۔ 2022تک ملک کے سارے
باشندوں کی خاطرجدید سہولیات سے مزینّ جو پکے گھر کا وعدہ مودی جی نے کیا
تھا وہ تو اس سے پورا ہوجائے گا؟ ہر گز نہیں ۔ بی جے پی سوچ رہی تھی کہ عام
لوگ رام مندر اور ایوان پارلیمان کی نئی عمارت سینٹرل وِ سٹا کو دیکھ کر
اپنی جھونپڑی کو بھول جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا اس لیے سرکار فکر مند
ہوگئی ہے۔ لیکن جو رئیل اسٹیٹ سیکٹر فی الحال بدترین مندی سے گزر رہا ہے وہ
کیسے سنبھلےگا؟ روزگار کے لحاظ سے تعمیراتی شعبہ بہت اہم ہے کیونکہ اس میں
کروڈوں لوگ زیر ملازمت ہیں اور اگروہ دھندہ مندہ ہوجائے تو بڑے پیمانے پر
بیروزگاری کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ بڑ ے شہروں کے اندر سستی رہائش ایک
سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت کی جانب نت نئے ٹیکس اور ڈیوٹی کے سبب مکانات کی
قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اس شعبے کے لوگ حکومت سے توقع کررہے تھے
کہ سستی رہائش کے منصوبوں کی سمت میں نئے اقدامات کیے جائیں گے مگر اس محاذ
پربھی مایوسی ہوئی۔
سرکار نے اس بار ریلوے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرکےاسے 2.40 لاکھ کروڈ
روپئے تک پہنچا دیا۔ سرمایہ کاری کا خرچ 33% بڑھا کر 10 لاکھ کروڈ کیا
گیالیکن اس سے مسافروں کا براہِ راست فائدہ نہیں ہوگا۔ عوام چاہتے ہیں کہ
لمبی دوری کی ٹرین کے سفر میں انہیں راحت ملے لیکن سرکار انفرااسٹرکچرکی
ساری رقم سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور شاہراہوں کی تعمیر پر
خرچ کردیتی ہے۔ اس بار 50 نئے ہوائی اڈے اور ، ہیلی پیڈ وغیرہ تعمیر ہوں گے
جن پر منتری سنتری اور سرمایہ دار اتریں گے۔ عام مسافر ان کو دیکھ دیکھ کر
خوش ہوجایا کریں گے۔ اس سے نہ صرف ٹھیکیداروں کے بلکہ کمیشن خورسیاستدانوں
کے بھی وارے نیارے ہوجائیں گے مگر عوام کوکچھ نہیں ملے گا۔وزیر خزانہ نرملا
سیتا رمن نے 2023-24 کا بجٹ کو امرت کال کا پہلا بجٹ قرار دیا لیکن کسی
گنگوا تیلی کو راجہ بھوج کا لقب دے دینے سے وہ سمراٹ نہیں ہوجاتا۔ یہ بجٹ
اونچی دوکان کاپھیکا پکوان ہے اس سے جامع ترقی، آخری شہری تک رسائی اور
نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافہ جیسے ترجیحاتی خواب تو شرمندۂ تعبیر نہیں
ہوسکیں گے۔ ہاں انتخابی جلسوں میں شور شرابہ کرکےعوام کو فریب دینے کا
سامان ہوجائے گا۔ ویسےیہ کھوٹا سکہ سیاست کے بازار میں خوب چلتا ہے کیوں کہ
بھولے بھالے ہندوستانی رائے دہندگان پر مظہر امام کا یہ شعر معمولی ترمیم
کے بعد صادق آجاتا ہے؎
اکثر ایسا بھی سیاست میں ہوا کرتا ہے
کہ سمجھ بوجھ کے کھا جاتا ہے دھوکا کوئی
|