مملکت پاکستان اس وقت تاریخ کے ایسے دوراہے پر ہے جہاں
حاکم خوابِ خرگوش میں پڑے ہیں اور عوام اور ریاست کسی ایک کو بھی بچانے
کیلئے سنجیدگی سے کوشش و کاوش کرتی دکھائی نہیں دیتی، بدترین معاشی صورتحال
ماضی کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
عالم یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے عوام ایک ایک نوالے کے محتاج
ہوتے جارہے ہیں۔قوم پہلے ہی 30 فیصد سے زیادہ خط غربت سے نیچے آچکی ہے،
غربت کی شرح 50 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ 20 لاکھ کے قریب لوگ بتدریج بیروزگاری
کا شکار ہوچکے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان نے اپنے قیام کے بعد ابتدائی برسوں سے ہی قرضوں اور
امداد کی بیساکھیوں پر چلنے کی شروعات کردی تھی لیکن مخدوشیت کی جو مثال اس
وقت ہمارے سامنے ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔
ملک میں مہنگائی اپنی تمام حدیں عبور کرچکی ہے، آٹا، گھی، تیل، چینی، چکن
اور پیاز سمیت ہر قسم کی خوردنی اور دیگر تمام اشیاء عوام کی پہنچ سے دور
ہوتی چلی جارہی ہیں اور کچھ عرصہ پہلے ایک ہزار میں جو سامان میسر تھا وہ
اس وقت تقریباً دوگنا ہونے کو آیا ہے۔
غریب کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ بھی ایک طرف بھوک اور دوسری طرف سفید پوشی کا
بھرم برقرار رکھنے کی تگ دو میں اس حد تک پریشان ہوچکا ہے کہ اب لوگوں میں
صبر اور برداشت کا مادہ ختم ہورہا ہے۔
سندھ میں 12 سے زائد مقامات پر بھوک اور بدحالی کے ستائے لوگ سڑکوں پر آنا
شروع ہوگئے ہیں اور اس سے پہلے کہ یہ جلسے جلوس بھوک اور افلاس کی بڑھتی
لہر کی وجہ سے انسانوں کے سمندر میں تبدیل ہوجائیں ۔مملکت پاکستان کے
سیاستدانوں، ریاستی اداروں اور اہل دانش افراد کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا
ورنہ انسانوں کا سمندر تہذیب و تمدن اور قانون کو کچلتے ہوئے وہ راستہ
اختیار کرسکتا ہے کہ جس کی سوچ بھی بھیانک ہے۔
اور بقول شاعر
نُورِ سرمایہ سے ہے رُوئے تمدّن کی جِلا
ہم جہاں ہیں، وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مُفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بُھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
ملک کی افسوسناک حالت کے باوجود حکمرانوں کی بے حسی صورتحال کو مزید گمبھیر
بنارہی ہے اور ایسے میں غربت کے ستائے عوام کی زندگیوں کی بقاء کے ساتھ
ساتھ ریاستی بنیادوں کو بھی دوام نہیں ۔
ماضی میں بھی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن ایسے حالات کبھی
نہیں ہوئے اور ابھی بھی بچاؤ کی تھوڑی سی امید باقی ہے لیکن اگر فوری
فیصلہ نہ کیا گیا تو حالات ایسی تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتے ہیں جہاں کسی
فریق کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
پاکستان میں تجربات کا سلسلہ ایوب خان کے دور سے جاری ہے لیکن افسوس کہ ہم
نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، ایوب خان کے دور کے اثرات کے سبب بنگلہ دیش
وجود میں آیا، ضیاء الحق کےدور میں پاکستان میں اسلحہ اور منشیات کی لعنت
نے جڑیں پکڑیں اور مشرف کے دور میں این آر او نے تاریخ کو مسخ کیا۔
عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کو رجیم چینج کہیں یا کچھ اور لیکن یہ حقیقت
ہے کہ ایوب خان کے دور سے لے کر اب تک حکومتوں کی غیر منطقی تبدیلی زیادہ
سود مند ثابت نہیں ہوئی اور اب وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتا جارہا ہے۔
سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور بات عمران خان، آصف زرداری
،شہباز یا نوازشریف کی نہیں بلکہ بیانیے کی ہے کیونکہ اس وقت عمران خان کے
پیچھے جو لوگ ہیں وہ عمران خان کے بیانیے سے متاثر ہوکر ان کے پیچھے کھڑے
ہیں۔
عوام نے انہیں بیانیوں کے سبب متعلقہ لیڈران اور عمران خان سے اندھیروں میں
روشنی کی کرن کی طرح توقعات وابستہ کرلی ہیں ، ایسے میں اگر عمران خان اپنے
بیانیہ سے پیچھے ہٹتے ہیں اور اپنے ظاہری اصولوں سے روگردانی کرتے ہیں توان
کے حواری ان سے متنفر ہوسکتے ہیں۔
جب لوگ کسی جماعت یا سربراہ کی پیروی کرنا شروع کردیں تو اس لیڈر کیلئے
ظاہراً اصولوں پر سودے بازی مشکل ہوتی ہے لیکن ملک کی معاشی صورتحال خطرناک
حدوں کو چھوچکی ہے اور معیشت کی مخدوشیت کی وجہ سے ہماری سلامتی کوگزند
پہنچ سکتی ہے تو ایسے میں ریاست کا ہر فرد اور ادارہ حالات کے منفی اثر سے
متاثر ہوسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اصولوں پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا لیکن عالمی حالات اس وقت
سنجیدگی کے متقاضی ہیں، یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ امریکا ابھی نہیں
بلکہ کئی سال پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کو اپنے سفارتی مفادات کے
حصول کیلئے استعمال کرتا رہا ہے اور اس پر عمل اب بھی جاری وساری ہے۔
حالات کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی و ریاستی ادارے معاشی صورتحال کی بہتری
اور سب سے پہلے پاکستان کیلئے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو پس پشت ڈال کر
ایک میز پر بیٹھیں اور ملک کو سنگین مسائل کی دلدل سے نکالنے کی تدابیر
تلاش کریں کیونکہ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھرنہ ریاستی ادارے اور نہ
سیاسی اکابرین کچھ کرسکیں گے۔
|