ایک وقت تھا ، جب بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم پاکستان
سے کم تھا، مگر اب دوگنا ہے ، یہی حال بنگلہ دیشی کرنسی ٹکے کا تھا مگر اب
اُس کی کرنسی کی قدر بھی پاکستانی روپے کے مقابلے میں دوگنی ہو چکی ہے۔
بنگلہ دیش کا جی ڈی پی ، زرمبادلہ کے ذخائر، خوراک میں خود کفالت، آفات سے
نمٹنے میں بہترین کارکردگی کی صلاحیت ، غرض آج بنگلہ دیش پاکستان سے ہر
معاملے میں کہیں آگے نکل چکا ہے ، دلچسپ اور قابل ستائش بات تو یہ ہے کہ
1971 میں جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بنا تو اُن کی
آبادی ہم سے ایک کروڑ زیادہ تھی مگر آج ہماری آبادی اُن سے کئی کروڑ
زیادہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں یہ سوال خود سے پوچھنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہوا؟
ہمارے ارباب اختیار کو یہ سوال اپنے سامنے رکھنا ہوگا کہ بنگلہ دیش جو ماضی
میں معاشی طور پر اتنہائی کمزور تھا، آج وہ پاسپورٹ انڈیکس، خواندگی کے
تناسب، مائیکرو کریڈٹ فنانسنگ ، خواتین کو بااختیار بنانے اور دیگر بہت سے
شعبوں اور حوالوں سے پاکستان سے کہیں آگے کیوں نکل چکا ہے ۔
پاکستان کے اہم اقتصادی فیصلے کرنے والے وزراء اور ماہرین اقتصادیات کو
بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور بنگلہ دیش کی معاشی
ترقی کوسٹڈی کرنے سے قبل ہمیں اس امر کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان
ترقی کے سفر میں ایشیا ء اور جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بہت پیچھے رہ گیا
ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے مسائل اَن گنت ہیں اور شاید ہم آج اس بات کا یقین
کرنے سے بھی لاچار ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟ ہمارا ہر مسئلہ
آج ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہماری ترقی عرصہ دراز سے رُکی
ہوئی ہے ۔ اگر ہم پاکستان کی معاشی ترقی سے دوری کی بات کرتے ہیں تو اُس کی
بھی کئی وجوہات ہیں ، جن میں سب سے پہلی ہمارے ہاں بجلی کا مہنگا ہونا ہے ۔
بجلی مہنگے ہونے کا آغاز نوے اور دوہزار کی دھائیوں میں ہی ہوچکا تھا، جب
ہماری گارمنٹس انڈسٹری کے مالکان نے پاکستان کو چھوڑ کر بنگلہ دیش کا رُخ
کیا۔ یہ وہ ٹائم تھا جب یورپ میں بڑے بڑے امپورٹر پاکستانی گارمنٹس خرید
رہے تھے اور پھر یورپ کی اُس مارکیٹ پر آہستہ آہستہ بنگلہ دیش نے قبضہ کر
لیا۔
معاشیات سے ہٹ کر اگر ہم پاکستان کی ناخواندگی کی طرف آئیں تو تعلیم کے
حوالے سے بھی ہم بے شمارمسائل کا شکار ہیں ۔ مثلاً پاکستان کے دور دراز
علاقوں یعنی بلوچستان، خیبر پختونخوا ، دیہی سندھ، جنوبی پنجاب اور فاٹا
میں تعلیم کے حوالے سے آج بھی آگاہی کی کمی موجود ہے ۔ دوسرا اہم پہلو
سرکاری اور نجی تعلیم کے شعبوں میں تدریس کے مختلف ذرائع اور نصاب رائج ہیں
۔ تیسری اہم وجہ غیر پیشہ ور اساتذہ اور غیر تربیت یا فتہ سٹاف ، بچوں اور
اُن کے والدین کو تعلیمی افادیت کی آگہی فراہم کرنے سے محروم ہے ، چوتھا
اہم نقطہ تعلیمی بجٹ میں کمی اور تعلیمی پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے
کو فقدان ہے ۔ 1947کے فوراً بعد ایک یعنی واحد قومی نصاب کو بھی ہم رائج نہ
کر پائے، ماسوائے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 2021میں اسے عملی جامہ
پہنایا مگر اس میں بھی کچھ صوبوں اور علاقوں نے واحد قومی نصاب کی پیروی
کرنے سے انکار کر دیا۔
کمزور معاشیات اور ناخواندگی جنم دیتی ہے غربت کو۔پاکستان کی پیدائش کے
ساتھ ہی پاکستان میں غربت کا جنم بھی ہو گیا تھا، جیسے جیسے پاکستان کی عمر
بڑھی توں توں غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ
غربت جیسا مسئلہ جو بہت پہلے حل ہو جانا چاہیے تھا وہ آج بھی موجود ہے اور
ہماری سیاسی جماعتیں روٹی، کپڑا ، مکان اور تبدیلی جیسے نعروں پر حکومتیں
کر رہی ہیں ، امگر یہ کہا جاتا ہے کہ غربت تمام برائیوں کی ماں ہے تو سوچئے
کہ ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں برائیوں اور خاص طو رپر جرائم کا کیا
حال ہوگا ۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ معاشی پالیسیاں پانچ سالوں کیلئے
بنائی جاتی ہیں ، وہ پالیسیاں ابھی پایہ ٔ تکمیل کوبھی نہیں پہنچتی کہ
حکومت کی پانچ سالہ معیاد ختم ہو جاتی ہے ۔ گویاحکومت پالیسیاں بھی ختم۔
نئی حکومت نئے سرے سے پھر نئی معاشی پالیسیاں تشکیل دینے میں جُت جاتی ہے ۔
نقصان ملک کا ، ملک میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان
کی معیشت پہلے دن سے ہی ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے ۔ نتیجہ ملک کی
نہایت سست ترقی کی وجہ سے وہ کروڑوں غریب پاکستانی جو غربت کی سطح سے نیچے
پیدا ہوتے ہیں ، غربت کی سطح کی لکیر سے نیچے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
پاکستان میں آج بھی پیدا ہونے والے ہزار بچوں میں سے 70بچے اپنی زندگی کے
پانچ سال مکمل ہونے سے قبل دم توڑ دیتے ہیں۔ اُن بچوں میں وہ بچے بھی شامل
ہیں ، جو پاکستان کی 24فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے والی
آبادی کے بچے ہیں۔ پاکستان کے قیام کو 75سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کو
آج ایسی تشویشناک صورت حال کا سامنا ہے ۔ بے روزگاری کی بات کریں تو اُس
حوالے سے صرف نوجوانوں کی 31 فیصد شرح بے روزگار ہے، جبکہ آج حالات یہ ہیں
کہ ایچ ای سی کے مطابق اس وقت پاکستان میں چار سے چھے ہزار کے قریب پی ایچ
ڈی ڈاکٹر ز فارغ ہیں اور اُن کے پاس کوئی ملازمت نہیں ہے ۔
آئی ٹی سے ہم پہلے ہی میلوں دور ہیں ۔ نوے کی دھائی میں انگلینڈ کا پولیس
کا شعبہ بھارت کی آئی ٹی کی کمپنیوں سے اپنے ملازمین کی تنخواہیں بنواتا
تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ خود انگلینڈ میں انہیں آئی ٹی کے ماہرین مہنگی
تنخواہوں پر دستیاب تھے۔ اُس موقع سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان بھی آئی ٹی
ماہرین کی کھیپ تیار کر سکتا تھا مگر کسی نے بھی اتنے ضروری کام کی طرف
توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔
ہمارے ارباب اختیار آج بھی بہت سے اہم معاملات پر توجہ دینا ضروری نہیں
سمجھتے، غالباً وہ پاکستان کی ترقی ہی ضروری نہیں سمجھتے ۔ اگر ماضی کی
حکومتوں نے ضروری سمجھا ہوتا تو آج اُس کے کچھ اچھے نتائج تو یقیناً ہمارے
سامنے ہوتے۔
|