ندا فاضلی کا ایک مشہور شعرہے ۔
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اُڑایا جا ئے
گذشتہ دنوں لاہور کے مشہور و معروف شالیمار باغ جانے کا اتفاق ہوا تو دل
افسردہ لے کر واپس لوٹا۔ شالیمار باغ میں دو تین گھنٹے کی اس سیر کے دوران
اندازہ ہوا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر غفلت ، لاپرواہی اور
کوتاہیوں کی جانب کتنی تیزی سے گامزن ہیں ۔
ماضی میں یہ باغ اس قدر خوبصورت تھا کہ اِسے جب بنائے جانے کا فیصلہ کیا
گیا تو شاہ جہاں نے اپنے دربار کے ایک رئیس خلیل اللہ خان کو اس کا نگران
مقرر کیا اور اُنہیں شاہ جہاں کی جانب سے ہدایت کی کہ یہ باغ جنت کا باغ
دکھائی دے ۔ لہٰذا اس وجہ سے اس باغ کو گمشدہ جنت بھی کہا گیا ۔
شالیمار باغ کے نام کے حوالے سے کئی کہانیاں موجود ہیں ۔ تاریخ دان بتاتے
ہیں کہ ابتدا میں اس باغ کا نام’’ شعلہ ماہ ‘‘رکھا گیا تھا۔ جس کے معنی
’’چاند کی روشنی ‘‘کے ہیں ۔ یہ نام اس باغ کی خوبصورتی کی وجہ سے رکھا گیا
تھا۔ بعد ازاں اس باغ کا نام شعلہ ماہ سے بگڑ کر شالیمار پکارا جانے لگا۔
لاہور میں بننے والے شالیمار باغ سے قبل 1620میں جہانگیر کشمیر میں ایک
نہایت خوبصورت باغ تعمیر کروا چکا تھا۔ شاہ جہاں نے اپنے والد جہانگیر کے
کشمیر میں تعمیر کردہ شالا مار باغ کے نقشے کو ہی کاپی کر کے لاہور میں یہ
باغ تعمیر کروا یا تھا۔
پاکستان اور ہندوستان میں آج جتنی بھی مغلیہ تعمیرات ہیں ، وہ ہندوستانی ،
ترکی اور فارسی فن تعمیر کا منفرد امتزاج ہیں ۔ مغلیہ حکمرانوں نے پورے
برصغیر میں متعدد قلعوں ، مساجد ، محلات ، مقبروں ، عوامی عمارتوں یا باغات
کو تعمیر کروایا ۔ جن میں سے بہت سی آج بھی موجودہیں ۔ مغل فنِ تعمیر
پانچویں مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے دور میں اپنے عروج پر تھا۔ شالیمار باغ بھی
اسی دور میں تعمیر ہوا۔ گرینڈ ٹرنک روڈ کی یہ جگہ جہاں آج باغ واقع ہے ،
یہ زمین باغبانپورہ کے ایک آرائیں خاندان کی ملکیت تھی ، جو اُس وقت کا
ایک ممتاز اور معزز خاندان تھا ۔ مغل بادشاہت کے دوران اِن کی خدمات اور
شراکت کی وجہ سے اِنہیں ’’میاں ‘‘ کے شاہی لقب سے نوازا گیا۔
80ایکڑ پر پھیلا یہ تاریخی باغ آج نہایت کمپرسی کا شکار ہے ۔ تین تختوں ،
فرح بخش ، فیض بخش اور حیات بخش پر مشتمل یہ باغ ، اس کے سینکڑوں فوارے ،
حتیٰ کہ اس کا نہری نظام سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ شالیمار باغ میں کئی
آبشاریں ہیں ۔ جن میں سب سے بڑی کئی فٹ کے سفید سنگل پیش ماربل سے بنی
ہوئی ہے ۔ اُس آبشار کے ختم ہوتے ہی باشادہی تخت ہے اور اُس سے آگے بہت
بڑے فواروں کے تالاب میں مہاتابی ہے ، جہاں رقاصائیں رقص کیا کرتی تھیں ،
جس کے دائیں بائیں بارہ دری نما عمارتوں کے نیچے ساز نواز بیٹھتے تھے ۔
آج اُس نایاب سنگل ماربل پیس سے بنی آبشار پر بچے چڑھے ہوتے ہیں ۔ قریب
بیٹھے اُن بچوں کے والدین اپنے بچوں کو منع کرنے کی بجائے اُن کی تصاویر
بنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ یہ منظر اپنی آنکھوںسے دیکھ کر دل اس قدر
رنجیدہ ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔
یہ حرکت ایک لمحے کیلئے کوئی ایک بچہ سرانجام نہیں دے رہا ہوتا بلکہ باغ
میں آنے والے ہزاروں فیملیزکے بچے اس گناہ بے لذت میں مبتلا ہیں ۔ صبح سے
لے کر شام تک جب ہفتے کے ساتوں دن ہزاروں بچے اُس نایاب سنگل مرمر پر کے
ٹوسر کرنے کی طرح چڑھیں گے، تو اُس آبشار کا کیا حال ہوگا۔
اُس سنگل مرمر کے کئی جگہوں سے کنارے بھرنے لگیں ہیں ۔ یہ تکلیف دہ المیہ
صرف اِس سنگل پیس نایاب سنگ مرمر کے ساتھ رواں نہیں ہے بلکہ باغ کی تمام
عمارات عوام کے جہالت پر مشتمل روئیے کا شکار ہیں ۔ باغ کا نہری نظام ختم
ہوچکا ہے ۔ سینکڑوں فوارے خراب ہیں ۔ کئی تالابوں میں کائی اور کوڑے کے
ڈھیر جمع ہیں ۔ ٹک ٹاکرز ٹک ٹاک بناتے ہوئے اُن حصوں میں بھی گھس رہے ہیں ،
جہاں جانا سختی سے منع ہے ۔ باغ میں پاگلوں اور نشئیوں کا مل جانا بھی حیرت
کی بات نہیں ہے ۔ دیواروں پر اپنی تمام تر جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے نوجوان
طبقہ عجیب و غریب تحریریں رقم کرنے پر بڑی بہادری محسوس کرتا ہے ۔
زمینی جنت کا یہ ٹکڑا آج اپنے آپ میں بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے ۔
یونیسکو نے 80کی دھائی میں شالامار باغ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
عالمی ثقافتی ورثہ ہونے کی وجہ سے اس باغ کو سالانہ گرانٹ بھی دی جاتی ہے ۔
باغ کی حالت زار دیکھ کر نہیں لگتا کہ اس پر کئی دھائیوں سے ایک ٹکا بھی
خرچ کیا گیا ہے ۔ حکومت پنجاب کا ٹورازم کامحکمہ بھی یقینا اس کی دیکھ بھال
پر معمور ہو گا مگر اُن کی جانب سے بھی حالیہ کئی برسوں میں کوئی کارکردگی
دکھائی نہیں دی ۔
کہتے ہیں جب شالیمار باغ شاہ جہاں کے حکم سے پایہ تکمیل کو پہنچا تو بادشاہ
کو باغ کے مکمل ہونے کی اطلاع دی گئی ۔ شاہ جہاں اُس وقت کے امیروں وزیروں
اور عالم فاضل لوگوں کے ساتھ جب باغ میں داخل ہوا، تو بادشاہ سمیت سب
دیکھنے والوں کی آنکھیں دھنگ رہ گئیں ۔ سب حاضرین نے شاہ جہاں کو
مبارکبادیں دیں اور سب کا یہی کہنا تھا کہ آج تک دنیا میں ایسا خوبصورت
باغ کہیں دیکھا نہ سنا۔صد افسوس کہ آج اُس باغ کی خوبصورتی ملیا میٹ ہوچکی
ہے ۔
سنا ہے انگلینڈ کے کسی باغ میں پھولوں کی نہایت خوبصورت کیاریوں میں کام
کرتے ہوئے مالی سے کسی سیاح نے پوچھا ، آپ کو کتنا وقت لگا اِن خوبصورت
کیاریوں کو بنانے میں ۔ مالی نے مسکرا کر جواب دیا ، اِ ن کیاریوں کو بنانے
میں تو چند ماہ ہی لگے ہیں مگر عوام کو یہ بتانے میں برسوں لگے کہ اِنہیں
توڑنا نہیں ہے ۔ پاکستان میں بھی عوام کو سیاحت کے آداب سیکھانے کی ضرورت
ہے ۔ کوئی ادارہ آگے بڑھے اور یہ ذمہ داری اُٹھائے ۔ ورنہ عوام تو ثقافتی
ورثوںکوتباہ کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھا ہی رہے ہیں۔
|