مانچسٹر کی سیر
کچھ عرصہ قبل انگلستان کے معروف اور تاریخی شہرمانچسٹر جانے کا اتفاق
ہوا۔ہم لوگ یوسٹن سٹیشن لندن سے مانچسٹر کے لئے دو بجکر چالیس منٹ پرروانہ
ہوئے۔کہتے ہیں وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔انگلستان میں توگاڑی بھی کسی کا
انتظار نہیں کرتی۔ہماری ٹرین حسب پروگرام عین وقت پر یوسٹن سٹیشن لندن سے
روانہ ہوئی ہے اور عین مجوزہ وقت پرمنزل مقصود پر پہنچ گیا۔ یہ سفر خاصا
دلچسپ اور معلوماتی تھا۔ٹرین میں آرام دہ نشستیں تھیں ۔ اتفاق سے میری نشست
کے سامنے میز کی بھی سہولت تھی جس سےہم نے کما حقہ فائدہ حاصل کیا۔
ایک دفعہ ہمارے ایک دوست بذریعہ ٹرین سفر کررہے تھے۔رستہ میں انہوں نے کسی
کو فون کرنا شروع کردیا اور حسب عادت بآواز بلند بولنا شروع کردیا۔ساتھی
مسافروں نے انہیں بڑے آرام سے سمجھا دیا کہ آپ کے فون کی وجہ سے ہم ڈسڑب ہو
رہے ہیں۔ اس سےآپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرین کے ڈبے میں کیسا سکون
ہوگا۔ٹرین میں ایک مختصر سی دوکان بھی تھی۔جس میں کھانے پینے کے علاوہ دیگر
بنیادی اشیاء خریدنے کی سہولت بھی موجود تھی۔
نعمت ہے یا زحمت
مسافر بڑے ہی آرام و سکون سے بغیر کسی دھکم پیل کے اپنی اپنی نشستوں پر
براجمان ہوگئے۔اکثر احباب نے جلد ہی اپنے لیپ ٹاپس یا ٹیلی فونز آن
کرلئے۔اس دور کی ایجادات نے تو انسان سے انسان کا رشتہ ہی ختم کردیا ہے۔ایک
دوسرے کےپاس بیٹھ کر بھی کسی دور کی دنیا میں جا بستے ہیں۔بسا اوقات کئی
لوگ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں۔لیکن ہر کوئی اپنے اپنےفون پر کہیں اور
ہی مصروف عمل ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی مہلک بیماری ہے۔ جس نے پیار اور محبت
کے انسانی رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔کہتے ہیں اس ٹیلی فون کی وجہ سے
دنیا میں ہر سال ہلاکتوں کی تعداد ملی ملین تک پہنچ چکی ہے۔ایک دور تھا جب
ہمارے ماحول میں بڑی عمر کے لوگ ہی ضعف بصارت کی وجہ نظر والی عینک لگایا
کرتے تھے۔لیکن اب اس سوشل میڈیا کی مہربانی سے نظر والی عینک بوڑھوں بزرگوں
کے علاوہ بچوں اور نوجوانوںمیں بھی عام ہوتی جارہی ہے۔
مجھے یاد آگیا ہے۔چند یوم قبل میں نے ایک وڈیو کلپ دیکھی۔جس میں ایک نوجوان
خاتون اپنے بچے کو گود میں اٹھائے فیڈر کے ذریعہ دودھ پلانے کی کوشش کررہی
ہے۔ اس کےساتھ ہی ایک بلی بھی بیٹھی ہوئی ہے۔خاتون اپنے موبائل میں اس قدر
محو ہے کہ فیڈر سے بچے کی بجائے بلی دودھ کے مزے لے رہی ہے۔
لندن سے مانچسٹر 208 میل کے فاصلہ پر ہے۔ بذریعہ کارسفر کیا جائے تو پانچ
گھنٹے کے قریب وقت لگ جاتا ہے۔اگربذریعہ بس جائیں تو ٹریفک پر منحصر ہے
۔چار سے سات گھنٹے تک صرف ہوجاتے ہیں۔جبکہ ٹرین پر صرف دو گھنٹے اور دس منٹ
لگتے ہیں۔
گورنمنٹ برطانیہ کی انسان پروری
برطانیہ گورنمنٹ اپنے شہریوں کی اعانت اورفلاح بہبود کے لئے بہت ساری
سہولیات فراھم کرتی ہے۔خاص طور پر بوڑھوں ،بچوں اور کمزوروں کے اندرون ملک
سفرلئے خصوصی مراعاتی پیکجز ہوتے ہیں۔
ساٹھ سال سے بڑی عمر کے شہری اندور ن لندن بذریعہ بس،ٹرین اور ٹرام مفت سفر
کرتے ہیں۔جبکہ ایسے افراد کو اندرون ملک بھی رعایتی ٹکٹ کی سہولت میسر
ہے۔اگر کوئی شہری زیادہ بیمار ہے ۔اس کے رعایتی ٹکٹ کے علاوہ اس کی دیکھ
بھال کرنے والے کو بھی رعایتی ٹکٹ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس سفر
مانچسٹر میں مجھے بھی بیماری اور بڑی عمر کی وجہ سے اس سہولت سے مستفید
ہونے کا موقعہ مل گیا۔
تعارف مانچسٹر شہر
-
v یہ انگلستان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔جو لندن سے دوسو آٹھ میل کے فاصلہ پر
واقع ہے۔
v سن دو ہزار تیرہ کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی پچیس لاکھ سے
زائدہے۔
v جن میں پاکستانی افراد کی تعداد پینتالیس ہزار کے قریب ہے۔کیونکہ 2011میں
بیالیس ہزار نو سو تھی۔
v 1979سے پہلے یہ ایک جاگیردانہ بستی رہا ہے۔
v کسی زمانہ میں مانچسٹرریلوے اسٹیشن دنیا کا پہلا ریلوے اسٹیشن تھا۔
v ایک دور میں دنیا بھر میں معروف صنعتی شہر ہونے کا اعزاز رکھتا تھا۔
v 1853میں اسے شہر کا درجہ دیا گیا۔
v 1894میں یہاں کی معروف مانچٹر شپ نہر کا افتتاح ہوا ۔جس سے یہاں بندرگاہ
بنی۔
v سیاحت کے اعتبار سے لندن ،ایڈنبرا کے بعد اسی شہرکانام آتا ہے۔
v علمی میدان میں بھی اس کا بڑا مقام ہے۔اس میں دو معروف یونوےرسٹیاں ہیں۔
v یہ ملک کی تیسری بڑی معیشت ہے ۔
v یہاں سائنس دانوں نے پہلی بار ایٹم کو تقسیم کیا، اور پہلا سٹورڈ پروگرام
کمپیوٹربنایا۔
v مانچسٹر کے مضافات میں لور پول،نارتھ ویز،لنکائشربلیک پول اوربرن پول
وغیرہ قابل دید شہر ہیں۔
v عزیزم محمد احمد خورشید کا گھر ہے جو ھُیوم (Hulme)کے علاقہ میں ہے۔ان کے
گھر سے چند منٹ کی پیدل مسافت پر سٹریفورڈ پر ھُیوم پبلک لائبریری ہے۔جس کے
عین سامنے بس سٹاپ ہے۔
ودنشاو اسپتالWythenshawe hospital
میں چونکہ ڈیالسز کا مریض ہوں۔مجھے اپنی بیماری کی نسبت سے ہر دوسرے روز
ڈیالسز کے لئے اسپتال جانا پڑتا ہے اور ہر بار اس سیشن پر پانچ سے چھ گھنٹے
لگ جاتے ہیں۔کسی بھی دوسرے اسپتال میں اگر یہ ڈیالسز کرانے ہوں تو مریض کو
کم ازکم ایک ماہ قبل دوسرے شہر والے سنٹر یا متعلقہ اسپتال سے رابطہ کرنا
پڑتا ہے۔جس پر دونوں اسپتالوں کے ما بین بہت سی رپورٹس کا تبادلہ ہوتا
ہے۔جس کے بعد مریض کو دوسرے ادراہ میں ڈیلسز کی اجازت ملتی ہے۔اس اس ساری
کاروائی کے بعد مجھے مذکورہ بالا اسپتال میں ڈیالسز کی اجازت ملی تھی۔
یہ اسپتال مانچسٹر ائرپورٹ کے مضافات میں ہے۔ جومیری قیام گاہ سےتقریباً
آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔
پہلی بار اسپتال جانا تھا ۔ماحول سے نا آشنائی تھی۔ڈیالیسز اڑھائی بجے
،بعداز دوپہر شروع ہونے تھے۔خاکسار عزیزم محمد احمد کے ساتھ بروقت پہنچ
گیا۔اپنی بار آنے پر ڈیالیسز شروع کیا۔سٹاف کی خوش خلقی اور برتاؤ سے میں
بہت متأثر ہوا۔ان کا طریق کار اور برتاؤ لندن میں ڈیالسز سٹاف سے بدرجہا
بہتر تھا۔
دن کیسے گزارا جائے
میری قیام گاہ کے قریب ہی ایک لائبریری تھی ۔سوچا وہاں جاکر کتب بینی کرتا
ہوں ۔لائبریری چلا گیا ۔کچھ وقت کے لئےمختلف کتابوں کی ورق گردانی کی اور
پھر وہاں سے باہر سڑک پر نکل آیا۔لائبریری کے دروازے کے قریب ہی بس سٹاپ
تھا۔نہ معلوم کہاں جارہی تھی ۔ سوچا چلو بیٹھ جاتے ہیں۔کیونکہ میرے پاس
فریڈم پاس ہے۔اس لئے جہاں بھی لے جائے گی ۔واپسی مشکل نہیں ہو گی۔
خیر اللہ کانام لے کر بس میں سوار ہوگیا۔۔ گورنمنٹ برطانیہ کی انسان پروری
ہے کہ ساٹھ سال کی عمر میں فریڈم کا تحفہ دے دیتی ہے۔جس کے ذریعہ آپ بہت سے
شہروں میں بغیر کسی کرایہ کر سفر کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنافریڈم پاس بس
ڈرائیور کی خدمت میں پیش کیا ۔جس نے حسب قواعد مجھے بلا معاوضہ ہی اپنی بس
پر سوار ہونے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ سوچا یہ بس جہاں تک جائے گی ۔وہاں سے
اسی بس پر واپس آ جاؤں گا۔
یہ دو منزلہ بس تھی ۔میں بس کی دوسری منزل پر جاکر بیٹھ گیا۔کیونکہ اونچائی
سےشہر کا نظارہ قدرےبہتر ہوسکتا تھا۔ بس اپنے روٹ پر خراماں خراماں دوڑتی
رہی۔راستہ میں بہت سی بلند وبالا عمارت دیکھنے میں آئیں۔
ابھی دس منٹ گزرے ہونگے کہ سڑک کی بائیں جانب مانچسٹر کا معروف زمانہ
یونائٹڈ فٹ بال سٹیڈم نظر آیا۔
اگر چہ میں خود تو فٹ بال کا اتناشوقین نہیں ہوں۔بہر حال فٹبال کے دیوانوں
کے لئےچند بنیادی معلومات سپرد قلم کئے دیتا ہوں۔
یونائیٹڈ مانچسٹر فٹبال سٹیڈیم
اس کلب کا آغاز 1878میں Newton Heath LYR Football Club کے نام سے ہوا۔
1902 میں اس کو مانچسٹر یونائیٹڈ کا نام دیا گیا ہے۔
اس میں 75000۰ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
ٹریفورڈ سنٹر
TRAFFORD CENTRE
تقریباً بیس منٹ کے دلچسپ اور معلوماتی سفر کے بعد بس ایک بڑے سے وسیع
وعریض احاطہ میں داخل ہوئی۔ دریافت کرنے پر علم ہوا کہ یہ مانچسٹر کا بہت
ہی معروف شاپنگ مول ہے جو Trafford centre کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ میری
بس کا آخری سٹاپ تھا۔بس رکی تو سب سواریاں اتر گِئیں ۔میں بھی ان کی اقتدا
میں بس سے نیچے اترا اور جس جانب اکثر لوگ جا رہے تھے میں بھی چل پڑا۔ابھی
چند ہی منٹ چلا ہونگا کہ ایک بہت ہی چکا چوند بازار میں داخل ہو گیا۔یہ بہت
ہی خوبصورت ،دیدہ زیب اور عالیشان عمارت ہے۔جس میں دوطرفہ دوکانیں ہیں ۔یہ
دومنزلہ بازار ہے۔ اوپر نیچے جانے کے لئے مختلف مقامات پر سیڑھیوں اور لفٹ
کی سہولیات موجود ہیں۔عمارت کےدرو ودیوار پر مصور ین کے دلآویز شہ پارے
مداحوں کی نظر شوق کے طالب ہیں۔ ساری عمارت شیشہ سے مسقف ہے۔ اس مارکیٹ میں
دائیں بائیں انسانی کاریگری اور صنعت کے بے نظیر نمونے دیکھ کے حیران ہوتے
ہیں۔لیکن جب نگاہیں بلند کرتے ہیں تو آپ کو بلند وبالا اور لامحدود و بے
کنارخوبصورت نیلگوںآسمان کی زیارت ہوتی ہے۔جس سے احساس ہوتا ہے کہ انسانی
تخلیق کتنی محدود ہے۔
بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہر گز
تمت بالخیر |