نیوزی لینڈ کا منفرد شہر، کروم ویل

نیوزی لینڈ کا شہر کروم ویل(Cromwell) ان تاریخی قصبوں میں شامل ہے جنہیں اس کی ابتدائی ہیت میں دوبارہ بنایا اور بسایا گیا۔ یہاں کشادہ سڑکیں ، فٹ پاتھوں کے کناروں پرگھاس کے قطعات اور پھولوں کے پودے، جگہ جگہ دلکش وسیع و عریض پارک اورسڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ سبزہ ، رنگا رنگ پھول ،درختوں کی قطاریں اور فا صلے پر بنے مکانات۔ نہ یہاں جدید دور کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں نہ گاڑیوں کا شور شرابہ۔دُھوئیں اور گردو غبار کا آزار ہے نہ انسانوں کی گہماگہمی۔پورے قصبے پرخاموشی اور سکون کا راج ہے۔ ایسے لگتا ہے یہاں وقت رُک گیا ہے۔یہ شہر ڈیڑھ دو صدی قبل کی زندگی جی رہا ہے۔ہم اس شہر کے خاموش حسن اور سکوت سے محظوظ ہوتے اس کے دوسرے کنارے پہنچے تو یکلخت نیلے پانیوں والی بہت بڑی جھیل ہمارے سامنے آگئی۔ یہ جھیل اتنی وسیع ہے کہ دور پہاڑوں کے دامن تک پھیلی ہوئی ہے۔ دائیں اور بائیں طرف اس کے کنارے نظر نہیں آتے۔ ان نیلے پانیوں کے پاس گاڑی روکتے ہی بہت سی خوبصورتیاں اور دلچسپیاں ہماری منتظر تھیں۔ جھیل کے کنارے سبز گھاس کے قطعے کارپٹ کی طرح نرم اور تصویر کی طرح سندر تھے۔ ان قطعات کے کناروں پر نیلے ،پیلے ،سرخ ،سبز اور سفید ہر رنگ کے پھولوں نے رنگوں کی برکھا برسائی ہوئی تھی۔ گھاس میں بنچ اور میزیں لگی تھیں۔ کیفے کے صحن میں رنگ برنگی خوبصورت چھتریوں تلے خوبصورت چوبی میزیں موجود تھیں ۔جن پر سیاح بیٹھے کھانے ،کافی اورماحول سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ وہاں ایک ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر بھی موجود تھا ۔ہم سنٹر کے اندر گئے تو ایک خاتون نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا ۔اس دلکش مگر پر وقار خاتون نے سیاحوں کی دلچسپی کے تمام مقامات کی فہرست اور نقشے وغیرہ دیے۔ میں نے پوچھا ’’ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو ہمیں کروم ویل شہر، اس جھیل اور ڈیم کے بارے میں کچھ بتائیے ۔ ‘‘

خاتون جس کا نام سارا تھا بولی ’’ آپ اتنی دُور آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ پہلے آپ بتائیں کیا پیئں گے،کافی یا چائے ۔‘‘

میں نے تکلف سے کام لینا چاہا تووہ بولی’’ آپ پریشان نہ ہوں کروم ویل کی مقامی حکومت نے سیاحوں کی خاطر مدارت کے لئے یہ فنڈ مختص کیا ہے۔‘‘

ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کافی لے کر سنٹر کے باہر رکھے بنچ پر آبیٹھے ۔اس وقت سنہری دُھوپ نے سماں باندھا ہوا تھا ۔ہمارے سامنے نیلے شفاف پانیوں میں چند رنگین بادبانی کشتیاں تیررہی تھیں ۔ہماری میزبان سارا بھی کافی کا کپ تھامے ہمارے سامنے بنچ پر آبیٹھی ۔ اس نے بتایا ’’ اس قصبے کی بنیاد 1863میں پڑی جب جان نامی ایک شخص نے یہاں اپنا ہٹ بنایا۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے گھر دو جڑواں بچے میری اور جین پیدا ہوئے ۔یہ بچے اس قصبے میں پیدا ہونے والے پہلے یورپین نسل گورے بچے تھے ۔اس سے پہلے ماؤری قبائل کے کچھ لوگ یہاں غاروں وغیرہ میں رہتے تھے۔ اس کے بعد ان دونوں دریاؤں میں بہ کر آنے والی لکڑیوں سے یہاں کاٹیج اور گھر بننے لگے۔ جب سونے کے کان کنوں کا رش تھاتو یہاں ہوٹلوں کی تعداد تیس تک پہنچ گئی تھی۔ پھردریا کے کنارے گھروں اور گھوڑوں کے اصطبلوں میں اضافہ ہونے لگا۔

1871ء تک کروم ویل کی آبادی 497افراد تک پہنچ گئی جو, اب2022 میں پانچ ہزار ہے ۔ جہاں تک سونے کا تعلق ہے اس دریااور یہاں کی کانوں سے کتناسونا نکلا اس کا درست علم تو نہیں۔ تاہم سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1873ء تک یہاں سے19947اونس خالص سونا نکالا گیا۔ جہاں تک اس جھیل کا تعلق ہے تو یہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہاتھوں کا کارنامہ ہے۔ جس جگہ ہم آج بیٹھے ہیں یہ نوّے کی دہائی میں بسایا گیا ہے۔ جھیل جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے اس کے نیچے پرانا کروم ویل شہر دفن ہے۔ ان تاریخی عمارتوں کو اپنی اصل شکل میں محفوظ رکھنے کے لیے حکومت ، مقامی رضاکاروں اور ہنرمندوں نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کیا۔ کچھ عمارتیں پوری کی پوری اُٹھا کر دوسری جگہ منتقل کی گئیں اور کچھ کو اسی میٹریل اور اسی نمونے کے تحت دوبارہ اسی شکل میں بنادیا گیا۔ یوں پورا شہر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔ نئے ڈیم سے نہ صرف یہ دودریا آپس میں مل گئے بلکہ اس کے ساتھ اس نئی جھیل نے جنم لیا ۔جس نے1980ء سے پہلے کاکروم ویل دیکھا تھا اب دیکھے تو حیران رہ جائے گا ۔اُسے لگے گا کہ جنات نے پورا شہر اُٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح اس وسیع و عریض جھیل کو دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ انسانی ہاتھوں نے اتنا بڑا کام انجام دیا ہے ۔یوں نیوزی لینڈ کی حکومت اوراس کے شہریوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ‘‘

میں نے پوچھا ’’ چینی کان کنوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا اوران کان کنوں کی نیوزی لینڈ میں قانونی اور سماجی حیثیت کیا تھی؟ ‘‘

سارا نے بتایا ’’ امریکہ اور آسٹریلیا کی نسبت نیوزی لینڈ میں چینیوں کی آمد دیر سے شروع ہوئی ۔جب یورپین کان کن کمپنیاں یہاں سے واپس چلی گئیں تو بچا کھچا سونا ڈُھونڈنے کی مشکل مہم کے لیے چینیوں کو بلایاگیا۔ یہ زیادہ تر چین کے جنوبی حصے کو رنگ ٹونگ سے آئے تھے کیونکہ وہاں سب سے زیادہ غربت تھی۔ 1865سے 1900ء تک چینی وزٹ ویزے پر مزدوری کے لیے نیوزی لینڈ آتے رہے۔ اس دوران میں ان چینیوں کی زندگی کافی مشکل تھی۔‘‘ سارہ ہر سوال کا تسلی سے جواب دیتی تھی جیسے پروفیسرہو۔جب یہی بات میں نے کہی تو وہ ہنس کر کہنے لگی’’ آپ کا اندازہ غلط نہیں ہے۔ میں ریٹائرڈ پروفیسر ہوں ۔وقت گزاری کے لئے یہ جاب کررہی ہوں ۔ ‘‘

سارا نے دوسری مرتبہ ہمیں حیرانی سے دوچارکیا۔وہ یونیورسٹی پروفیسر تھی اور تاریخ پڑھاتی رہی تھی ۔ اب وہ اس چھوٹے سے قصبے کے اس چھوٹے سے دفتر میں کام کرتی تھی جہاں صفائی ستھرائی سمیت تمام کام اس کے ذمہ تھے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ نیوزی لینڈ ہے جہاں سٹیٹس ،سٹینڈرڈ اور عہدوں اور کرسیوں کی نہیں بلکہ اخلاق اور محنت کی قدر کی جاتی ہے۔ یہاں وزیر اعظم بھی اپنا دفتر خود صاف کرتا ہے۔ اپنے گھر کا سارا کام خود کرتا ہے ۔ اپنی گاڑی خود دھوتا ہے۔ اپنے گھر کی گھاس بھی خود کاٹتا ہے ۔ دفتر میں اپنی چائے بھی خود بناتا ہے کیونکہ اس ملک میں چپراسی اور کلینر نہیں ہوتے۔ یہاں ڈرائیور اور خانساماں رکھنے کا بھی رواج نہیں ہے کیونکہ ان کی تنخواہ ادا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہاں امیر اور غریب کے طرز حیات اور معیار زندگی میں فرق بہت کم رہ جاتا ہے۔ اگر تھوڑا بہت فرق ہو بھی تو کوئی امیر اپنی امارت کا رعب نہیں جما سکتا ہے اورنہ کم آمدنی والا کسی کے رُعب میں آتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں یہاں سب برابرہیں ۔یہ اس معاشرے کی خصوصیت اور یہی اس کا طرّہ امتیاز ہے۔
 

Tariq Mehmood Mirza
About the Author: Tariq Mehmood Mirza Read More Articles by Tariq Mehmood Mirza: 39 Articles with 40133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.